مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
آج مسلمان دنیا میں ہر جگہ ابتلاؤں اور آزمائشوں سے گزر رہے ہیں ، امریکہ اور یورپ سے لے کر چین اور برما تک ہر جگہ مسلمانوں کو رسوا کیا جارہا ہے اور ان کی جان و مال اور عزت و آبرو ایک بے قیمت شئے ہوچکی ہے ، خود مسلم ممالک شام ، عراق ، افغانستان اور یمن وغیرہ میں مسلمانوں کی آپسی برادر کشی — جس کے پیچھے صلیبی اور صہیونی سازشیں شامل ہیں — نے مسلمانوں کے خون کو پینے کے پانی سے بھی زیادہ ارزاں بنا دیا ہے ، ظاہر ہے کہ یہ حالات ہمیں خود احتسابی کا سبق دیتے ہیں ، مسلمانوں کو خود اپنے آپ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے ، ایک ایسا جائزہ جو ایمان سے لے کر اعمال و اخلاق تک تمام شعبوں کا احاطہ کرتا ہو اور پھر رب کائنات سے رُجوع کرنے اور اپنی کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کے جذبہ پر مبنی ہو ۔
ہر تکلیف دہ واقعہ کو دوسروں کا قصور قرار دے کر اپنے آپ کو بریٔ الذمہ سمجھنا مومنانہ طریقہ نہیں ہے ، یہ بنی اسرائیل کا طریقہ تھا کہ وہ اپنے اوپر پہنچنے والی مصیبتوں کا ذمہ دار حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اہل ایمان کو قرار دیتے تھے : ’’ وَإِن تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَطَّیَّرُوْا بِمُوسٰی وَمَن مَّعَہٗ‘‘ (اعراف : ۱۳۱ ) یہی حال دوسری ان قوموں کا بھی تھا جو ایمان اور عمل سے محروم تھے اور جب ان کی اللہ کی طرف سے پکڑ ہوتی تھی تو وہ اہل ایمان کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے تھے ، ( نمل : ۳۷) خود رسول اللہ ا اور آپ کے صحابہ کے بارے میں بھی قریش اسی طرح کی باتیں کیا کرتے تھے ، ( نساء : ۷۸) قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ انسان پر جو آزمائشیں آتی ہیں ، وہ اصل میں خود اس کی شامت ِاعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں : ’’وَمَا أَصَابَکُم مِّن مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ أَیْْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَن کَثِیْرٍ‘‘ ( شوریٰ : ۳۰) اس لئے حالات کی ناموافقت کا سبب دوسروں میں تلاش کرنے کی بجائے اپنے آپ میں تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔
ان حالات کے پس منظر میں بعض سادہ لوح مسلمان سوچتے ہیں کہ اگر وہ دین حق پر ہیں اور خیر اُمت ہیں ، جن کا اللہ نے اپنے دین کی سربلندی کے لئے انتخاب کیا ہے تو پھر ہم اتنی آزمائشوں اور دشواریوں سے کیوں گزر رہے ہیں ؟ یہ بات مسلمانوں کو جادۂ حق سے ہٹانے اور ان کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے اعدائے اسلام کی طرف سے بھی کہی جاتی ہے ؛ لیکن یہ سوچنا درست نہیں ہے ، حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے آخرت میں تو یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ ہر طرح کی نعمت سے سرفراز ہوں گے ، جنت ان کی قیام گاہ ہوگی اور وہ ہر طرح کی تکلیف اور ناگوار باتوں سے محفوظ رہیں گے ؛ لیکن دنیا میں اس کا وعدہ نہیں کیا گیا ہے ؛ بلکہ اہل ایمان سے یہ بات کہی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کے بدلے ان سے دنیا کی زندگی خرید کرلی ہے : ’’إِنَّ اﷲ اشْتَرَی مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ أَنفُسَہُمْ وَأَمْوَالَہُم بِأَنَّ لَہُمُ الجَنَّۃ‘‘ ۔ ( توبہ : ۱۱۱)
قرآن مجید نے ایک اور موقع پر بہت وضاحت اور تاکید کے ساتھ کہا ہے :
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْْء ٍمِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الأَمَوَالِ وَالأنفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّابِرِیْنَ ، الَّذِیْنَ إِذَا أَصَابَتْہُم مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْا إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّـا إِلَیْْہِ رَاجِعُوْنَ ، أُولٰٓئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوَاتٌ مِّن رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ وَأُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ ۔ (بقرہ : ۱۵۵-۱۵۷)
