ابوالکلام قاسمی شمسی
سدرشن چینل اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ کے ڈیبیٹ کا معاملہ اب حقیقت سے زیادہ عقیدت کا ہوگیا ہے ، اور عقیدت کے آگے حقیقت بے اثر ھے ، ہمارے یہاں عقیدت کا ایک عجیب رنگ یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ جس شخصیت سے کسی کو عقیدت ہوتی ہے تو ان کے عقیدت مند ان کے بارے میں اپنی عقل کو بھی دور رکھ دیتے ہیں ،اور ان کی معمولی کوتاہی کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں ، حالانکہ انسان ہونے کے ناطے بہت سی کوتاہیوں کا امکان ہوتا ہے ،کیونکہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے ۔
سدرشن چینل پر حضرت محترم مولانا ارشد مدنی صاحب کے انٹرویو کا قضیہ ابھی تک نہیں تھما ہے ، کوئی یہ لکھ رہے ہیں کہ مسکت جواب دیا ، کوئی لکھ رہے ہیں کہ ان سے بہتر کوئی جواب نہیں دے سکتا ،کسی نے یہ تحریر کیا کہ مولانا کو انٹرویو میں جانا نہیں چاہئے ، یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ٹی وی ڈیبیٹ میں علمائے کرام کی اینکر کے سامنے کسمپرسی اور بے عزتی کو دیکھتا رہا ہوں ، میں نے محسوس کیا کہ ڈیبیٹ میں حصہ لینے والے اکثر علماء اور دانشور ذہن کے اعتبار سے اتنے تیار نہیں ہوتے ہیں ، جتنی تیاری کی ضرورت ڈیبیٹ یا مناظرہ میں پڑتی ہے ، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ مار پیٹ اور ہفوات تک کی نوبت آجاتی ہے ، پھر یہ ڈیبیٹ کا معاملہ ہار جیت تک پہنچا دیا جاتا ہے ، اینکر کی جانب سے مخالف فریق کی آواز بند کردی جاتی ہے ، اور زور زور سے بول کر اس کی آواز دبادی جاتی ہے ، پھر ڈیبیٹ میں شریک مسلمان اور اسلام کے ترجمان مولانا اور دانشور کو شکست خوردہ قرار دیدیا جاتا ہے اور اسلام اور مسلمانوں کی توہین شروع ہو جاتی ہے۔
میرے بچپن کا واقعی ہے ، میرے گاؤں میں ایک پہلوان غفار شاہ تھے ، وہ کشتی میں پورے علاقہ کے استاذ تھے ، ان کا ایک غیر مسلم پہلوان شاگرد تھا ، اس نے مرحوم غفار شاہ کو چیلنج کیا کہ ہم آپ سے دنگل لڑنا چاہتے ہیں ، گاؤں کے بڑے لوگوں نے ان کو منع کیا کہ وہ شاگرد ہے ، اس سے دنگل نہ لڑیں ، خدا نخواستہ کچھ ہوگیا تو پورے علاقہ کے مسلمانوں کی عزت چلی جائے گی ، مگر وہ غیر مسلم شاگرد بار بار چیلنج دیتا رہا ، بالاخر مجبور ہوکر انہوں نے چیلنج قبول کر لیا ،کشتی کی تاریخ طے ہوگئی ، پورا علاقہ اس خبر کو سن کر دنگ رہ گیا ، وقت مقرر سے پہلے بھیڑ جمع ہوگئی ، مقابلہ شروع ہوا ، چند منٹ کے بعد ہنگامہ شروع ہوگیا کہ غفار شاہ ہار گئے ، غفار شاہ ہار گئے ، چونکہ ایک مسلم پہلوان کی ساکھ کو ختم کرنے کے لئے ایسا کیا گیا تھا ، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ، پھر ہر طرف برسوں یہی چرچا رہا کہ غفار شاہ پہلوان اپنے شاگرد سے ہار گئے ۔
سدرشن چینل اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب کا مقابلہ کچھ ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے ، اس چینل کے اینکر کا یہ مقصد تھا بھی نہیں کہ وہ اسلام کی حقانیت کو واضح کرے ، اس کے بجائے اس کا خیال یہ تھا کہ اسلام اور مسلمان کے عقیدہ کو غلط ثابت کرے ، اور اکابر علماء کی توہین اور ان کو بے اثر کرے ، وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ، ہر طرف ہنگامہ ہے حضرت مولانا اور سدرشن چینل کا ، آپ واٹس ایپ پر لکھتے رہئے ، مگر اس کا چینل اور دوسرے چینل یہ خبر پھیلا رہے ہیں کہ ہمارے بڑے عالم ،شیخ الحدیث ،دارالعلوم دیوبند کے مؤقر استاذ اس کے سوالات کے جوابات نہیں دے سکے ۔
بہرحال یہ مقابلہ تھا ، اس کا نتیجہ تو آنا تھا، وہ آیا ، البتہ مقابلہ کا دستور یہ بھی ہوتا ہے کہ شروعات اول اور دوسری ٹیم کے بجائے آخری ٹیم سے کی جائے ، اول ٹیم کو تو میدان میں نکلنے کا موقع ہی نہیں آنا چاہئے ، چونکہ سپہ سالار کا کام فوج کو لڑانا اور اس کو بڑھانا ہوتا ہے ، اسی وجہ سے شاید وہ اپنا موقع آنے نہیں دیتا ہے ۔
حضرت مولانا جیتے یا نہیں ، معاملہ یہ نہیں ہے ، بلکہ معاملہ یہ ہے کہ ایسے شاطر سے مقابلہ کے لئے خود میدان میں اترنے سے پہلے اپنے شاگردوں کو اتارنا چاہئے تھا ، یقیناً یہ اکابر علماء کے لئے سبق ہے ، اس لئے بات یہ نہیں ہے کہ سدرشن چینل کے انٹرویو میں حضرت مولانا جیتے یا نہیں ، بات یہ ہے کہ سپہ سالار کو پہلے اپنی فوج کے لوگوں کو میدان میں اتارنا چاہئے تھا ، حکمت عملی کا تقاضہ یہی تھا ۔