لاکمیشن کو آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کاتفصیلی مکتوب، خود لاکمیشن کے ذریعے طےکردہ مسئلے کو دوبارہ زندہ کرنےکی منشا پرسنجیدہ سوالات
نئی دہلی: (پریس ریلیز) آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے لا کمیشن آف انڈیا کو خط لکھ کر متنبہ کیا ہے کہ یکسانیت لانے کے نام پر شہریوں کےبنیادی حقوق میں مداخلت نہیں کی جاسکتی اور یہ کہ یکساں سول کوڈ کے طرفداروں کے افکار و نظریات میں خود بھی تضادات ہیں اور وہ قبائل اور عیسائیوں کو اس سےمستثنیٰ رکھنے کی بات کررہے ہیں تو پھر وہ بحث جس کو ابھی چند ہی سال پہلے لاکمیشن نے طے کردیا تھا کہ یہ نہ ضروری ہے اور نہ مطلوب اس کو دوبارہ زندہ کرنے کا کیا جواز ہے۔مسلم تنظیموں کے وفاق نے اپنے تین صفحات کے تفصیلی اور مدلل مکتوب میں بعض لوگ جس گوا سول کوڈ کو نمونہ بتارہے ہیں، وہ ایک تو عہد غلامی کی نشانیوں میں سے ایک ہے اور اس میں بھی سارے فرقوںکے لیے ایک قانون نہیں ہے، عیسائیوں اور ہندؤں کے لیے اس میں الگ الگ التزامات موجود ہیں۔ مشاورت نے اس مکتوب میں اس بحث کو اٹھانے کی منشا پرسوال اٹھاتے ہوئے لکھا ہے کہ موجودہ بحث کا وقت بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔سیاسی طبقے میں غیر ذمہ دار عناصرعام انتخابات کے موقع پر جذبات کو بھڑکانے اور ملک کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کے خیال کو ہتھیار بنائیں گے۔ اشتعال انگیز بیانات یکساں سول کوڈ کے حوالے سے دیے جارہے ہیں تاکہ ذاتی مفادات کی تکمیل اور انتخابی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ مورخہ ۱۱جون کو مشاورت کے صدر فیروزاحمد ایڈوکیٹ کے دستخط سے لاکمیشن آف انڈیا کے ممبر سکریٹری کو موصول کرائے گئے خط کا متن حسب ذیل ہے:
مکرمی جناب! براہ مہربانی میرامکتوب مورخہ 28جون 2023 ملاحظہ کریں جویکساں سول کوڈ کے سلسلے میں جاری کردہ آپ کے 14جون2023 کے نوٹس کے سلسلے میںہے۔آپ نے ہدایت کی ہے کہ جو لوگ یکساں سول کوڈ پر اپنی رائے دینا چاہتے ہیں وہ 30 دنوں کے اندر ایسا کریں۔ میں نے آپ کو بتایا تھا کہ ہمارے ملک کے لیے اتنے کثیراثرات کےکسی معاملے میں آپ کی طرف سے دی گئی 30 دن کی مختصر مدت بالکل ناکافی ہے۔ مذکورہ خط کی ایک نقل حوالہ کے لیے منسلک ہے۔
بہر حال، میں آپ کو آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کی طرف سےجو مسلم تنظیموں کا ایک وفاق ہے، آپ کے ذریعہ جاری کردہ مذکورہ نوٹس کے جواب میں مذکورہ سوال پرایک بار پھرعرض گذار ہوں ۔ہمارے خیال میں، یکساں سول کوڈ ان اقدار کے موافق نہیں ہوگا جو ہندوستان کے آئین کی روح ہیں۔ مزید برآں، جیسا کہ ذیل میں وضاحت کی گئی ہے، یکساں سول کوڈ کے بارے میں حکومت کا اپنا نظریہ تضادات سے بھرا ہوا ہے۔ عرض ہے کہ پورے ملک کے لیے مشترکہ سول کوڈ کے خیال میں مختلف مسائل موجود ہیں جن کی میں نے ذیل میں نشاندہی کی ہے۔شروع میں، میں اس بات کی نشاندہی کروں گا کہ 21 ویں لاء کمیشن نے 2018 میں اپنے مشاورتی مقالے میں جس کا عنوان ’خاندان کی اصلاح‘ تھا،صفحہ 7 پر کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ نہ تو ضروری ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس کے بعد سےصورت حال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے جو خود لاء کمیشن کے نظریہ پر نظرثانی کی ضمانت دیتا ہے۔ میری گذارش یہ ہے کہ لاء کمیشن کے ذریعہ طے شدہ مسئلہ کو دوبارہ کھولنے سے قانون کی حکمرانی کے لئے بڑےمنفی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور لا کمیشن کی طرف سے دوبارہ اس طرح کی مشق کی جار ہی ہے۔
