طہٰ جون پوری
انسان اس مختصر سی زندگی میں مختلف الجھات شخصیتوں سے ملاقات کا شرف حاصل کرتا ہے۔ کچھ شخصیتیں مینارہ نور ہوتی ہیں جن سے شمع ہدایت روشن ہوتی ہے. کچھ شخصیتیں ہزاروں مردہ دلوں کے لیے اکسیر ہوتی ہیں اور ان کے قلوب میں روحانی حیات کی روح پھونک دیتی ہیں. کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جن سے زہد و تقوی کا چشمہ ابل پڑتا ہے. کچھ ایسی نابغہ روزگار شخصیتیں ہوتی ہیں، جن سے فیضان معرفت کا سیل رواں جاری وساری ہو جاتا ہے، اور کچھ شخصیتیں جبال العلم ہوتی ہیں، جن کے علمی مناھل سے ہزاروں تشنگان علوم نبویہ سیراب ہوتے ہیں. آخر الذکر شخصیتوں میں ایک نام، عظیم المقام حضرت مولانا شیخ عبد الحق صاحب اعظمی رحمہ اللہ بھی ہیں.
حضرت شیخ سے پہلی ملاقات-
قیام دارالعلوم دیوبند کے ابتدائی ایام میں، حضرت شیخ کے علمی کاشانے پر حاضری سے ڈر تا تھا کیونکہ چند احباب(پتہ نہیں کیوں) کے بقول حضرت کبھی غصہ بھی ہوجاتے ہیں( بلڈ پریشر کی وجہ سے) لیکن ایک دن زیارت کی نیت سے اپنے مخلص رفیق درس مولانا ابوذر پوٹریا ( جو ا اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں، کرے اللہ انہیں غریق رحمت: آمین) کے ہمراہ آپ کے علمی کدے پر حاضری ہوا، اور باہر سے ہی سلام عرض کیا. پوچھا کون؟ دبی آواز میں جواب دیا”طہ“. پوچھا کون طہ؟ سہم کر بولا “گورینی سے“ اور یہی صورتحال مولانا ابوذر مرحوم کے ساتھ بھی پیش آئ. میں کمرے میں اندر گیا تو ششدر رہ گیا کہ اتنے بڑے شیخ اور ایسی سادہ زندگی، لیکن تبھی اچانک سامنے ایک شعر پر نظر پڑی.
“ہم غریبوں کی یہی ہے کائنات،
بوریا حاضر ہے شاہوں کے لیے“
یہ شعر دیکھکر سمجھ میں آگیا اور اسلاف و اکابرکی “شنیدہ” زندگی کی یاد تازہ ہو گئی، چاروں طرف سے اس وقت حضرت کو کتابوں میں گھرا پایا تھا، اب بجا طور پر اس شعر:
“ہمیں دنیا سے کیا مطلب، مدرسہ ہے وطن اپنا،
مریں گے ہم کتابوں پر، ورق ہوگا کفن اپنا“
کا مصداق سمجھ میں آگیا کہ یہی وہ ہستیاں ہیں جو اس معیار پر پورا اترتی ہیں اور سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کر لیتی ہیں. اور آنیوالی نسلوں کو اپنے کردار سے درس عبرت دیکر رخصت ہو جاتی ہیں.
“ریاض العلوم“ اور “پوٹریا“سے وابستگی:
شیخ صاحب کو “گورینی”(ریاض العلوم) سے کافی لگاؤ تھا. آپ مدرسہ عربیہ ریاض العلوم گورینی کے تعلق سے بات بھی کیا کرتے تھے. بانی مدرسہ “مرشد امت حضرت مولانا عبد الحلیم صاحب“ -رحمہ الله رحمۃ واسعۃ- کے حالات زندگی اور کمالات کو بیان کرتے تھے. آپ کی بڑی خواہش تھی کی میرا بیٹا وہاں مدرس بن جائے، کیونکہ آپ کے بیٹے نے وہاں بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ جس کا تذکرہ حضرت شیخ کرتے، چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ اپنے صاحبزادے مولانا عبد البر صاحب کے لیے گورینی مدرسے میں پڑھانے کے لیے مجھ سے پیغام بھی بھیجا تھا۔ لیکن
ع تدبیر یکسر خاک ہے، تقدیر کے آگے.
اور حضرت شیخ ثانی کی یہ تمنا بر نہ آئ.
آپ کا “پوٹریا” سے دلی تعلق تھا اور ہوتا بھی کیوں نہیں؟ آپ کے ماہر فن استاذ “مولانا مسلم صاحب جون پوری“ رحمہ اللہ اسی گاؤں”پوٹریا“ کے رہنے والے تھے. اور آپ نے شیخ کے والد کا سایہ اٹھنے کے بعد، کفالت اور سرپرستی کی. اور یہی وجہ تھی کی آپ اہل پوٹریا کو بھت قریب سے جانتے تھے. وہاں کے اکثر لوگوں کو نام سے جانتے تھے اور اپناپورا پیار دیتے تھے.
