شمس تبریز قاسمی
اسی شہر اجین میں ایک ایسی بستی بھی واقع ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے زمانے میں وہ پلٹ دی گئی تھی، جس طرح قوم کی عاد کی بستی عذاب الٰہی کے طور پر پلٹ کر تباہ و برباد کی گئی تھی اور اس کے آثار و نشانات آج بھی ہیں، اسی طرح یہ بستی بھی الٹ دی گئی تھی، جس جگہ یہ بستی واقع ہے اسے دیکھ کر ایسا لگتا بھی ہے اور یہ خیال آتاہے کہ شاید یہ واقعہ حقیقت پر مبنی ہے ، وہ جگہ پہاڑوں کی طرح بلند ہے ، اوبر کھابر ہے ، بنجر زمین ہے ، وہاں پر کسی طرح کی کوئی کاشت کاری نہیں ہے،تاہم ایک دوسری روایت اس کے بالکل بر خلاف ہے ، مذکورہ بستی جہاں واقع ہے وہاں گؤ رکشک گرو کے شاگرد رہا کرتے تھے اور وہی مالوہ کے بادشاہ بھی تھے ایک دن طوفان اور زلزلہ آیا جس سے پورا علاقہ دہل گیا ، زمین الٹ دی گئیں اسی دوران وہ بادشاہ پہاڑ کے جس غار میں بیٹھا تھا وہ بھی گرنے لگا ، یہ دیکھ کر بادشاہ نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسے روک دیا اور یوں وہ پتھر جو گرنے کے قریب تھا ان کے ہاتھ بڑھانے سے رک گیا، اس واقعہ اور مقام کو ہندؤوں نے محفوظ کردیا ہے ، وہاں پر مندر بناکر اسے تاریخی مقام کا حصہ بنادیا ہے ، لوگ اس کی زیارت کو آتے رہتے ہیں، انہوں نے بھی اس واقعہ کا پس منظر گذشتہ ڈھائی ہزار سال قبل بتایا ہے اور بستی پلٹنے کا واقعہ بھی اسی زمانے کا ہے اس لئے اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ موسی علیہ السلام کے زمانے میں جو واقعہ پیش آیا تھا اسی سے یہاں کا نظام درہم برہم ہوا اور بعد میں غار اور سوراخ کو ہندوؤں نے اپنے گرو کی عقیدت میں شامل کرلیا، اس جگہ پر گائے کی بھی حفاظت کی جاتی ہے چناں چہ مندر کے سامنے چار پانچ گائے بندھی ہوئی نظر آئی، گؤ تحفظ سے اس مندر کا خصوصی تعلق ہے کیوں کہ اس کے گرو گؤرکشک تھے اور انہوں نے موجودہ گورکھپور میں اپنی رہائش اخیتار کرلی تھی ،اسی کے نام پر یہ ضلع بھی ہے ۔
وہاں بنائی گئی مندر سے گزر کر پہاڑ اور گوفہ کا راستہ طے ہوتاہے ، چناں چہ مفتی احمد نادر قاسمی صاحب کی قیادت میں مذکور بستی دیکھنے کے بعد ہم لوگوں نے پہاڑوں کے گوفہ میں جانے کا ارادہ کیا ، وہاں موجود ہندؤں او ر پنڈتوں نے آمد پر خوشی کا اظہار کیا، بہت اچھے انداز میں تاریخ بیان کی، البتہ ایک پنڈت نے صرف اتنا کہاکہ آپ لوگ ٹوپی اتارلیں، جس وقت علماء کا قافلہ آشرم میں واقع راجہ کے محل کو دیکھنے جارہا تھا میری زبان پر یہ جملہ رواں تھاکہ ایک قوم کے مذہبی رہنما دوسری قوم کے مذہبی رہنماؤں کے مرکز کی زیارت کرنے جارہے ہیں ، اس سے بڑی علماء کی جانب سے مذہبی رواداری اور ہندو مسلم یکجہتی کی کوئی اور مثال نہیں مل سکتی ہے ۔ پہاڑ کے اندر انتہائی تنگ گوفے ہیں جہاں سیڑھیوں سے جانا پڑتا ہے ، آمد و رفت کیلئے ایک ہی راستہ ہے۔
اس شہر کا اسلام اور مسلمانوں سے بھی گہرا تعلق ہے چناں چہ مولانا اشفاق الرحمن صاحب نے اسلام سے اس کا تعلق معجزہ شق القمر کے واقعہ سے جوڑتے ہوئے لکھا ہے کہ معجزہ شق القمر کا واقعہ جب پیش آیا تو اس منظر کا مشاہدہ بچشم خود یہاں سے انتہائی قریب میں واقع دھار میں صوبہ مالوہ کے راجہ نے خود کیا اور چاند کو دوٹکرے ہوتے ہوئے دیکھا، اس وقت کے نجومیوں سے جب انہوں نے استفسار کیا تو معلوم ہوا کہ ملک عرب میں ایک نبی کا ظہور ہوا ہے، وحدانیت کا ایک مذہب وجود میں آیا ہے اور اللہ کے اسی پیغمبر کی انگلی کے اشارے سے چاند کے دوٹکرے ہوئے ہیں پھر اس واقعہ کی تحقیق کیلئے ایک وفد مکہ مکرمہ بھیجا گیا، وفد نے وہاں پہونچ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی ، باہم گفتگو ہوئی ، اسلام قبول کیا اور داعی بن کر واپس لوٹے ، یہاں آکر انہوں نے جب راجہ سے سفر کی روداد کی بیان کی اور آپ صلی اللہ علیہ سلم کے بارے میں پوری تفصیلات کا تذکرہ کیا تو راجہ نے مذہب اسلام قبول کرلیا اور اس طرح یہاں اسلام کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا۔ (بحوالہ ہندوستان اسلام کے سایے میں ۔مولانا عابد علی وجدی الحسینی قاضی بھوپال)
