تیری عظمت و استقامت کو ہزار سلام

مفتی محمد انصار قاسمی

23/جنوری2024 کو دیر رات ایک لمبے سفر سے واپسی کے بعد دہلی میں واقع امام قاسم اسلامک ایجوکیشنل ویلفیئر ٹرسٹ انڈیا کے آفس میں کچھ کام میں مشغول تھا،اسی بیچ مولانا نعمت اللہ قاسمی نے اطلاع دی کہ مولانا عبد الحلیم ندوی امام وخطیب مرکز الیاس لندن کے والد حاجی منظور صاحب (سوالدہ مجھوا ارریہ) اللہ کے پیارے ہوگئے ،اناللہ وانا الیہ راجعون کے بعد مولانا سے اظہار تعزیت کیا اس کے تھوڑی دیر بعد چار بجے مبائل پر گھنٹی بجی،دیکھا کہ مولانا حمید الدین صاحب کے صاحبزادے محمد اشرف سلمہ ہے ،دل‌میں‌ خیال آیا کہ کیا ہوا ؟مولانا حمید الدین صاحب ادھر ایک سال سے بیمار چل رہے تھے ،طبیعت میں اتار چڑھاؤ بھی ہورہاتھا،گذشتہ کئی مہینوں سے ڈائلسس(dialysis) بھی ہورہا تھا،جس کی وجہ سے بستر پر تھے،آنکھ کی بینائی بھی چلی گئی تھی،لیکن وہ ہردم اپنے آپ کو ہمت وحوصلہ کے ساتھ رہتے اور یہ امید کرتے کہ رب کریم صحت کامالک ہے ان شاءاللہ ضرور شفایابی ہوگی،سبب اور تدبیر کارگر ہوگی،کیوں کہ اس سے قبل کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مولانا بہت بیمار ہوئے ،ڈاکٹر نے بہت ساری باتیں کہ کر ناامیدی کا اظہار کردیا ،لیکن مولانا اچھے ہوجاتے،درس وتدریس کے لئے بھی آنے لگتے،ملنے جلنے والے ان کی ڈھلتی صحت اور کمزوری کو دیکھ کر تعجب کرتے،ابھی 10/ جنوری کو میں سفر میں تھا ان سے بہت دیر تک بات ہوئی کہنے لگے دعاء کیجیے گا الحمد للہ ٹھیک ہوں

اشرف نے بتایا کہ ابا انتقال کرگئے آہ یہ کیا ہوگیا! قاری ظفر اقبال مدنی نے میسج کیا کہ صدر صاحب نہیں رہے انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھا۔

پھر کیا تھا یادوں کی ایک بہار اور ان کے ساتھ کام کرنے کے درمیان ان کی شفقت ومحبت اور جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے ابتداء سے لے کر ان خدمات اور قربانیوں کالامتناہی سلسلہ ،ان کی نرم دم گفتگو گرم دم جستجو ،ان کی باغ وبہار شخصیت کے کئی پہلو ،ان کی عین جوانی کی وہ شکل وصورت جو اپنے آپ میں اثرو رسوخ رکھے ہوئی۔بہر حال موت کا ایک دن متعین ہے وہ آکر رہنا ہے ہاں ایک شخص سارے شہر کو ویران کرگیا

مولانا حمید الدین صاحب اصلا رہنے والے تھے ارریہ ضلع کے کھابدہ رواہی گاؤں کے ،ان کے والد منشی محمد عثمان مرحوم تھے جو بہترین کاتب فارسی اور اردو کے استاد اور فارسی میں شعر گوئی کا ہنر جانتےتھے،

مولانا کی شادی مدھوبنی حاجی ٹولہ میں محمد شہاب الدین کے صاحبزادی سے ہوا ،پھر اسی کے چند سال بعد 5/ستمبر 1999کو جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سے تدریس کے لئے بحال ہوئے،پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے،اور ایسا رچ بس گئے یہیں اپنا گھر بھی تعمیر کیا اور آج آخری آرامگاہ بھی مدھوبنی کا قبرستان ہوا،