شیخ ثانی رح کی شفقت و عنایت:
آپ کی شفقت و بے لوث محبت کو پردہ خفا میں رکھنا، حضرت شیخ ثانی کی شخصیت سے خیانت ہوگی۔ عصر کے بعد آپ کے در پر حاضر ہوتا، تو وہ وا ہوتا. شیخ ثانی علیہ الرحمہ مجھے کبھی کھجور، کبھی بسکٹ، اور کبھی شیرینی کھلاتے. اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں بہت ہی کم ظرف انسان تھا، کیوں کہ شیخ ثانی علیہ الرحمة مجھے کھلاتے تو ہی، میں یہ جملے بارہا کہکر (اور وہ بھی اپنی علاقائی زُبان میں) کہ دادا یہ سب خراب ہوجائے گا، کھانے دو نا، مزید لے لیتا، لیکن اس پر بھی شیخ مسکراتے اور شفقت کامعاملہ کرتے. تکمیلِ تعلیم کے بعد جب کبھی ملاقات کے لئے حاضر ہوتا، تو ضرور بالضرور آپ دعوت طعام دیتے.
شیخ ثانی علیہ الرحمۃ کے احسانات:
آپ کے میرے اوپر بہت احسانات ہیں۔ آپ نے مجھے اپنے سامنے بخاری شریف جلد ثانی کے تقریباً ڈھائی سو صفحات پڑھنے کا بیش بہا موقع عنایت فرمایا۔ اس درمیان آپ پیار بھرے انداز میں کبھی کبھی ڈانٹ پلاتے۔ اب جب آپ کے ان پیارے جملوں کو سنتا ہوں، تو دل کہتا ہے کہ ایک بار پھر سے آپ کے سامنے درس میں بیٹھوں اور وہ شفقت بھری ڈانٹ سنوں، لیکن اب یہ تمنا بھی دھری کی دھری رہ گئی اور شیخ تو چلے گئے۔ اب کس سے جاکر کہوں کہ میری یہ تمنا پوری کردو۔ قیام دارالعلوم دیوبند کے زمانے میں مجھے ایک منزل میں رہائش کیلئے سیٹ (Berth) کی ضرورت تھی. جو لوگ اس علمی سمندر سے اپنے ڈول بھر چکے ہیں، وہ اس سے واقف ہیں کہ شروعات میں اپنے موافق رہائش کے لیے سیٹ ملنا مشکل ہوتا ہے. میں نے اپنے کرم فرما شیخ سے سفارش کیے لئے کہا اور آپ نے میری وہ منزل آسان کردی۔
اجلاس مدرسہ شیخ الہندؒ انجان شہید:
سال 2012 میں مدرسہ شیخ الہند، انجان شہید، اعظم گڑھ، کے اجلاس میں جانے کے لیے منظوری دیدی، آپ کا ٹکٹ’ نو چندی ایکسپریس، سے اے، سی، کلاس میں تھا، میں لیکر آگیا، ایک رفیق سفر کی ضرورت تھی، جو آپ کی سفری ضروریات کو بحسن و خوبی انجام دے سکے. میں نے تلاش بسیار کے بعد ایک خیر خواہ مولانا ارشد چمپارنی (جو اس وقت برودرہ، گجرات، میں واقع مرکز المعارف ممبئی، سے ملحق ایک انگریزی ادارہ میں لیکچرار ہیں) سے شیخ ثانی کے ساتھ جانے کی درخواست کی، موصوف تیار ہو گئے اور راستے میں ایسی خدمت کردی، کہ شیخ ثانی علیہ الرحمۃ بے انتہاء خوش ہوئے اور بہت دعائیں دیں. جب کہ موصوف محترم کی(berth) سیٹ کنفرم نہیں تھی. پوری رات موصوف آرام نہیں کیے. واپس آنے کے بعد شیخ نے ان کی بڑی تعریف کی-
ظرافت طبع:
ایک مرتبہ یونہی تذکرہ آیا کہ چار شادی کی اسلام میں اجازت ہے، تو میں نے ظرافتا حضرت شیخ سے کہا: آپ کی تین ہو چکی ہے، اللہ کرے چوتھی بھی پوری ہوجاوے اور سنت بھی ادا ہوجاوے. مسکرا کر فرمانے لگے: تو تو چاہتا ہے کہ میری بیوی انتقال کرجائے.
حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے شیخ ثانی علیہ الرحمہ کا شاگرد ہونے کا شرف تو حاصل ہی ہے، اس بات کا کھلے لفظوں میں اعتراف ہے کہ وہ میرے لئے بھت ہی محسن اور خیر خواہ بھی تھے. آپ کی یادیں اور باتیں میری زندگی کے ساتھ ہیں.
بس یہ گناہ گار رب کریم کے حضور دعا گو ہے کہ مالک شیخ ثانی علیہ الرحمۃ کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے. اس محسن اور اور کرم فرما شخصیت کو اپنی بے پایاں رحمتوں سے ڈھانپ لے. آپ کی قبر کو جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری بنادے. جنت کی ٹھنڈی ہوائیں چلا دیجیئے۔
آمین یا رب العالمین۔
9004797907