شمس تبریز قاسمی
(گذشتہ سے پیوستہ)
اجین دہلی سے 800 کیلومیٹر پر واقع مدھیہ پردیش کا اہم ترین، قدیم، تاریخی اور مذہبی شہر ہے، اقتصادی راجدھانی ممبئی کا باب الداخلہ بھی اسے کہا جاتا ہے کیوں کہ مراٹھوں پر یہیں سے اورنگزیب عالگیر رحمۃ اللہ علیہ نے حملہ کیا تھا ،یہ شہر 152 کیلومیٹر اور 59مربع کیلومیٹر کے رقبہ پر مشتمل ہے، سطح سمندر سے تقریباً دو ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے اور ہندوستان کے مرکز میں واقع ریاست مدھیہ پردیش کا پانچواں بڑا شہر کہلاتا ہے ، تقریباً پانچ لاکھ سے زائد (515,215) یہاں کی کل آبادی ہے جس میں 18 فیصد مسلمان بھی شامل ہیں، خواتین کے مقابلے میں مردوں کی تعداد کم ہے اور جنسی تناسب کے اعتبار سے 1000 مردوں کے مقابلے میں صرف 945 خواتین پائی جاتی ہیں۔
تاریخی او ر مذہبی اعتبار سے دنیا بھر میں اس کی شہرت ہے اور عالمی سیاحت کا مرکز بھی ہے ، 600 قبل مسیح ہندوستانی سیاست کا یہ مرکز بھی مانا جاتا تھا اور بلامبالغہ یہ انیسوی صدی تک سینٹر ل ہندوستان کا اہم ترین سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی مرکز تھا ، برٹش حکومت نے جب اندور کی تعمیر و ترقی پر توجہ مرکوز کردی تو اس شہر کی مرکزی حیثیت ختم ہوگئی، تاہم ہندو دھرم کیلئے یہ ہمیشہ سے انتہائی مقدس اور قابل احترام رہا ہے اور آج بھی مذہبی حیثیت سے اس کی نمایاں شناخت ہے، ہر بارہ سال کے بعد یہاں کنبھ (سیہنستھ ) کا میلا لگتا ہے جس میں ہندوستان سمیت دنیا بھر سے سادھو سنت آتے ہیں، شپرا ندی میں اسنان کرتے ہیں اور اپنے عقید ے کے مطابق نجات کا سامان حاصل کرتے ہیں، شپرا ندی انتہائی چھوٹی ہے، اس کی چوڑائی بہت ہی کم ہے ، ندی کے جانب گھاٹ بنے ہوئے ہیں، اور بریج سے ندی کا منظر بہتر لگتا ہے، خاص طور پر دور دور تک گھاٹ بنے ہونے کی وجہ سے یہ قابل دید منظر نظر آتا ہے۔ کنبھ کے پیش نظر حکومت بہتر انتظام کرتی ہے، آس پاس کے تمام علاقوں کو خالی کرایا جاتا ہے اور وہاں خالی زمینوں پر کسی طرح کے عمارت بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے، کنبھ میلے کے پیش نظر گذشتہ چند سالوں قبل وہاں کے معروف مدرسہ عربیہ سراج العلوم کی زمین بھی الاٹ کرلی گئی تھی جسے بہت کوششوں کے بعد آزاد کرایا گیا اور مدرسہ کے مہتمم مولانا تقی صاحب کی کوششوں سے وہ زمین کنبھ میلے کے حصہ بننے سے بچ گئی ، آج وہاں اجین کا سب سے بڑا مدرسہ واقع ہے جس میں تقریباً تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں اور عربی سوم کی تک تعلیم ہوتی ہے ۔اس مدرسہ میں جانا ہوا، وہاں کے مہتمم مولانا تقی صاحب سے ملاقات ہوئی، آپ ایک بزرگ عالم دین اور حضرت مولانا طلحہ صاحب کے خلیفہ ہیں، رمضان میں آپ وہاں اجتماعی اعتکاف کا اہتمام بھی کرتے ہیں جس میں سینکڑوں افراد شریک ہوتے ہیں۔
کنبھ میلا یہاں کے علاوہ الہ آباد اور ناسک میں بھی لگتا ہے، اس شہر کے معروف عالم دین مولانا اشفاق الرحمن مفتاحی اپنے خطبہ استقبالیہ میں رقم طراز ہیں ’’اجین مدھیہ پردیش کا قدیم ، مرکزی اور تاریخی شہر ہے ، مذہبی نقطۂ نظر سے سرزمین اجین مقدس و متبرک مانی جاتی ہے، یہ شہر شپرا ندی کے کنارے واقع ہے جس سے برادران وطن کو غایت درجے کا عقیدت اور تعلق ہے ، یہاں تک کہ اس کے پانی سے غسل کرنے کو نجات اور گناہوں سے مکتی کا ذریعہ مانا جاتا ہے۔ بعض تاریخی روایات کے مطابق مہابھارت سے بارہ سوسال قبل راجہ ارچن مالوہ کی سرزمین کو فتح کرکے مشرق کی جانب شپرا ندی کے کنارے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ بعض مؤرخین نے اس شہر کی تاریخ کو ابو البشر حضرت آدم علیہ السلام سے بھی جوڑنے کی کوشش کی ہے اور لکھاہے کہ سری لنکا سے جدہ کا سفر حضرت آدم علیہ السلام نے اسی راستے سے کیا تھا اور اجین سے گزر ہوا تھا، چناں چہ خطبہ استقبالیہ میں مولانا اشفاق الرحمن مفتاحی صاحب لکھتے ہیں ۔
’’کائنات کے اولین پیغمبر، ابوالبشر حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سری لنکا سے جدہ جاتے ہوئے یہاں سے گزرے اور ان کا ایک قدم اس شہر کے اس مقام پر پڑا جہاں اس وقت مہاکال مندر واقع ہے ، یہ الگ بات ہے کہ برادران وطن اس قدوم میمنت لزوم کو ’’ وشنو اوتار ‘‘ کے قدوم سے تعبیر کرتے ہیں‘‘ اور ان کیلئے یہ بات قطعی طور پر ناقابل برداشت ہے کہ اس کی نسبت حضرت آدم علیہ السلام کی جانب کی جائے، اس تعلق سے غیر مسلموں کی ناراضگی کا اندازہ اس وقت ہوا جب پریس کانفرنس کے دوران ایک صحافی خطبہ استقبالیہ کے ہندی ترجمہ کو پڑھ کر یہ سوال کیا کہ مہال کال مندر کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس کا تعلق حضرت آدمؑ سے ہے جس سے ہندو دھرم کو ٹھیس پہونچا ہے اور ہندو مسلم کے درمیان تفریق کرنے کی کوشش گئی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے بہت حکمت عملی سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ یہ تحریر اکیڈمی کی نہیں بلکہ یہاں کے مقامی علماء کی ہے دوسری بات یہ کہ یہ صرف ایک نظریہ اور تاریخی روایت ہے ، ہم مسلمان تمام دھرم بشمول ہندومت کا احترام کرتے ہیں اور کسی طرح کے بھید باؤں کے روادار نہیں ہیں۔ پریس کانفرنس میں یہ جواب دیکر بھلے ہی خاموش کردیاگیا لیکن یہ جملہ موضوع بحث بنارہا اور کئی دنوں تک اس تعلق سے گفتگو ہوتی رہی ۔
معروف انصاف پسند ،حکیم ، دانا اور الولعزم’’مہا راجا بکرماجیت‘‘ کی وجہ سے بھی اس شہر کو تاریخی اہمیت حاصل ہے ،کیوں کہ راجا بکرماجیت نے اس شہر کو اپنا دار السلطنت قرار دیا تھا۔ راجہ بکرماجیت کا عہد حکومت تاریخ میں متفقہ طور پر انتہائی اہم اور مبارک مانا جاتا ہے، انہیں کے دور سے ضبط تاریخ کا ایک سلسلہ شروع ہوا جس کو سمبت کہا جاتا ہے جس میں عیسوی سن سے 57 سالوں کی زیادتی پائی جاتی ہے، حکومت نے راجا بکرما جیت کی یادوں کو زندہ رکھنے کی کوشش کی ہے لیکن اس کیلئے جو طریقہ اپنایاگیاہے وہ نامناسب اور افسوسناک ہے، راجہ بکرماجیت کا جہاں محل تھا وہاں بکرماجیت کا ایک مجسمہ تعمیر کرکے چاروں طرف سے مورتیوں کو رکھ دیا گیاہے ، یہ مجسمہ تالاب کے کنارے ایک میدان میں بنایا گیا ہے جس کے بارے میں کہاجاتاہے کہ یہیں پر بکرماجیت کا محل واقع تھا، بہر حال پورے احاطے کو مورتیوں سے پر کرنے کے بارے میں ایک زائر کو کچھ ناگواری گزرتی ہے ، چناں چہ بکرماجیت کے محل کی زیارت کے دوران مفتی احمد نادر القاسمی صاحب نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ اگر بلندی پر یہ مجسمہ اس انداز سے نہیں بنایاجاتا،اس کی شکل و شباہت کو کسی خاص مذہب سے نہیں جوڑا جاتا تو اس کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوتا، زائرین کی بھی دلچسپی بڑھتی …. (جاری )