مولانا حمید الدین صاحب جب جامعہ میں آئے تو یہ بہت ابتدائی دور تھا،چھپر‌اور پھوس کے کچے مکانات ( thatched and mud house ) تھے،جامعۃ القاسم مکتب سے نکل کر موجودہ جگہ پر آیا ہی تھا، اس بے آب و گیاہ وادی میں مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رح جن سے ان کا تعلق مظاہر علوم سہارنپور کے پڑھنے کے زمانہ سے ہی تھا ان کے مضبوط معاون بن گیے،ان کے کندھے کو مضبوط کیا،حالات کے پیچ و خم نے بہت الٹ پھیر کیا،لیکن وہ مشن میں لگے رہے،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی کے وژن کو وہ جانتے تھے اس لئے بڑی کٹھنائیاں اٹھائی ،مشقتیں برداشت کیں ،پرتاپ گنج سے جامعہ آنے تک نہ راستہ تھا اور نہ ہی پل اپنے کندھوں پر جامعہ کے سامان کورکھ کر نہر عبور کرتے اور جامعہ کے باگ ودر کو سینچتے،لوگ بتاتے ہیں کہ مدھوبنی میں بجلی تک نہیں تھی ان حضرات کی انتھک کوشش سے اس گاؤں میں لائٹ کا انتظام ہوا،اس طرح جامعۃ القاسم کو پروان چڑھایا ،جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ کے لئے وہ ایک بنیاد کے پتھر تھے،ان کی طبیعت میں بھی ایک عجب خاص قسم کی سنجیدگی اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کا ہنر تھا،بولنے والا بول رہا ہے ،مخالفتیں بھی ہورہی ہے لیکن وہ سنی ان سنی کردیتے،فورا جواب دینے کے عادی نہیں تھے،طبیعت مرنجا مرنج تھی ،وہ اپنے بڑوں کا بہت احترام کرتے،ان کے یہاں معافی کا بہت دروازہ تھا کہتے کہ بدلہ لینے سے اچھاہےمعاف کرنا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے واعف عمن ظلمک واحسن من اساء الیک،پھر کہتے کہ میرا رب بھی مجھے معاف کردے گا،کئی موقع پر میں نے دیکھا کہ وہ چاہتے تو بہت کچھ کرسکتے تھے لیکن در گذر سےکام لیا،یہ سب انہوں نے اپنے والد مرحوم سے سیکھا تھا،مفتی‌مظفر حسین صاحب رحمۃ اللّٰہ علیہ سابق ناظم مظاہر علوم وقف سہارنپور کی خدمت میں رہ کر آداب اور اصول زندگی جاناتھا،جس پر ان کی زندگی گامزن تھی،

مولانا کے اندر بہت ساری خوبیاں تھیں لیکن عہدہ کا حرص نہیں تھا ،جو کام مل جائے کرنا ہے ،میں نے خود دیکھا کہ اتنے بڑے کہ موجودہ وقت میں جامعہ میں موجود ان کے درجن بھر استاذ شاگرد ،لیکن چھوٹاسے لےکر بڑا کام خود کررہے ہیں حتی کہ ضرورت پڑنے پر جامعہ کی صاف صفائی تک خود سے کررہےہیں ،ہیں ناظم اور استاد لیکن کتنی مرتبہ دیکھا کہ‌جامعہ میں باورچی بیمار ہے یا نہیں ہے تو ان کا ساتھ دینے لگتے خود سے کھانا بناتے بچوں کو کھلا کر خوش ہوتے، ان کے آواز میں ایک عجب طرح کی مٹھاس اور انداز بیاں دل پذیر تھا کسی کا بھی وہ دل موہ لیتے اور مدرسہ کی موجودہ ضرورت ان سے پوری کرالیتے،جامعۃ القاسم کے قدیم لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی صدارت کا دور بہت دلچسپ رہا،وہ ایک باوقار انداز میں اپنے کاموں کے انجام دیتے ،علاقہ میں بھی بہت سارے حضرات ان کو صدر صاحب ہی کہتے ۔وہ ایک زمانہ تک مدرسہ کی مسجد میں جمعہ کے امام وخطیب اور تاحال گاوں کے عیدین کے امام بھی رہے ،جب‌وہ خطابت کے لئے جاتے تو بالکل شاہانہ انداز اور جملے بھی ناپ تول کر استعمال کرتے ،تقریر مختصر کرتے لیکن موثر گفتگو اور دلوں میں اتر جانے والی بات کرتے،اپنے آواز کے جادو سے سامعین اور حاضرین کا دل جیت لیتے ،انداز درس نرالا ہوتا،طلبہ کو پڑھاتے ہوئے درمیان میں اشعار اور حکایات بھی سناتے ،کن کن خوبیوں کا تذکرہ کروں