سب سے پہلے، حزب اقتدارکے ذمہ دار اران نے کہا ہے کہ شیڈولڈ ٹرائب کو یکساں سول کوڈ کے دائرے سے باہر رکھا جائے گا۔ خبروں کے مطابق مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور پارلیمانی قائمہ کمیٹی برائے عملہ، عوامی شکایات، قانون و انصاف کے سربراہ جناب سشیل مودی کا خیال ہے کہ قبائلیوں کویکساں سول کوڈٖ کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے۔ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ یکساں سول کوڈ کا ظاہری مقصد یعنی یکسانیت ناکام ہو جائے گی، اگر شہریوں کے ایک بڑے حصے کو اس کے اطلاق سے مستثنیٰ قرار دیا جائے۔ مزید برآں، اس سےیہ بھی ظاہر ہے کہ یکساں سول کوڈ کے حق میں رائےرکھنے والے خود اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہندوستان جیسے متنوع ملک میں قانون کے معاملات میں بھی مختلف شناختوں کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے۔
دوم، میں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ یکساں سول کوڈ کا سوال بنیادی حقوق سے متعلق ہے۔ آئین کی دفعہ 25 ہندوستان کے شہریوں کو آزادی سے اپنے مذہب پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے۔ یونیفارم سول کوڈ مذکورہ حق میں مداخلت کرے گا کیونکہ یہ اس حق کو متاثر کرتا ہےکہ شہری اپنی زندگیاں اپنے مذہب کے احکام کے مطابق گزاریں۔ نیز شادی، طلاق، تبنیت وسرپرستی، تحویل اور وراثت جیسے مسائل کا تعلق خاندانی امور سے ہے۔ اگر ریاست یکسانیت کی جستجو میں سب پر ایک قانون نافذ کرتی ہے تو خاندان کا تقدس اور رازداری ختم ہو جائے گی۔ ایک ایسے وقت میں جب ہندوستانی فہم پرائیویسی اور نجی انتخاب کے حوالے سے تیزی سے قابل احترام ہوتا جا رہا ہے، اگر ریاست مذہب پرمبنی انتہائی ذاتی انتخاب پر پابندی لگاتی ہے تو یہ انصاف کی بے حرمتی ہوگی۔
سوئم، یکساں سول کوڈ کے مطالبات نے ہندوستان میں اقلیتی برادریوں کو شدید پریشان کیا ہے۔ اگرچہ بعض حلقوں میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یکساں سول کوڈ کی مخالفت صرف مسلم کمیونٹی میں موجود ہےلیکن سکھ اور عیسائی فرقے حکومت کی جانب سے یکساں سول کوڈ کو آگے بڑھانے کی حالیہ کوششوں سے سخت پریشان ہیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان نے یکساں سول کوڈ کے خیال کی سخت مذمت کی ہے۔ شرومنی اکالی دل (دہلی) کے صدر جناب پرمجیت سرنا نے لا کمیشن کو لکھے اپنے خط میں اس موضوع پر اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ شرومنی گرودوارہ پربندھک کمیٹی نے یکساں سول کوڈ کی سخت مخالفت کی ہے۔ مسیحی برادری نے یکساں سول کوڈ کے خلاف کھلے عام اپنی مخالفت کا اظہار کیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مذہبی اقلیتیں اس بات پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ مذہبی آزادی میں مداخلت کے مترادف ہوگا۔گوا سول کوڈ کو یکساں سول کوڈ کےطرفداروں کی طرف سے اکثر مساوات کا نمونہ کہا جاتا ہے کیونکہ وہاں ایک مشترکہ سول کوڈ ہے۔ گوا کے وزیر اعلیٰ نے رائے دی کہ ان کی ریاست میں سول کوڈ ملک کے لیے ایک ماڈل کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قانون نے یکساں سول کوڈ کے خیال کی جانچ کرتے ہوئے گوا قانون پر بھی خصوصی توجہ دی۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ خیال درست نہیں ہے کہ گوا میں صحیح معنوں میں یکساں قانون ہے۔ گوا کے ضابطہ کے مطابق جسے پرتگالی نوآبادیاتی حکومت نے نافذ کیا تھا، کیتھولک دوسرے لوگوں کے برعکس سول رجسٹرار سےاین او سی( (No Object Certificate حاصل کرنے کے بعد چرچ میں اپنی شادیاںکر سکتے ہیں۔ گوا کے ہندوؤں کےرسم و رواج کو تسلیم کیا گیا ہے۔ بعض پابندیوں کے ساتھ ہندوؤں کو تعدد ازدواج کی اجازت دی گئی ہے۔ یہ واقعی ستم ظریفی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب پوری دنیا بشمول شمال مشرق کے کچھ حصے تاریخ اور ثقافت کو مسخ کر رہے ہیں، ہندوستان کے کچھ طبقے پورے ملک کے لیے ایک نمونہ کے طور پر نوآبادیاتی حکمرانی کی نشانیوں کو زندہ رکھنا چاہتےہیں۔