تاریخی روایات کے مطابق فاتح سندھ محمد بن قاسم نے بھی ایک فوجی دستہ مالوہ بھیجا تھا جو اجین تک آیا اور صلح و فتح کے بعد واپس لوٹا، ان کے بعد 1235 میں خاندان غلاماں کے عظیم حکمراں سلطان شمس الدین التمشؒ نے اس شہر پر حملہ کیا اور یہاں اسلام کی تبلیغ کی ۔ ( مالوہ کی کہانی تاریخ کی زبانی ۔ قاضی عبد القدوس فاروقی )۔ مورخین نے اسی کو معتبر مانا ہے ، راجح قول بھی یہی ہے کہ اس اطراف میں اسلام اور مسلمانوں کی آمد شمس الدین التمشؒ کے دورِ حکومت میں ہوئی ہے۔
مغلیہ حکومت کے دور میں یہ پورا علاقہ دہلی سلطنت کے زیر اقتدار آگیا اور مغل شہنشاہوں نے اس علاقے پر خصوصی توجہ دی ، اکبر کے عہد حکومت میں اجین کو مالوہ کا دارالسلطنت قرار دیا گیا، جہاں گیر، شاہ جہاں اور اورنگزیب جیسے عظیم بادشاہوں نے یہاں کا دورہ کیا، عالمگیر اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ نے اس شہر میں آنے کے بعد مذہبی رواداری کا اہم ثبوت پیش کرتے ہوئے مہال کال مندر کے پنڈٹوں کو جاگیریں بھی عطا کیں اور ہون پوجن کیلئے سوا من گھی دینا مقرر کیا ۔ 1837 میں اس خطہ پر سندھیا خاندان کی حکومت قائم ہوئی اور 1948 تک برقرار رہی لیکن 1810 میں ہی راجدھانی گوالیار منتقل ہوگئی۔
صوفیاء ،اولیاء اور بزرگان دین کا بھی اس شہر سے گہرا اور خصوصی تعلق رہاہے ، مشہور صوفی حضرت خواجہ نظام الدین کے مسترشد مولانا مغیث الدین رحمۃ اللہ علیہ 730 میں اپنے مرشد کی اجازت سے یہاں آکر اجین میں واقع شپرا ندی کے کنارے اقامت پذیر ہوگئے ، یہاں انہوں نے تبلیغ اسلام اور کفر و ضلالت کے خاتمہ میں خصوصی کردار ادا کیا یہاں تک اسی شہر میں ان کی وفات بھی ہوگئی ، آپ کا مقبرہ شپرا ندی کے کنارے ہی واقع ہے ، مقبرے کے بالکل نیچے سے پانی بہتاہے ، مزار کے پاس سے ندی میں جانے کیلئے ایک زینہ بھی بنا ہوا ہے، احاطے میں ایک مسجد بھی بنی ہوئی ہے، اس کے علاوہ وہاں اور بھی بہت ساری قبریں موجود ہیں۔ عصر کی نماز ہم لوگوں وہیں مسجد میں ادا کی تھی ، وہاں بھی مزار پر زیارت کرنے اور منتیں مانگنے والوں کی آمد کا سلسلہ جاری تھا، مردوں کے مقابلے میں خواتین زیادہ تھیں تاہم کوئی خاص بھیڑ نہیں تھی۔
مولانا مغیث الدین کے علاوہ شیخ وجیہ الدین یوسف، شیخ کمال الدین وغیرہم نے بھی چودھوی صدی میں سلسلہ چشتیہ کو مالوہ اور اجین میں روشناس کرایا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے بزرگوں نے یہاں تشریف لاکر تبلیغ دین کا فریضہ انجام دیا ہے جس کے اثرات شہر میں نمایاں ہیں اور وہاں کے مسلمانوں دینی اخوت و ہمدردی اور غمخواری و غمگساری کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ( بحوالہ خطبہ استقبالیہ : مولاناطیب ندوی)
یہاں مسلمانوں کے بہت سارے آثار موجود ہیں، بیرون شہر ناصر الدین خلجی بادشاہ مانڈو کا محل سرا ہے جو کالیا دیہہ کے نام سے مشہور ہے، اس عمارت کے قریب شپراندی پر بند تعمیر کرکے ناصرالدین نے باغ و محل تعمیر کیا تھا، وہاں ایک مدرسہ بھی انہوں نے قائم کیا تھا جس کے کمرے آج بھی موجود ہیں اور عظمت رفتہ کی یاد دلاتے ہیں۔ (جاری)