وہ اپنے چھوٹوں پر بہت شفیق خود مجھے یاد ہے کہ میں پہلی مرتبہ جامعۃ القاسم کے لئے روانہ ہوا،مولانا محمد رضوان الحق قاسمی نے ان کا نمبر دیا کہ ان سے رابطہ کرلیجیے گا ،میں دربھنگہ سے سیمانچل کی طرف پہلی مرتبہ جارہا تھا ،نہ کوئی شناسا تھا اور نہ ہی راستہ سے واقفیت ،حال یہ ہے کہ دربھنگہ سے پورے دن میں اس وقت گنتی کے چند بس جاتی تھی،بہت زیادہ آمدورفت کے ذرائع نہیں تھے،جب میں گھر سے نکلا تو ان کو بتایا کہ آرہا ہوں ،پھر کیا تھا وہ بار بار فون کرکے احوال دریافت کرتے رہے،جامعہ کے سامنے کسی کو موٹر سائیکل سے شاہراہ(NH) پر بھیج دیا ،عصر سے قبل میں پہنچا اپنے روم میں پہلے دسترخوان لگوایا اور کہا کہ اس ٹفن میں اپنے گھر سے کچھ بنواکر لایا تھا پہلے کھانا کھالیجیے،آپ بہت دور سے آئے ہیں ،آہ کیا شفقت ومحبت کامعاملہ تھا اور وہ کیسے واردین وصادرین سے حسن سلوک اور حسن ضیافت کا معاملہ کرتے اس سے اندازہ لگائیے۔ایک زمانہ تک دیکھا کہ حضرت مفتی صاحب رحمۃ اللّٰہ جب تک جامعہ میں ہوتے ان کے اور ان سے ملنے جلنے والوں کا خاص خیال مولانا ہی رکھتے،ان کی زندگی میں بہت نستعلقیت تھی، وہ ہرچیز کو سنبھال کر اور سلیقہ سے رکھتے ،بےترتیب چیز کو مرتب کرتے ،وہ شروع سے پان کے رسیا تھے،پان کا ایک جھولا ان کے ساتھ رہتا،اس جھولے میں ہر چیز کا الگ الگ حصہ اور حساب سے رکھتے ،ایک‌مرتبہ ادیب العصر قاری شبیر احمد صاحب تشریف لائے روانگی سےقبل مجھ سے کہ عزیزم پان مل جائے گا ،میں نے مولانا سے کہا وہ کہنے لگے دو منٹ کا وقت ،جب میں قاری صاحب کو پان دیا وہ کہنے لگے جس نے بنایا وہ بہت خوب ہے پھر انہوں نے مولانا سے ملاقات کی اور کہا کہ یہ سلیقہ مندی اب کہاں ہیں ،

   مولانا کی مجلس بھی الگ ہوتی ،ہاں اس بات کا بھی خیال ہوتا کہ مجلس میں کون ہے میں نے دیکھا کہ مولانا صغیر احمد رحمانی سابق استاذ جامعہ رحمانی مونگیر کے پاس ہوتے تو پھر شاگردیت کا اعلی نمونہ ،مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رحمۃ اللّٰہ ہم عصر تھے ساتھ ہی ذمہ دار جامعہ تو پھر اس کا بھی پاس ولحاظ رکھتے کہ ذمہ دار اور نگراں کی حیثیت کیا ہے، مولانا مرحوم کے دو اہم دوست مولانا عبدالمتین صاحب رحمانی بانی جامعہ علوم اسلامی گڑھیا،اور مولانا ضیاء اللہ ضیاء رحمانی سابق استاذ جامعۃ القاسم کی اکثر جامعہ حاضری رہی ہے جب یہ حضرات بیٹھتے تو مولانا کی مجلس کا انداز الگ ہوتا ان کی زندگی کے دلچسپ واقعات مجلس کا رنگ دوبالا کرنے کےلئے دوست ازراہ مزاح چھیڑتےتو مولانا مسکرا کر آگے بڑھ جاتے۔مولانا کی بڑی خوبی یہ تھی کہ اپنے شاگردوں سے ہمیشہ رابطے میں رہتے ،ان کے کاموں سے خوش ہوتے ان کے آگے بڑھانے کی فکر کرتے ،رفیق محترم مولانا محمد انصار الحق قاسمی جامعہ کے فیض یافتہ ہے ،دارالعلوم سے فراغت کے بعد مفتی محفوظ الرحمن عثمانی رح کے مشورہ سے سبحان چوک کے قریب العثمان ایجوکیشنل اکیڈمی قائم کیا،افتتاحی تقریب میں میں بھی شامل تھا،تمام لوگوں کی تقریر کے بعد بحثیت صدر مولانا تشریف لائے عوام سے پوچھا کہ آپ کو معلوم ہے کہ جامعۃ القاسم نے آپ کو کیا دیا ؟جامعہ القاسم نے مولانا انصار الحق ،مولانامقصود اور مولانا اسلم (یہ سب جامعہ کے فیض یافتہ ہیں)کودیا اب یہ سب آپ کے گاوں میں تعلیم کی شمع روشن کررہے ہیں ،آپ اس کے رفیق بنیے فریق نہیں ،العثمان کی ترقی کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ،اسی طرح ان کے شاگردوں میں مفتی نبی حسن مظاہری،مولانا محمد عقیل قاسمی ،مولانا محمد اسماعیل قاسمی مولانا محمد تجمل قاسمی ،مولانا محمد آزاد قاسمی ،مفتی ظفیر الدین ،مولانا محمد فیاض قاسمی ،قاری مشتاق احمد اور دیگر شاگردان جو ملک وبیرون ملک خدمت انجام دے رہے ہیں ان کا تذکرہ کرتے، میں نے ایام بیماری میں ان کو دیکھا کہ وہ ہردم دعاء کررہے ہیں ،میں اور قاری ظفر اقبال مدنی 20/دسمبر 2023 کو سفر میں نکلنے سے پہلے مولانا کی خدمت میں گیا،مولانا لیٹے ہوئے تھے بہت ساری دعائیں دی اور کہا کہ نکلئے اللہ اپنی نصرت ومدد فرمائیں گے ،مولانا بہت ساری خوبیوں کے مالک تھے رب کریم ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com