مولانا ابرار احمد قاسمیؒ : اجالے ان کی یادوں کے

ڈاکٹر عمر فاروق قاسمی

استادودیا پتی پلس ٹو ہائی اسکول بسفی مدھوبنی بہار

9525755126

 راقم الحروف کی عمر تقریباً یہی آٹھ دس سال کے درمیان رہی ہوگی، مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ کے سابق استاد غالباً ماسٹر یونس صاحبؒ کی درس گاہ میں ”یسرناالقرآن” ، ” اردو کا قاعدہ ” یا دینی تعلیم کا رسالہ نمبر1 کازمانہ رہا ہوگا کہ کسی جمعرات کو بعد نماز ظہر پینٹ شرٹ پہنے ہوئے، ہاتھ میں مچھلی کاشکار کرنے کے لیے ”بنسی” والی ”لگّی” لے کر مدرسہ کے سامنے سے، یہ سمجھ کر گزر رہا تھا کہ آج تو چھٹی ہی کا دن ہے، شام تک مچھلی کا شکار کروں گا اور مزے لوٹوں گا کہ اچانک ایک رعب دار آواز کانوں سے ٹکرائی۔ اے لڑکا ادھر آؤ! بائیں مڑ کر دیکھا تو ایک انتہائی وجیہ اور بارعب چہرہ کی حامل شخصیت دفتر کے سامنے کھڑی تھی ۔ دیکھتے ہی ایسا لگا کہ ہاتھ مفلوج ہوگیا ہے اور پاؤں شل ہوگیا۔ نہ آگے بڑھنے کی ہمت تھی نہ پیچھے بھاگنے کی طاقت ۔ بھاگنا تو ممکن نہیں تھا کہ کل تو پھر مدرسہ آنا ہی ہے۔ ’’ بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔؟ ‘‘ آج نہ سہی کل ہی سہی ”روز جزا ” آنا ہی ہے، ہاتھ میں ’’لگّی‘‘ لیے، پینٹ شرٹ میں ملبوس اسی حالت میں پکڑے گئے مجرم کی طرح آواز کی طرف چل پڑا۔ دفتر کے سامنے کھڑی شخصیت نے پہنچتے ہی ہاتھ کی لگی چھین کر دوچار لگیوں سے پیٹھ پرلگے میل وکچیل کو دور کردیا۔محمود العلوم کے اس ’’عہد زریں ‘‘ میں جمعرات کو بعدنماز ظہر تقریر و نعت وغیرہ کی تیاری میں بچے لگ جایا کرتے تھے، تاکہ بعد نماز مغرب انجمن اصلاح اللسان کے پروگرام میں مناسب انداز میں شمولیت ہوسکے ،جس کی تیاری ظہر کے بعد ہی سے شروع ہوجاتی تھی. لہذا مجرم نمبر 1تو اس بنیاد پر ٹھہرا کہ ”تیاری” کی جگہ” ترکاری” کے انتظام میں کیوں لگ گیا؟ اور عدالت عالیہ میں دوسرا گناہ یہ ثابت ہوا کہ مدرسہ کے’’ روایتی لباس‘‘ کرتا پاجامہ کی جگہ’’ روایت شکن‘‘ لباس پینٹ اور شرٹ میں کیوں گھوم رہا تھا؟ گاؤں سے آنے جانے کی وجہ سے میں مدرسہ کے ان دونوں قوانین سے خود کو آزاد سمجھتا تھا۔ یہی سمجھ کر مدرسہ کے آگے سیلاب کے بچے ہوئے پانی میں مچھلی کے شکارکے لیے نکل گیا تھا۔ مجھے کیا معلوم کہ جس ” لگّی ” سے مچھلی مارنے جارہا ہوں اسی لگی سے خود ہی مار کھا جاؤں گا۔ فہمائش اور تادیبی کارروائی کے بعد انھوں نے پینٹ شرٹ کی” کراہت” اور انجمن اصلاح اللسان میں شرکت کے فوائد بتاکر رخصت کردیا۔ اس شخصیت کا نام مولانا ابرار احمد قاسمی ہے جو اُس وقت اِس مدرسہ کے مہتمم تھے ۔

