عامر سلیم خان صاحب کا انتقال اردو صحافت کا بہت بڑا خسارہ اور ناقابل تلافی نقصان ہے۔ وہ ملت کے مسائل پر گہری نظر رکھتے تھے اور ان ایشوز پر خبریں لکھتے تھے جسے عمومانظر انداز کردیاجاتاہے ۔ حالیہ دنوں میں اردو کے وہ واحد صحافی تھے جو ملت اسلامیہ ہند کے مسائل پر بیباکی کے ساتھ اسٹوریز کررہے تھے ۔ ملی تنظیموں اور مسلم لیڈروں کے تعلق سے ہمیشہ مثبت رخ اختیار کرتے تھے ۔ ہمارا سماج میں اداریہ بھی اہم مسائل پر تحریر کرتے تھے ۔ ملت ٹائمز کے دفتر میں کئی مرتبہ وہ آچکے ہیں ۔ جب بھی جامعہ نگر میں آتے تھے وہ ملت ٹائمز کے دفتر ضرورآتے تھے ۔کچھ ہی دنوں قبل ان سے فون پر بات ہوئی تھی ۔ آخری ملاقات لوک سبھا ایم پی کنور دانش علی کی رہائش گاہ پر شفیق الحسن صاحب کے اعزاز میں منعقد ہونے والے ایک پروگرام میں ہوئی تھی ۔ ایک ہفتہ قبل بھی کسی مسئلے پر بات ہوئی تھی ۔ مرحوم پریس کلب آف انڈیا کے بھی ممبر تھے اور ہمیشہ مجھے سپورٹ کرتے تھے ،الیکشن میں مشورہ کرتے تھے کسے ووٹ کرنا ہے ، کون امیدوار کیسا ہے ۔ ایک چھوٹے بھائی کی طرح میرے ساتھ حسن سلوک کرتے تھے ۔ مولانا کہہ کر مخا طب کرتے اور کہتے آپ نے شروع سے اپنی دنیا الگ بنالی ہے اور وقت کاجو تقاضا ہے اسی کا آپ نے انتخاب کیا ہے ۔چندہ ماہ قبل ہمارا سماج کے اداریہ میں انہوں نے اردوصحافت کی زبوں حالی کا تفصیلی جائزہ لیاتھا ۔ اس اداریہ کے حوالے سے میں نے ان سے فون پر بھی بات کی ، ہمارا سماج کے دفتر میں جب ایک مرتبہ اخبار کے چیف ایڈیٹر اور ایم ایل سی خالد انور کا انٹرویو لینے گیا تو میں نے اسی اداریہ پر بات کی اور کہاکہ آپ نے اردو صحافت کی حقیقی صورت حال کا تجزیہ کیاتھا ۔ اس پر کسی دن اطمینان سے ملت ٹائمزپر ایک انٹرویو کریں گے ۔ کہنے لگے بہت اچھارہے گا ۔مجھے اس بات کا ہمیشہ ملال رہے گا کہ اس موضع پر میں ان کا انٹرویو نہیں کرسکا۔
اسی سال شب برات کا واقعہ ہے ، میں اپنے مرحوم بھائی شمشیر عالم صدیقی کی قبر پر فاتحہ پڑھنے کی غرض سے مہندیان قبرستا ن گیاتھا ۔ واپسی کے وقت مہدیان مدرسہ کے باہر کرسی پر وہ بیٹھے ہوئے تھے ، ان کے ساتھ کچھ اور بھی لوگ تھے ، انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہاکہ قاسمی صاحب! آپ یہاں ۔۔میں نے کہا میرے بڑے بھائی شمشیر صدیقی یہاں دفن ہیں ۔ جولائی 2007 میں ان کا دہلی میں انتقال ہوگیا تھا جس کے بعد مہدیان قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی تھی ۔ کہنے لگے آپ نے کبھی تذکرہ نہیں کیا ۔ پھر انہوں نے میرے چھوٹے بھائی قیصر صدیقی کا ذکر کیا اور کہاکہ ابھی تو آپ کے ایک اور بھائی کا انتقال ہواتھا میں نے کہا جی ہاں ! قیصر کی وفات اکتوبر 2020 میں بہار میں ہوئی تھی ، دونوںکو ہارٹ کی شکایت تھی ۔ افسوس کے ساتھ کہنے لگے کیازمانہ آگیاہے چھوٹی عمر کے بچے بھی ہارٹ کے شکار ہورہے ہیں ۔ آج دیکھیے وہ خود بھی اسی کے شکار ہوگئے ۔ 9دسمبر کو انہیں شدید ہارٹ اٹیک آیا ، جی بی پنت ہسپتال میں ایڈمیٹ کیاگیا ، نازک صورت حال کی وجہ سے وینٹلیٹر پر رکھاگیا ، 12 دسمبر کی صبح ایک مرتبہ اور دل کا دورہ پڑا اور روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی ۔
ابھی ان کی کوئی زیادہ عمر بھی نہیں تھی ۔ زندگی کی صرف 48 بہاریں انہوں نے دیکھی تھی ۔اتر پردیش کے ضلع بستی میں ان کا آبائی وطن تھا۔ مدرسہ سے بنیادی تعلیم حاصل کی ۔ دہلی کی مشہور دینی درس گاہ جامعہ سنابل سے انہوں نے عالمیت اور فضیلت کیا اور صحافت سے وابستگی اختیار کی ۔ شروع میں انہوں نے روزنامہ ہندوستان ایکسپریس میں کام کیا ۔ روزنامہ سہار ادو سے بھی وابستہ رہے ۔ ہمارا سماج شروع ہونے کے بعد ڈاکٹر خالد انور کے ساتھ آگئے ۔وہ گزشتہ 13 برسوں سے روزنامہ ہمارا سماج سے جڑے ہوئے تھے اس سے پہلے وہ چیف رپورٹر کی حیثیت سے سر گرم تھے۔ مگر کچھ برسوں سے وہ ہمارا سماج کے ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھال رہے تھے۔ چند ماہ قبل انہوں نے ہمارا سماج کا یوٹیوب چینل بناکر ویڈیو پروگرام کا سلسلہ شروع کیاتھا ۔
مرحوم منہدیان میں مقیم تھے ۔ مرحوم کے وارثین میں اہلیہ اور تین بیٹے ہیں ۔ بڑا بیٹا پندرہ سال کاہے ۔ ایک ماہ قبل مرحوم عامر سلیم خان کے والد کا بھی انتقال ہواتھا ۔
جان کر منجملہ خاصان میخانہ تجھے
مدتوں رویا کریں گے جام وپیمانہ تھے