مانو میں اردو سائنس کانگریس سے جامعہ نظامیہ کے ’’علوم القرآن‘‘ سمینار تک
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویزکی خصوصی رپوٹ
ہر سال21 فروری کو یوم مادری زبان کے طور پر اردو کی ترقی‘ اس کی زبوں حالی‘ اس کے مستقبل پر روایتی انداز میں واویلہ مچایا جاتا ہے۔ گھسے پٹے بیانات شائع ہوتے ہیں۔ کہیں مشاعرے‘ کہیں سمپوزیم کے نام پر کچھ لوگ اکھٹا ہوجاتے ہیں۔ بات جہاں تھی وہیں پر رہ جاتی ہے۔ مگر اس مرتبہ کم از کم حیدرآباد میں یوم مادری زبان سے پہلے یہاں کی دو عظیم جامعات مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (مانو) اور 140 سالہ قدیم جامعہ نظامیہ نے سائنس کے موضوعات پر سمینار اور کانفرنس کا اہتمام کرتے ہوئے ایک نیا انوکھا اقدام کیا ہے۔ مانو کے وائس چانسلر ڈاکٹر اسلم پرویز ماہر نباتات ہیں۔ اردو کے منفرد جریدہ سائنس کے بانی مدیر ہیں اور ان کی منفرد خصوصیت یہی ہے کہ انہوں نے قرآن اور سائنس کو ہمیشہ اپنا موضوع بنایا ہے اور اس حوالے سے اردو دنیا میں ان کی اپنی پہچان ہے۔ انہوں نے چند ماہ پہلے مانو میں فروغ علوم کا شعبہ قائم کیا اور اس کے کنسلٹنٹ کے طور پر ڈاکٹر عابد معز کا انتخاب کیا جو خود بھی سائنسی موضوعات پر اپنے مضامین کے لئے برصغیر ہند وپاک کے ساتھ ساتھ امریکہ یورپ اور خلیجی ممالک میں جانے پہچانے ہیں۔ یوں تو بحیثیت طنز و مزاح نگار ان کا بڑا نام ہے مگر ایک ڈاکٹر اور سائنس و طب کے موضوعات پر جس طرح سے ان کی کتابوں کے یکے بعد دیگرے ایڈیشنس شائع ہوتے ہیں‘ اس کے پیش نظر یہ فیصلہ کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ آیا وہ بحیثیت طنز و مزاح نگار زیادہ مشہور ہیں یا سائنس رائٹر کی حیثیت سے۔ بہر حال مانو میں نیشنل اردو سائنس کانگریس کے کامیاب انعقاد کے لئے انہوں نے ڈاکٹر اسلم پرویز کا بھرپور ساتھ دیا۔ سائنس کانگریس میں ملک کے گوشہ گوشہ سے قابل ترین ہستیوں نے شرکت کی۔ ان میں سے کوئی 25 کتابوں کے مصنف تو کسی کی کتابیں دنیا کے مختلف ممالک کی یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل ہیں۔ کوئی سافٹ ویرس کے موجدین میں شامل ہے تو کوئی اسکولی سطح پر سائنس کو اردو میڈیم میں متعارف کرنے کے لئے کوشاں۔
حیدرآباد‘ علم و دانش کا مرکز رہا ہے۔ سائنسی موضوعات پر اردو میں کتابیں یہاں سے شائع ہوتی رہیں۔ اصطلاح سازی‘ مختلف زبانوں سے تراجیم کے لئے اس کی شہرت رہی ہے۔ عثمانیہ یونیورسٹی کے اردو کردار سے محرومی کے بعد سرکار نے کم اردو والوں نے اردو کو زیادہ نقصان پہنچایا جس کے بعد اردو کے مستقبل کے روشن ہونے کا یقین بہت کم لوگوں کو ہے۔ اردو یونیورسٹی کا قیام جانے کن مصلحتوں سے عمل میں آیا۔ 18 برس کے دوران اس کی کارکردگی کیسی رہی؟ اس پر کچھ کہنے سے بہتر یہ ہے کہ آئندہ کیا کیا جاسکتا ہے‘ کیا کیا جانا چاہئے‘ اس پر غور کے ساتھ ساتھ عملی اقدامات کئے جائیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے انتہائی پرآشوب دور میں یونیورسٹی کی کمان سنبھالی ہے۔ انہیں کام کرنے دیا جائے گا یا نہیں یہ کہنا مشکل ہے۔ البتہ اردو یونیورسٹی کو سائنٹفک ڈھانچوں میں ڈھالنے کے لئے اب تک ان کی کوششیں کامیاب رہی ہیں۔ اردو کانگریس کا کامیاب انعقاد اس کی ایک کڑی ہے۔ یونیورسٹیز ہوں یا این جی اوز یا پھر فرضی ادارے اردو کی ترقی کے نام پر کبھی سپموزیم‘ سمینار کا اہتمام کرتے ہیں۔ جس سے آرگنائزرس کو این سی پی یو ایل ای کچھ اور سرکاری اداروں سے کچھ رقم ضرور مل جاتی ہے۔ مگر اردو والوں کو لنچ‘ ڈنر‘ ہائی ٹی کے علاوہ کچھ نہیں ملتا نہ ہی اردو کا کچھ بھلا ہوتا ہے۔ قوم کو خواب غفلت میں رکھنے کے لئے ذہنی عیاشی اور نگاہوں کی تسکین کے لئے مشاعرے بھی ہوتے ہیں۔ ’’مالِ مفت دلِ بے رحم‘‘ کے مصداق دل کھول کر شرابی‘ عیاش اور بے ہودہ قسم کے شعراء اور میراثنوں پر لاکھوں روپے خرچ کردیئے جاتے ہیں۔ اگر یہی رقم ایسی سرگرمیوں پر خرچ کی جائے جس سے زبان کا فروغ بھی ہو اور اردو والے دیگر زبان والوں کے شانہ بہ شانہ کامیابی اور ترقی کی دوڑ میں آگے نہ بھی رہیں تو ان کے قدم ہم آہنگ ضرور رہیں۔
سائنس ایگزیبیشن ‘ سائنسی موضوعات پر کانفرنس‘ ایسے ہی اقدامات ہیں جن سے دم توڑتی ہوئی سسکتی بلکتی زبان کو آکسیجن مل سکتا ہے۔ مانو میں اردو سائنس کانگریس کا اہتمام یقیناًقابل تحسین‘ لائق تقلید اقدام ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز جو انجمن فروغ سائنس کے بانی بھی ہیں‘ ملک کے مختلف شہروں میں سائنس کانگریس کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔ حیدرآباد میں مانو کیمپس میں انہوں نے اس کی بنیاد ڈالی۔ امید ہے کہ اپنے صدارتی خطاب میں انہوں نے جن توقعات کا اظہار کیا اس کی تکمیل ہوگی۔ انہوں نے کہا تھا ’’مجھے امید ہے کہ اردو کا سرمایہ اردو یونیورسٹی اور شہر حیدرآباد میں محفوظ رہے گا۔ اردو سائنس کانگریس کے انعقاد کا مقصد یہ ہے کہ اُردو والوں میں بیداری لائی جائے۔ انھیں احساس دلایا جائے کہ اردو صرف ادب کی زبان نہیں ہے، یہ سائنس اور سماجی علوم کی بھی زبان ہے۔ اردو یونیورسٹی کا اہم کام اردو میں علوم کا فروغ ہے۔یونیورسٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ اسی طرز پر سماجی علوم کی کانگریس بھی منعقد کی جائے گی نیز اردو میں سائنسی اور سماجی علوم کے دو حوالہ جاتی مجلے بھی شائع کیے جائیں گے‘‘۔
اسی طرح ڈاکٹر عابد معز، کنسلٹنٹ،اردو مرکز برائے فروغِ علوم و کنوینر قومی اردو سائنس کانگریس 2017 نے تمام حاضرین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ اردو میں علوم کا ماضی جامعہ عثمانیہ سے وابستہ رہا ہے اور مستقبل مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی سے منسلک ہے ۔اردو یونیورسٹی اورجامعہ عثمانیہ علوم کے فروغ کے لیے مشترکہ لائحہ عمل تیار کرکے کام کرسکتے ہیں۔
افتتاحی اجلاس کے بعد ڈی ڈی آڈیٹوریم میں پروفیسر اقتدار حسین فاروقی، ڈاکٹر عبدالمعز شمس، پروفیسر شمس الاسلام فاروقی کے خصوصی خطابات ہوئے۔