 زندگی کا یہ بہت معمولی واقعہ تھا؛مگر یہ واقعہ میرے لیے بہت ہی اہم ثابت ہوا۔ انگریزی لباس سے اس دن جو دوری بنی وہ آج تک برقرار ہے اور اس کے بعداسے زیب تن کرنے کاکبھی شوق پیدا نہیں ہوا۔اور جمعرات کو ظہر بعد پروگرام کی تیاری کرنے کا ایسا مزاج بنا کہ پھرہر ہفتہ یا ہر دوسرے ہفتہ کوئی نہ کوئی تقریر یا نظم یاد کرکے ہی پروگرام میں جاتا ۔

  1995/94 کے آس پاس میں عربی درجے میں آگیا۔عربی درجہ کے طلبہ پر ان کی خاص توجہ ہوتی ،وہ اپنی موجودگی کے زمانے میں دفتر یا اس کے باہر بیٹھ جاتے، جن طلبہ کے گھنٹے خالی ہوتے یا جس کلاس کے اساتذہ غیر حاضر ہوتے وہ ان طلبہ کو متعلقہ کتابوں کے ساتھ طلب کرلیتے ۔ متعلقہ کتابوں سے سوالات کرتے ۔صحیح جواب دینے والے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتے ۔سوال و جواب سے نا آشنا طلبہ اور کبھی کبھی متعلقہ استاد کو بھی ڈانٹ پلادیتے ،جس کی وجہ سے وہاں بیٹھنے والے طلبہ ہمیشہ امتحان کی تیاری کے موڈ میں رہتے ۔ان کے اس دور کو محمود العلوم کا ’’ عہد زریں ‘‘ یعنی سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ انتظامی امور کے لیے باہر نہیں جاتے ۔علاقائی پنچایت اور معاملات میں وہ حصہ نہیں لیتے ؛ لیکن ان سبھوں کے باوجود تعلیمی امور پر ان کی خاص توجہ ہوتی ۔مدرسہ کی موجودگی کو وہ اساتذہ اور طلباء کی نگرانی میں صرف کرتے۔ نماز سے قبل مسجد میں اچانک کسی طالب علم کو کھڑا کر کے اس کے بال اور ناخن چیک کرلیتے ۔ مجھے یہ اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسہ کے اطراف کی بستیوں سے آمد رفت کرنے والے طلبہ عصر کی نماز پڑھے بغیر ہی بھاگنے کی کوشش کرتے، جن میں دملہ کے طلبہ بھی شامل تھے ۔ شروعاتی دور میں، میں بھی اسی تارکین صلوۃ بھگوڑے طلبہ میں شامل تھا ۔ مدرسہ کے پیچھے کھیتوں میں زیادہ تر گنّے کے کھیت تھے ،ہم لوگ اسی میں چھپ چھپا کر بھاگنے کے لیے کوشاں رہتے، کیونکہ اس زمانے میں عصر کی نماز پڑھے بغیر دفتر کے سامنے عام راستے سے بھاگنا ناممکن تھا۔ ان کی موجودگی میں مدرسہ کے عقبی حصے سے بھاگنا بھی بہت مشکل تھا ،کیوں وہ کہ دفتر کی کھڑکی سے بھاگنے والے طلبہ کو دیکھ لیا کرتے تھے ۔ اور کل ہو کر پھر اس طالب علم کی خیر نہیں ہوتی ۔ اس بہانے عصر کی نماز پڑھنے کی میری عادت بن گئی۔

