راہل گاندھی جی ! اس تیور کو برقرار رکھیے

ثناءاللہ صادق تیمی
2014 کے لوک سبھا الیکش میں بری طرح شکست سے دوچار ہونے کے بعد ملکی سطح پر کانگریس کی جو شبیہہ بنی تھی اور جس طرح سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگی تھیں کہ کانگریس اب ملک کا ماضی ہے ، حال یا مستقبل نہیں ، اس میں اب کہیں نہ کہیں تھوڑی تبدیلی آنےلگی ہے ۔ لوک سبھا انتخاب سے پہلے ہی کانگریس نے جیسے اپنی شکست تسلیم کرلی تھی ، اس کے بڑے بڑے نیتا خاموش تھے ، حد تو یہ تھی کہ دو ٹرم میں اس نے جو کام کیے تھے ، اسے بھی وہ ٹھیک سے عوام تک نہیں لا پائی تھی ۔ ملک نے مودی جی پر بھروسہ کرتے ہوئے انہیں ریکارڈ جیت سے ہمکنار کیا تھا ، ان کے وعدے بھی بڑے لبھانے والے تھے لیکن آدھی مدت گزارنے کے بعد بھی وہ وعدے وعدے ہی ہیں بلکہ خود ان کی پارٹی نے بعض وعدوں کو انتخابی جملہ کہا ہے ۔ اس بيچ ملکی سطح پر جمہوری قدروں کی پامالی دیکھنے کو ملی ہے، آربی آئی سے لے مختلف دوسرے اداروں کا استقلال اور آزادی خطرے میں نظر آئی ہے ، تعلیمی اداروں میں خاص ذہنیت رکھنے والوں کو زبردستی بٹھایا گيا ہے، طلبہ کو سڑکوں پر آنا پڑا ہے ، ادباء شعراء کو اپنا ایوارڈ واپس کرنا پڑا ہے، ملک کے اقلیتوں میں سراسیمگی رہی ہے اور ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ دیش بڑی تیزی سے ہندوتو کی طرف جارہا ہے ۔ روزگار کے مواقع کیا بڑھتے ، لوگوں کے اکاؤنٹ میں پندرہ لاکھ کیا آتے الٹے نوٹ بندی کے زير اثر وہ خود اپنے پیسینے کی کمائی کے لیے ترس کر رہ گئے ہیں، پچاس دن سے زيادہ کا عرصہ گزرگیا ہےاور نوٹ بندی کے برے اثرات ختم نہيں ہوئے ۔ حد تو تب ہوگئی جب آرٹی آئی کے ذریعہ یہ معلوم ہوا کہ آر بی آئی کو اس بات کا علم ہی نہيں کہ نوٹ بندی کے بعد کتنے پیسے چھاپے گئے ہيں !!
ڈھائی سال سے پہلے کی مدت پر نظر دوڑائیے تو پورے ملک میں لے دے کر کیجریوال یا پھر جے این یو کے کنہیا کمار اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھاتے نظر آرہے تھے ، لالو یادو نے بہار الیکشن کے موقع سے ضرور ماحول بنایا اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے لیکن ملکی سطح پر اپوزیشن کا وجود باضابطہ محسوس نہيں ہوا لیکن اب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے کانگریس کو جس دن کا انتظار تھا وہ دن آگیا ہے ۔ اب تک جو پارٹی ڈیفینس کرتی نظر آرہی تھی وہ اب اٹیک کرنے کے رویے کے ساتھ آگے بڑھنے کا ارادہ ظاہر کررہی ہے اور یہ ایک اچھی بات ہے ۔ راہل گاندھی نے جس طرح ڈریے نہیں ڈارائیے کا فارمولہ دیا ہے وہ اپنے آپ میں خوب ہے ، انہوں نے کھل کرکہا ہے کہ اچھے دن تب آئیں گے جب 2019 میں کانگریس جیت کر آئے گی ، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اب کانگریس تھوڑی زیادہ سرگرمی کے ساتھ میدان میں آئے گی ۔ اس بیچ یہ بھی قابل ذکر ہے کہ پرینکا گاندھی کو میدان میں لے آیا گیا ہے ، یوپی الیکشن کے لیے ڈمپل یادو اور پرینکا گاندھی کے بیچ کی ملاقات اور اتحاد بنانے کی کوشش کو بہت محدود پیمانے پر نہیں دیکھا جانا چاہیے ۔ ڈھائی سال کے عرصہ کے گزرنےکے بعد کئی سطحوں پر مودی حکومت کو گھیرا جاسکتا ہے ۔ مہنگائی ، بے روزگاری ، وعدہ خلاقی ، جمہوری اداروں کے استقلال کی پامالی ، کالا دھن اور کرپشن سے جڑی غلط دعویداری اور سب سے بڑھ کر یہ کہ نوٹ بندی سے پیدا ہونے والی اقتصادی ایمرجینسی کی کیفیت ۔ اگر مکمل اعتماد اور تیاری سے کانگریس نے حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی تو اس کا فائدہ بہرحال اسے ملے گا ۔ جاننےکی بات یہ بھی ہے کہ اب کانگریس کے پاس گنوانے کے لیے کچھ بچا بھی نہیں ہے ، بھکتوں کو چھوڑ دیجیے تو عام آدمی بہر حال ناراض ہے اور اس ناراضگی کا مظاہرہ وہ الیکشن کے موقع سے کرسکتے ہيں ۔
راہل گاندھی کو اپنا یہ تیور برقرار رکھنا ہوگا ، ان کے پارٹی کارکنان کو لوگوں تک پہنچنا ہوگا ، آن لائن اور ڈور ٹو ڈور کمپین سے کام لینا ہوگا ، اسی طرح انہیں سیاسی اتحاد سے بھی کام لینا ہوگا ، کہیں جھکنا تو کہیں جھکانا ہوگا لیکن سمجھداری دکھانی ہوگی ، سیکولر پارٹیوں سے جڑنا ہوگا تبھی جاکر وہ کچھ کر پائیں گے ۔ اتنی مدت گزرنے کے بعد مودی جی کا جادو اترنے لگا ہے ، عوام کو اب سمجھ میں آرہا ہے وہ بھاشن دینا جانتے ہیں لیکن اس طرح سے وکاش پرش نہیں ہیں جس طرح کا ہنگامہ مچایا گیا تھا ۔ کانگریس پہلی بار اس تیور میں نظر آرہی ہے ، اپنے کارکنان اور عوام میں اپنے تئیں یقین جگانے کے لیے بھی یہ ایک اچھی پالیسی ہےلیکن یہ اہم ضرور ہے کہ یہ تیور مدھم نہ پڑے ، رکے نہیں بلکہ مسلسل چلتا رہے ۔ آرایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں مختلف ہتھکنڈوں سے انہيں گھیرنا بھی چاہیں گیں ، خود مودی جی اوچھے حملوں سے بھی کام لے سکتے ہیں لیکن انہیں تیار رہنا ہوگا کہ اب اگر وہ اپنے اس تیور سے پیچھے ہٹتے ہیں تو یہ ان کا اور ان کی اپنی پارٹی کا ہی نقصان ہوگا ۔

SHARE