عزیر احمد
جب حکومت کمیونل اور فاسشٹ Regime میں تبدیل ہوجائے تو عدالتوں کے اوپر بھی فاشزم کے بادل لہرانے لگتے ہیں، فیصلے قوانین کے مطابق نہیں بلکہ Majority consnent کو ذہن میں رکھ کے دئیے جانے لگتے ہیں. ہمارے ہندوستان میں آج کل یہی ہورہا ہے، چاروں طرف Patriotism اور Nationalism کی گنگا بہہ رہی ہے، جس میں ہاتھ دھونے سے ہمارے عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان بھی خود کو نہیں بچا پارہے ہیں، وکلاء کی بڑی تعداد تو پہلے ہی کرپٹ اور آر.ایس.ایس سے وابستہ تھی، اب تو عدالتوں کے فیصلے ججوں کے اوپر بھی سوالیہ نشان کھڑے کرنے لگے ہیں، جو دہشت گرد تھے وہ رہا ہورہے ہیں، اور جو معصوم تھے وہ دہشت گرد قرار دئیے جارہے ہیں، مذہب کی بنیاد پہ سزائیں مقرر کی جارہی ہیں، اور کی واضح مثال حالیہ دنوں میں عدالتوں کے ذریعہ دئیے گئے کچھ فیصلے ہیں، جن میں ایک محسن شیخ کے قاتلوں کی رہائی، اجمیر بم دھماکوں کے ملزم سمیت کئی لوگوں کی رہائی، اور ابھی کل کا فیصلہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کے این. جی. او پہ مکمل بین۔
ہائی کورٹ نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کے این.جی.او پہ بین لگاتے ہوئے کہا کہ یہ بین نیشنل انٹرسٹ کے حق میں ہے، اور اسے ایک غیر قانونی تنظیم قرار دیا۔ یہ فیصلہ کورٹ نے ڈاکٹر صاحب کے ان تقریروں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیا ہے جس میں انہوں نے ہندو دیوی دیوتاؤں کے خلاف گستاخانہ کلمات کہے اور مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف ابھارا۔
یاد رہے کہ ڈھاکہ حملے میں ملوث ایک شخص ڈاکٹر ذاکر نائیک سے متاثر تھا، اس نے ان کے ایک تقریر کا اقتباس اپنے فیسبوک پہ پوسٹ کیا تھا، جسے ہندوستانی میڈیا لے اڑی تھی، اور ان کے خلاف ایک افسانوی ماحول بنا دیا تھا، جس میں انہیں ایک بہت بڑے دہشت گرد، اور ملک کی Sovereignty اور Integrity کو توڑنے والے کے روپ میں دکھایا تھا، ان کے ویڈیوز کو کانٹ چھانٹ کر پورے ملک کے ہندؤوں میں ان کے خلاف غصہ کی لہر دوڑا دی تھی، میڈیا کا پورا پورا ساتھ ہمارے بریلوی اور شیعہ حضرات نے بھی دیا تھا، دن رات چینلوں پہ بیٹھ کے ان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی، اور حکومت سے ان پہ پابندی لگانے کی مانگ کی تھی، یہاں تک بعض شیعہ حضرات نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا سر کاٹ کے لانے والوں کے لاکھوں روپئے کے انعام کا بھی اعلان کیا تھا، ان سب چیزوں نے حکومت کو ان کے Immediate Ban لگانے پہ مجبور کردیا، یہ بین UAPA (Unlawful Activities Prevention Act) کے تحت لگائی تھی، اس ایک ایکٹ کے تحت کسی بھی فرد، تنظیم یا جماعت پہ جو ملک مخالف activities میں ملوث ہو، اس پہ فی الفور کاروائی کی جاسکتی ہے۔
حکومت نے تنظیم پہ یہ ایکٹ نافذ کرنے کے حق میں دو تین گھسے پٹے دلائل دئیے تھے، جیسے کہ یہ دہشت گردی پہ لوگوں کو ابھارتے ہیں، مسلمانوں کو غیر مسلموں کے خلاف بھڑکاتے ہیں، اسامہ کی تعریف کرتے ہیں، ان کی تقریروں سے معاشرے میں انارکی پھیل رہی ہے، لوگ متاثر ہوکے دہشت گردانہ حملے کررہے ہیں، ان پہ پابندی لگایا جانا ملک Larger Interest میں ہے، وغیرہ وغیرہ
حکومت کے اس کاروائی کے خلاف ڈاکٹر ذاکر نائیک کے وکلاء کی ایک ٹیم نے دہلی ہائیکورٹ میں پٹیشن دائر کردیا تھا اور حکومت سے سوال کیا تھا آخر کن بنیادوں پہ پابندی لگائی گئی، کل ہاییکورٹ نے بھی یہ کہہ کے پابندی نیشنل انٹرسٹ کے حق میں ہے، عدالت پہ سوالیہ نشان کھڑا کردیا ہے۔
لوگ سرعام مارنے کی باتیں کرتے ہیں، اور مارتے بھی ہیں، ہر دن، ہر وقت زہر اگلتے ہیں، مسلمانوں کو مار کے پاکستان بھگانے کی بات کرتے ہیں، ہندؤوں کو مسلمانوں کا مقابلہ کرنے کے لئے چار چار بچے پیدا کرنے کا مشورہ دیتے ہیں، مگر نہ حکومت اس پہ کوئی ایکشن لیتی ہے، اور نہ ہی عدالت کے کانوں پہ جوں رینگتی ہے، مگر ایک شخص جو قانون کے دائرے میں رہ کے اپنے مذہب کا پرچار کررہا تھا، اپنی تقریروں سے لوگوں کو سیدھے راستے کی طرف بلا رہا تھا، اس نیشنل انٹرسٹ کے نام پہ پابندی لگادی جاتی ہے. چھری خود کے ہاتھ میں ہو تو صحیح، دوسرے کے ہاتھ میں ہو تو غلط، خود کے مذہب کے پرچار کے لئے جو چاہے طریقے اختیار کریں، جگہ جگہ بھجن کیرتن کروائیں، ٹی.وی.چینل کا استعمال کریں، ہر ایڈ اور ہر پرچار میں اپنے دیوی دیوتاؤں کو جگہ دیں، ہندوستانی ثقافت اور کلچر دکھانے کے نام پہ پورا کا پورا ہندو ازم کا پرچار کریں تو سب کچھ صحیح ہے، مگر جب ایک مسلمان اپنے مذہب کا پرچار کرے تو غلط ہے۔
ڈر ڈاکٹر ذاکر نائیک سے نہیں تھا، بلکہ اس فکر اور اس سوچ سے تھا جس کی وجہ سے ان کے بنائے ہوئے گھروندے منہدم ہورہے تھے، ان کے افکار و نظریات کا تانا بانا ٹوٹ رہا تھا، قریب تھا کہ ان کا طلسم بکھر جاتا اگر پابندی نہ لگاتے، سچ بات ہے اوہام و خرافات پہ مبنی مذاہب حق کا زیادہ دیر تک سامنا نہیں کرسکتے۔