 اساتذہ اور طلباء پر ان کا رعب ہمیشہ طاری رہا،طلبہ کے درمیان وہ ’’ باگھ ‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔ کٹھیلا چوک سے مدرسہ کے درمیان کوئی آبادی نہیں تھی، غالباً اکاک گھر ہی آباد تھے ۔ اس لئے جیسے ہی ان کی سائکل کٹھیلا چوک سے مدرسہ کی جانب روانہ ہوتی ۔ اساتذہ اور طلبہ دیکھتے ہی اپنے اپنے محور پر ناچنے لگتے ۔ اگر دو اساتذہ آپس میں محو گفتگو بھی ہیں تو ان کے سائکل کی رفتار دیکھ کر ان کی سانس کی رفتار تیز ہوجاتی اور سارے لوگ اپنے اپنے کلاس میں دوڑ جاتے۔

 مدرسہ میں خارجی مداخلت کو وہ قطعی برداشت نہیں کرتے ۔ طلبہ کی عزت نفس کا وہ پورا خیال رکھتے ۔طلبہ کے آپسی جھگڑے میں درجولیہ کے ایک صاحب نے اپنے بھائی کی حمایت میں ہمارے ایک ساتھی کی پٹائی کردی ۔ مولانا کی رگ حمیت بھڑک اٹھی اور جب تک عوامی مٹنگ میں ان صاحب سے اٹھ بیٹھ نہ کرالی خاموش نہیں رہے ۔ کسی خارجی آدمی کی کیا ہمت تھی کہ مدرسہ کے کسی بھی طالب علم کو انگلی بھی لگا دے ۔

 نصاب تعلیم کی تکمیل کے حوالے سے وہ بہت ہی حساس تھے۔ مجھے یاد آرہا ہے کہ ہر مہینے کے اعتبار سے نصاب پر مشتمل ان کے پاس ایک رجسٹر موجود تھا۔ مہینہ ختم ہونے کے بعد وہ رجسٹر کبھی تو اساتذہ کے پاس گھوم جایا کرتا، اور کبھی طلبہ کو بلا کر ہی مقروئہ نصاب اور مجوزہ نصاب کا جائزہ لے لیا جاتا ۔ اس سے نصاب کی تکمیل میں بہت ہی مدد ملتی ہے۔ اسی بنیاد پر اس مدرسہ کی تاریخ میں بانی مدرسہ کے بعد ان کے دور کو سب سے اچھا دور مانا جاتا ہے۔یہاں تک ان کے پکے مخالفین بھی ان کی اس خوبی کو تسلیم کرتے ہیں ۔ مولانا عزم و حوصلہ کے حامل انسان تھے ۔ فرقہ وارانہ فسادات کی آہٹ کے موقع جرأت مندانہ فیصلہ لیتے مدرسہ چلانے میں بھی وہ کل بل چھل تینوں طریقے کا ستعمال کرتے ۔ْ

 مولانا ابرار صاحب کی پیدائش آزادی ہند سے تقریباً دو سال پہلے 1945 میں کٹھیلا کے ایک متمول خاندان میں ہوئی، والد کا نام حبیب الرحمن تھا ۔ والدہ کا نام جنۃ النسا تھا ،آپ سارے بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے مکتب میں شروع کی، اس کے بعد ناظرۂ قران اور فارسی سے لے کر عربی سوم تک مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں تعلیم حاصل کی ۔1961مطابق ۱۳۸۲ھ میں مدرسہ مظاہرالعلوم سہارنپور میں درجہ عربی چہارم کے لئے داخل درس ہوئے ۔ مولانا وقار صاحبؒ، مفتی مظفر حسین ؒ، شیخ ذکریا اور ان کے صاحبزادے مولانا طلحہ صاحبؒ آپ کے اساتذہ میں سے ہیں۔ اس زمانے میں شیخ یونس صاحب فراغت کے بعد شرح جامی کی سماعت کر رہے تھے، چنانچہ شرح جامی میں شیخ یونس صاحب آپ کے ساتھیوں میں سے بھی ہیں۔