دوروزہ سائنس کانگریس میں پروفیسر راشد حیات صدیقی، پروفیسر ظفر احسن‘ پروفیسر وہاب قیصر ‘پروفیسر احمد سجاد‘ اعجاز عبید‘ ڈاکٹر ریحان انصاری‘ مکرم نیاز‘ محمد شکیل انجینئر‘ ڈاکٹر خورشید اقبال‘ سیدہ فاطمہ زہرہ‘ جاوید نہال حشمی‘ خواجہ تقی الدین‘ تبریز عالم‘ جنید عبدالقیوم شیخ‘ محمد معشوق ربانی‘ ضیاء الرحمن مظہر الحق انصاری‘ قاسم بادشاہ زبیری اور ڈاکٹر وقار النسا ء‘ ڈاکٹر سید قدیر ہاشمی‘ ابوہریرہ یوسفی‘ محمد احتشام الحسن‘ ڈاکٹر نسیم بانو، وسیم احمد میر اور زاہد زبیر‘ ڈاکٹر محمد رفیع الدین ناصر‘ عبدالودود انصاری‘ ڈاکٹر عبدالسمیع صوفی‘ انصار احمد معروفی‘ عبدالرسول (سلیم) یوسف شیخ ‘ شاہین نظر‘ اسعد فیصل فاروقی‘ سید سکندر علی‘ شاہد رشید‘ ڈاکٹر جاوید احمد کامٹوی‘ سیدہ مظہر سلطانہ‘ عزیز احمد ہاشمی‘ محمد خلیل، یوسف مڑکی، فریدہ راج، ڈاکٹر خواجہ عبدالنعیم، محبوب الحق، فاروق طاہر، ڈاکٹر اظہر ماجد صدیقی، ڈاکٹر مرسلین نصیر، ڈاکٹر محمد عبدالودود خان،سید عبدالرشید، پروفیسر جمال نصرت، ڈاکٹر حاجی ابوالکلام ، روبینہ مصباح عبدالخالق، رفعت النساء قادری، ڈاکٹر ایم ایم شیخ، ڈاکٹر سید صلاح الدین، توصیف خان، سید عبدالباسط شکیل، مومن عبدالملک سلیمان، پروفیسر عبدالباری اور انیس الحسن صدیقی نے مقالے سنائے۔
دوروزہ کانفرنس کے دوران سی پی ڈی یو ایم ٹی کے ہال میں ڈاکٹر شکیل احمد، پرو وائس چانسلر کے ہاتھوں اردو سائنسی کتابوں کی نمائش کا افتتاح عمل میں آیا۔ بعض کتابوں کی رسم رونمائی بھی کی گئی جبکہ ’’گواہ‘‘ اردو ویکلی کے خصوصی شمارہ کی رسم اجراء بھی عمل میں آئی۔
’علوم القرآن‘ جامعہ نظامیہ میں سمینار
جامعہ نظامیہ حیدرآباد ہی کی نہیں بلکہ برصغیر ہند و پاک کی قدیم ترین علمی و دینی درسگاہوں میں سے ایک ہے جو خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کے عالم رویاء میں حکم سے قائم کی گئی۔ اعتدال پسند موقف کی بدولت اسے ممتاز و منفرد مقام حاصل ہے۔ بانی جامعہ نظامیہ حضرت علامہ حافظ محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ ؒ کے عرس شریف کے موقع پر ہر سال علمی مذاکرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ حسن اتفاق سے یہ مذاکرہ علوم القرآن کے موضوع پر تھا جس میں ڈاکٹر محمد اسلم پرویز کو کلیدی خطبہ پیش کرنا تھا۔
دینی مدارس کے بارے میں یہ غلط فہمی پیدا کردی گئی ہے کہ عصری علوم سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ حالانکہ یہ ناقابل تردید حقیقت ہے کہ دینی مدارس میں زیر تعلیم‘ یہاں کے فارغ التحصیل دینی اور دنیوی علوم میں ماہر ہوتے ہیں کیونکہ قرآن مجید مخزن العلوم ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیر البشر ہیں اور آپؐ ہر شعبہ حیات میں ماہر تھے۔ صحابہ کرامؓ مختلف علوم کے ماہر تھے چاہے فلکیات ہو یا علم اعداد‘ طب ہو یا جراحی۔ یہ سلسلہ ایک ہزار برس تک جاری رہا مگر جب مسلمان اپنے راستہ سے ہٹ گئے تو دنیوی علوم کے ساتھ ساتھ اقتدار‘ شان و شوکت سے بھی دور ہوگئے۔ اسلام دشمن طاقتوں نے علم کو دنیوی اور دینی تعلیم کے شعبوں میں بانٹ دیا۔ دونوں کے درمیان ایک خلیج پیدا کردی یا دیوار کھڑی کردی حالانکہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ ’علق‘ نازل ہوئی تو وہ میڈیکل سائنس سے متعلق تھی۔ بہر حال دینی درسگاہوں کے فارغین کس قدر دنیوی علوم سے واقف ہوتے ہیں‘ اس کا اندازہ ہم جیسوں کو جامعہ نظامیہ کے علوم القرآن سمینار میں شرکت سے ہوا جس میں مولانا ڈاکٹر حافظ سید بدیع الدین صابری پروفیسر جامعہ عثمانیہ کا تحقیقی مقالہ ’’تخلیق انسان قرآن و سائنس کی روشنی میں‘‘ غیر معمولی معلومات پر مشتمل تھا جس میں انہوں نے مختلف حوالوں سے بتایا کہ
سائنسی حقائق قرآن مجید سے مطابقت رکھنے کے باوجود قرآن کو سائنس کی کسوٹی پر نہیں رکھا جاسکتا اور نہ قرآن اپنی حقانیت کے ثبوت کے لئے سائنس کا محتاج ہے۔ سائنس کے نظریات میں تبدیلی آسکتی ہے لیکن قرآن حکیم کے حقائق اور ابدی اور عالمگیری ہیں۔ کیونکہ وہ اللہ کا کلام ہے جو قطعی اور حتمی ہے ۔ اس کے برخلاف سائنس قطعی اور حقیقی علم مہیا کرنے سے عاجز ہے‘ جس کا اعتراف بے شمار سائنسدانوں نے کیا ہے۔ سائنس کا دائرہ کارصرف عالم شہود تک ہے‘ عالم غیب اس کی دسترس سے باہر ہے جبکہ قرآن عالم شہود کے ساتھ ساتھ عالم غیب کی بھی خبریں دیتا ہے۔ قرآن مجید کے اندر ہر علم کی بنیاد موجود ہے۔ قاضی ابوبکر ابن عربی کی کتاب قانون التاویل کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ قرآن میں 77,450 علوم ہیں۔ جس طرح قرآن مجید میں انسان کی تخلیق کی خارجی تشکیل کے اسباب کو بیان کیا ہے اسی طرح بہت ہی واضح طور پر ہر ماں کے پیٹ میں جنین کی داخلی تشکیل و ارتقاء کا ذکر کیا ہے ۔ یہ آیات تخلیق انسانی کے مراحل پر تحقیق کرنے والے سائنس دانوں کے لئے دعوت فکر ہیں۔ قرآنی حقائق زبان حال سے اس با ت کی گواہی دے رہے ہیں کہ قرآن جہاں کتاب ہدایت ہے وہیں انسانی ہدایت کے لئے روشن معجزہ بھی ہے اور انسانی زندگی کا ضابطہ حیات بھی ہے اور مخلوقات میں غور کرکے خالق تک پہنچنے کا ذریعہ بھی ہے۔
اس سمینار میں شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ حضرت مولانا خواجہ شریف نے ’’اعجاز القرآن‘‘ کے موضوع پر مختصر فرمایا کہ قرآن الٰہی معجزہ ہے اور اس کا اعجاز صبح قیامت تک باقی ہے۔ زائد از 1400 سال میں ماہرین نے اس کا مطالعہ کیا اور اس میں کسی ایک سقم کی بھی نشاندہی نہ کرسکے۔ قرآن کے نزول کے بعد عربوں کو اپنی اور بلاغت پر جو ناز تھا وہ ختم کرنا پڑا۔ کعبۃ اللہ پر ان کے معلقات ہٹادئیے گئے اور قرآن کی آیتوں سے بڑھ کر کوئی موثرکلام پیش نہ کیا جاسکا۔ انہوں نے جامعہ نظامیہ کے سابقہ اساتذہ کے حوالے دیتے ہوئے اس موضوع پر اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ ہمیشہ سرسبز و شاداب رہے گا اور اس کی بزم ہمیشہ آباد رہے گی۔ انہوں نے علماء کو مشورہ دیا کہ وہ قرآن کے بلاغی پہلووں پر اپنے نظروں کو مرکوز کریں۔ انہوں نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا کہ مستشرقین نے محض قرآن میں غلطیوں کی نشاندہی کرنے کی غرض سے اپنی زندگیاں صرف کیں اور عربی زبان میں دسترس حاصل کیا تاہم انہیں قرآن کی حقانیت کا اعتراف ہی کرناپڑابلکہ بے شمار مستشرقین کو اللہ نے ہدایت کی توفیق بھی بخشی وہ دامن اسلام سے وابستہ ہوئے۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے پاور پوائنٹ پریزنٹیشن کے ذریعہ قرآن اور سائنس کے موضوع پر کلیدی مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے کہا کہ کائنات کی آفاقیت اس کے خالق کا واضح پتہ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ معرفت الٰہی کے بے شمار ذرائع ہیں جن میں سائنس بھی موثر ترین ذریعہ ہے۔ اللہ اپنے بندوں کو کائنات کے مظاہر کی طرف دعوت دے رہا ہے کہ وہ اللہ کی طرف راغب ہوں اور اللہ کی معرفت حاصل کریں۔ اللہ نے تخلیق اس لئے فرمائی ہے کہ خالق حقیقی کو پہچانا جاسکے۔
ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے بہت دلچسپ اور متاثر کن انداز میں کہا کہ کائنات کی ہر شئے مسلم ہے کیونکہ یہ اللہ کے حکم کے تابع ہے۔ انہوں نے پودوں اور پتوں کی نفوذ پذیری کی مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جب ایک معمولی سی پتی کو اپنی ضرورت کے مطابق کاربن ڈائی آکسائیڈ مل جاتی ہے تو وہ اضافی اضافی کاربن ڈائی آکسائیڈ پودہ کے ان حصوں تک پہنچادیتی ہے جہاں اس کی کمی ہوتی ہے۔ یہی نظام کائنات ہے۔ جب اپنی ضرورت مکمل ہوجائے تو اضافی مال‘ دولت یا دیگر اسباب زندگی ضرورتمندوں تک پہنچادیئے جائیں۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے کہا کہ کائنات کی ہر شئے کو آیت کہا گیا ہے۔ ہر ظاہری شئے پوشیدہ شئے کا پتہ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سائنس معرفت الٰہی ہے۔ سائنس ایک طریقہ کا نام ہے۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ خاندان جہاں زیادہ افراد خاندان رہتے ہیں وہاں بچے بہت جلد بولنا سیکھتے ہیں کیونکہ انہیں ماحول ملتا ہے اور جن گھروں میں لوگ کم ہوتے ہیں وہاں پر بچہ دیر سے بولتا اور دیر سے سیکھتا ہے۔ ڈاکٹر اسلم پرویز نے جامعہ نظامیہ کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور یہاں کے طلبہ کو مانو کے برج کورس میں داخلہ کے لئے ترغیب دی تاکہ وہ عصری علوم بھی حاصل کرسکیں۔
’علوم القرآن‘ سمینارکی نگرانی مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری امیر جامعہ نظامیہ نے کی۔ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ مولانا مفتی خلیل احمد نے صدارت کی۔ اس موقع پر مولانا عبدالحمید محمد سالم القادری زیب سجادہ خانقاہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف (اترپردیش) نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور دعائیہ کلمات سے نوازا۔ شہ نشین پر پروفیسر عبدالمجید نظامی‘ مولوی سید احمد علی معتمد جامعہ نظامیہ موجود تھے۔ مولانا حافظ محمد عبید اللہ فہیم قادری الملتانی منتظم جامعہ نظامیہ نے انتظامات کی نگرانی کی۔ نائب شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ مولانا محمد انوار احمد نے فرائض نظامت انجام دیئے۔ کئی ممتاز شخصیات شریک تھیں۔(ملت ٹائمز)