چہارم، یہ نظریہ کہ ایک ملک میں سارےطبقات اور معاشروں کے لیے صرف ایک قانون ہونا چاہیے۔ ہندوستان کے وزیر اعظم نے حال ہی میں کہا تھا کہ ایک ایسا خاندان جہاں مختلف قوانین مختلف ارکان پر حکومت کرتے ہیں وہ کام نہیں کر سکتا۔ یونیفارم سول کوڈ کے دوسرے حامی بھی یہی منطق استعمال کرتے ہیںلیکن ہمارے قانونی نظام کے بنیادی اصولوں میں بھی یہ صحیح نہیں ہے۔ ریاستیں ریاستی موضوعات پر اپنے قوانین بنانے کے لیے آزاد ہیں۔ سیول پروسیجر کوڈ، کریمنل پروسیجر کوڈ اور تعزیرات ہند جیسے متعلقہ موضوعات پر ریاستیں باقاعدگی سے اپنے قوانین میں ترمیم کرتی ہیں۔ یکساں سول کوڈ پر دستور ساز اسمبلی کی بحث میں اس طرح کے قوانین کو اس نظریے کے حق میں پیش کیا گیا تھا کہ تجربے نے ثابت کیا تھا کہ پورے ہندوستان میں ایک قانون کا اطلاق ممکن ہے۔ تاہم، ان قوانین پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ بالآخر، ان کو ریاستی مقننہ کے ذریعہ صوبائی ضروریات کے مطابق بنایا جانا تھا۔
پنجم، حکومت نے خود یہ واضح نہیں کیا کہ آیا اس کے پاس کوئی بنیادی خاکہ یانمونہ ہے جس کی بنیاد پرمسئلہ کے فریق اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ اتراکھنڈ کے مسودے کو ملک گیر سول کوڈ کےنمونے کے طور پرلیا جا رہا ہے لیکن خود اتراکھنڈ کا مسودہ عوامی ڈومین میں نہیں ہے۔ یکساں سول کوڈ پر شاید ہی کوئی منظم بحث ہو جب تک کہ کوئی بنیادی مسودہ نہ ہو جس کا دلچسپی رکھنے والے فریق تنقیدی طور پر جائزہ لے سکیں۔
چھٹی بات یہ ہے کہ آئینی درجہ بندی میں یکساں سول کوڈ کے مقام پر غور کرنا ضروری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 44 میں کہا گیا ہے کہ ریاست ہندوستان کے پورے علاقے میں یکساں سول کوڈ کو نافذالعمل بنانے کی کوشش کرے گی۔ بلاشبہ، آئین کا اس خیال سے جومراد ہےوہ ظاہرو باہرہے، اسے ریاستی پالیسی کےرہنما اصولوں میں رکھا گیا تھا، اور اسے لازمی نہیں بنایا گیاکیونکہ آئین بنانے والوں کو احساس تھا کہ شہریوں کے کسی بھی طبقے کو ان کے عقیدے اور ثقافت سے جڑے قوانین کو ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے انہوں نے یہ معاملہ آئندہ نسلوں کے سپرد کر دیا۔ دوسری طرف، پرسنل لاز جن کی جڑیں مذہب میں ہیں،ان کو آرٹیکل 25 کا تحفظ حاصل ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ ہمارے آئینی فریم ورک میں بنیادی حقوق کو زیادہ اہمیت حاصل ہے، اس لیے یکسانیت کے نفاذ کے لیے پرسنل لاز میں مداخلت نہیں کی جانی چاہیے۔
آخر میں عرض ہے کہ موجودہ بحث کا وقت بہت سے سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ مسئلہ لوک سبھا کے عام انتخابات کے موقع پر پیدا ہوا ہے۔ ایک معقول اندیشہ ہے کہ سیاسی طبقے میں غیر ذمہ دار عناصر جذبات کو بھڑکانے اور ملک کے ماحول کو خراب کرنے کے لیے یکساں سول کوڈ کے خیال کو ہتھیار بنائیں گے۔ اشتعال انگیز بیانات یکساں سول کوڈ کے حوالے سے دیے جارہے ہیں تاکہ ذاتی مفادات کی تکمیل اور انتخابی فوائد حاصل کیے جاسکیں۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ یکساں سول کوڈ کی تجویز پر غور کرنے کی کوئی عجلت نہیں ہے، یہ عرض کیا جاتا ہے کہ موجودہ بحث کو ایک یا دو سال تک ملتوی کیا جا سکتا تھا۔
مندرجہ بالا معروضات کی روشنی میں، میں عرض کرتا ہوں کہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ معاشرے کے مفاد میں نہیں ہوگا اور یہ ان بڑی اقدار سے ہم آہنگ نہیں ہے جو ہمارے آئینی ڈھانچے کی ریڑھ کادرجہ رکھتے ہیں۔