 مظاہر العلوم کے بعد 1962مطابق ۱۳۸۳ ھ میں درجہ پنجم کے لیے دارالعلوم دیوبند میں داخلۂ امتحان دیا اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ یہاں تقریباً چار سال رہنے کے 1965 عیسوی میں سند فراغت حاصل کی ۔قاری محمد عثما ن صاحب سابق نائب مہتمم دارالعلوم دیوبند، مولانا سید ولی رحمانی سابق جنرل سیکرٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، اور مدرسہ رحمانیہ مونگیر کے شیخ الحدیث عبدالزاہد آپ کے درسی ساتھیوں میں سے تھے ۔یہاں آپ نے شیخ نصیر خان صاحب سے جلالین شریف، مولانا انظر شاہ سے مختصر المعانی، مولانا سالم صاحب سے ہدایہ اور علامہ فخر الحسن مرادآبادی سے بخاری شریف پڑھی ۔ ان کے دیگر اساتذہ میں مولانا معراج صاحب، مولانا خورشید، اور قاری طیب وغیرہم شامل تھے۔

 فراغت کے بعد مدرسہ اشرف العلوم کنہواں میں1966سے 1967 تک صدر مدرس رہے،1967میں مدرسہ تجوید القرآن سمڈیگا ضلع رانچی میں صدر مدرس کی حیثیت سے بحال کئے گئے ۔ ایک سال تک صدر مدرس رہے، اس کے بعد مہتمم بنا دیئے گئے ۔جب قاضی مجاہد الاسلام صاحبؒ مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ کے سرپرست بنائے گئے تو قاضی صاحب انھیں سمڈیگا سے محمود العلوم لے آئے۔ چنانچہ 1979 کے آخیر میں یا 1980کے شروع میں بحیثیت مہتمم محمود العلوم دملہ میں بحال کر دییے گئے ۔تقریباً سولہ سترہ سالوں تک مدرسہ محمود العلوم کے مہتمم رہے ۔اس درمیان آپ نے مدرسہ کے لیے کئی بیگھے اراضی بھی حاصل کئے ۔ان کے عہد میں مدرسہ کے وقار میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ مقامی دباؤ اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر قاضی صاحب نے انھیں سبکدوش کردیا، لیکن دارالعلوم الاسلامیہ پٹنہ کے اہتمام کی پیش بھی کر دی ۔مولانا نے والدین کی خدمت کی وجہ سے اس پیش کش کو نکار دیا ۔ علاقے کے ذی ہوش افراد کے اصرار پر اپنے ہی گاؤں میں لڑکیوں کے لیے جامعہ فیضان القرآن کٹھیلا کی بنیاد ڈالی یوںاس طرح علاقے کی لڑکیوں کے لئے دینی علوم کی روشنی کا انتظام ہوا۔ الحمد للہ بچیوں کی تعلیم و تربیت میں اس ادارے نے نمایاں کردار ادا کیا ہے۔

  اُس وقت میری معلومات کے مطابق ہمارے علاقے بل کہ ململ کے علاوہ شمالی بہار کے اکثر حلقوں میں نقاب صرف شادی شدہ لڑکیاں ہی پہنتی تھیں اور وہ بھی گاؤں سے باہر دوسرے علاقوں میں جانے کے لیے۔ غیر شادی شدہ لڑکیاں نقاب کا استعمال بالکل نہیں کرتی تھیں اور شادی شدہ عورتیں بھی اپنے محلے میں ایک دوسرے کے گھر جانے کے لیے نقاب کے استعمال پر توجہ نہیں دیتیں، گویا نقاب کا چلن باہر جانے کے لیے تھا محلے میں جانے کے لیے نہیں؛ لیکن ململ کا ماحول اس حوالے سے بہت خوب صورت تھا۔ لڑکیاں جیسے ہی بالغ ہوتیں نقاب ان کے جسموں پر چڑھ جاتا۔ وہ اپنے محلے کی رشتہ داروں کے یہاں بھی جاتیں تو نقاب میں ملبوس ہوکر۔ مولانا ابرار احمد قاسمی نے ململ کے بعدبسفی کے حلقے میں اس تہذیب کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔الحمد للہ اس علاقے کی بچیاں بھی شادی سے پہلے نقاب میں ملبوس دکھائی دیتی ہیں۔ اس ادارے کے بعد علاقے کی بچیوں کے اردو تلفظ میں بھی خوشگوار تبدیلی آئی ۔

 مولانا انسان تھے کوئی فرشتہ نہیں، بیشک ان سے بھی اسی طرح غلطیاں ہوئی ہوں گی بل کہ ہوئیں جس طرح ہم آپ سے ہوا کرتی ہیں، ہندوستان کے موجودہ نظام میں مدارس چلانے میں جن مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،ان میں غلطیوں کے امکانات کچھ زیادہ ہی ہیں، پھر یہ کہ اجتماعی کام میں ہر ایک ماتحت اور عوام کے ہر گروپ کو خوش رکھا بھی نہیں جاسکتا ،ہرایک کا زاویہ نظر الگ ہوتا ہے، کوئی ضروری نہیں کہ آپ کے عمل سے ہر ایک انسان خوش رہے، نیت ، دیانت اور اخلاص کا حال تو اللہ ہی جانتا ہے۔ ہم ظاہر پر ہی حکم لگا سکتے ہیں۔منفی اور مثبت جہتوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ مولانا ایک غیرمعمولی انسان تھے، جس نے تقریباً ۵۵سال تک ہزاروں تشنگانِ علوم کو سیراب کیا ۔ میدان عمل میں آنے والا کھلاڑی کبھی ’’چوکے‘‘ ،’’چھکا ‘‘لگاتا ہے تو کبھی آوٹ بھی ہوتا ہے، بہت سارے بال اس سے یوں ہی ضائع ہوجاتے ہیں، اپنی حیثیت سے وہ خوب جانتا ہے کہ اس بال کو روکنا چاہیے تھا یا مارنا؟کبھی اس کا فیصلہ صحیح ہوتا اور کبھی غلط۔کبھی مارنے والے بال پر وہ نہیں مار پاتا ہے اور کبھی نہ مارنے والے بال کو مارنے کی غلطی کر بیٹھتا ہے۔ مولانا بھی میدانِ علم عمل کے لمبے عرصے تک انتہائی تیز و تند کھلاڑی رہے جس میں غلطیاں بھی ہوسکتی ہیں؛ تاہم ہمیں مذہب اسلام کی نشر اشاعت کے حوالے سے ان کے ۵۵سالہ طویل خدمات پر نظر رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی ہمیں ’’اپنے مردوں کی خوبیوں کے تذکرہ کرنے ‘‘کا حکم ہے کمیوں اور کوتاہیوں کا نہیں۔

 ایک اہم اور بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ عزم و حوصلہ کے دھنی انسان تھے، الزامات و اتہامات کی ہر طرف سے بارش ہورہی ہو؛ لیکن وہ ہمت و حوصلہ نہیں ہارتے۔ پتہ نہیں کہ وہ الزامات و اتہامات میں حق پر تھے یا ناحق؛ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اندر سے بہت مضبوط انسان تھے، مخالفتوں کے طوفان کو اپنا ہم نوا بنانے کا ہر ہنر جانتے تھے۔ اس حوالے سے بلاشبہ وہ ایک کامیاب مہتمم تھے کہ وہ حالات موافق ہوں یا ناموافق میدان عمل میں ڈٹے رہے ، جگہ چاہے انھیں بدلنی پڑی لیکن اپنے عزم کے پاؤں میں کبھی لغزش نہیں آنے دی ۔

پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ پانچ لڑکے ایک لڑکی ہیں جو اس طرح ہیں شمس الدین، مولانا شہاب الدین قاسمی، ضیاء الدین قاسمی، رضاء الدین قاسمی ، صباح الدین، اور فرحت جہاں. اللہ مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے، آمین۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com