اور ہم تم لوگوں کو خوف ، بھوک ، مال ، جانوں اور پھلوں کے کچھ نقصان سے ضرور ہی آزمائیں گے ، اس سلسلے میں آپ صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنادیں ، جن کا حال یہ ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں : ہم اللہ ہی کے لئے ہیں اور ہمیں اللہ ہی کی طرف واپس ہونا ہے ، یہی لوگ ہیں جن پر ان کے رب کی طرف سے نوازشیں ہوں گی اور یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں ۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے زور دے کر فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ضرور ہی آزمایا جائے گا اور آزمائشیں بھی مختلف قسم کی ہوں گی ، کبھی ایسا ہوگا کہ مسلمان خوف و دہشت سے دوچار کئے جائیں گے ، وہ اپنی جان و مال اور عزت و آبرو کے معاملے میں غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہوں گے ، آج پوری دنیا اور خود ہمارے ملک میں مسلمان اسی صورت حال سے دوچار ہیں ، دوسرے : ان کو معاشی نقصانات سے آزمایا جائے گا ، اس معاشی نقصان کا ایک درجہ تو یہ ہے کہ بالکل فاقوں کی نوبت آجائے ، جیساکہ بعض ملکوں کی صورت حال ہے ، جن کے قدرتی وسائل پر مغرب نے قبضہ کر رکھا ہے ، یہی صورت حال برما کے مظلوموں اور شام کے مہاجرین کی ہے ، دوسرا درجہ یہ ہے کہ یہ نوبت نہ آئے ؛ لیکن ان کو معاشی اعتبار سے نہایت پس ماندہ اور اقتصادی نقصان سے دوچار کیا جائے ، ملازمتوں کے دروازے ان پر بند کردیئے جائیں گے ، جیساکہ ہم ہندوستان میں دیکھتے ہیں کہ مرکز سے لے کر ریاستوں تک ملازمتوں میں آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے ۔
تیسرے : ان کی آزمائش جانی نقصانات سے ہوگی ، ہندوستان میں مسلسل مسلمان اِس مصیبت کا سامنا کررہا ہے ، صرف بھاگلپور ، میرٹھ ، جمشید پور ، راور کیلہ ، ممبئی اور گجرات کے فسادات نیز بابری مسجد کی شہادت کے موقع سے ہونے والے بلووں میں شہید ہونے والے مسلمانوں کے اعداد و شمار جمع کئے جائیں، تو ان کی تعداد عجب نہیں کہ پچیس ہزار کے قریب پہنچ جائے ، یہ ایسا جانی نقصان ہے جس سے مسلمان مسلسل دوچار ہوتے آئے ہیں اور باعث افسوس امر یہ ہے کہ جب فسادات کی روک تھام کے لئے ایک سیاسی جماعت نے مسلمانوں کے مطالبہ پر بل مرتب کیا تو ان پارٹیوں نے بھی اس کی تائید کرنے سے انکار کردیا ، جو اپنے آپ کو سیکولر اور اقلیت دوست کہتے ہیں ۔
چوتھے : جس چیز سے آزمانے کا ذکر کیا گیا ہے ، وہ ہے : ثمرات ، ثمرہ کے معنی پھل کے ہیں اور اس آیت میں بعض مفسرین نے اس سے اولاد مراد لیا ہے : ’’ والثمرات الأولاد‘‘ (تفسیر ابن کثیر : ۱؍۴۶۷) — آج بہت سے ملکوں میں والدین کے سامنے ان کی مسلمان اولاد کے قتل کے واقعات ہورہے ہیں ، خود ہمارے ملک میں مسلمان نوجوان ہر وقت اس خطرہ سے دوچار رہتا ہے کہ نہ جانے انھیں بے قصور ہونے کے باوجود دہشت گردی کا الزام لگا کر جیل کی سلاخوں میں ڈال دیا جائے ، یہ بھی اولاد کے نقصان کی ایک صورت ہے ، جس سے اس وقت ہندوستان کے مسلمان دوچار ہیں ؛اسی لئے مسلمانوں کا ان مصیبتوں سے دوچار ہونا اللہ تعالیٰ کے وعدہ اور قرآن مجید کی پیشین گوئی کے مطابق ہے اوران کا پیش آنا قابل تعجب نہیں ؛ بلکہ ان واقعات کے پیش آنے کو مسلمانوں کے لئے ایمان و یقین میں اضافہ کا باعث ہونا چاہئے ۔
اگر کوئی گروہ ایمان پر قائم رہنے کے باوجود کسی وجہ سے مصیبتوں اور آزمائشوں سے محفوظ نہیں رہتا ہے تو اس کو حسرت و افسوس ، نااُمیدی اور بے یقینی سے دوچار نہیں ہونا چاہئے ، اللہ تعالیٰ اگرصاحبِ ایمان ہونے کی وجہ سے کسی کو آزمائشوں سے محفوظ رکھنا چاہتے تو اس کے سب سے زیادہ مستحق انبیاء کرام تھے ؛ لیکن قرآن مجید نے تفصیل سے انبیاء اور ان کی اقوام کے واقعات کا ذکر کیا ہے ، جن کے مطالعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انھیں اپنی قوم کی طرف سے سخت تکلیف اور مصیبت سے دوچار ہونا پڑا ، حضرت نوح علیہ السلام پہلے پیغمبر تھے ، جن کو مشرکین سے سابقہ پیش آیا ، اللہ تعالیٰ نے انھیں طویل عمر عطا فرمائی ، انھوںنے اپنی زندگی کے ساڑھے نو سو سال کا غالب حصہ دعوت حق کا فریضہ انجام دیتے ہوئے گزارا ؛ (عنکبوت : ۱۴) لیکن قوم کا رد عمل مسلسل انکار اور سرکشی تھا ، وہ مذاق اُڑاتے اور ان کو بُرا بھلا کہتے ، (شعراء : ۱۱۱) تفسیری روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی قوم ان پر سنگ باری بھی کرتی تھی ، آخر اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا اور ایمان لانے والوں کو چھوڑ کر حضرت نوح علیہ السلام کی پوری قوم صفحۂ ہستی سے مٹا دی گئی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام برگزیدہ پیغمبر تھے کہ ان کے بعد تمام پیغمبر ان ہی کی نسل سے پیدا ہوئے ، جن میں رسول اللہ ا بھی شامل ہیں ، ان کو بڑی بے دردی سے نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی اور جو ایندھن آپ کو جلانے کے لئے تیار کیا گیا ، قوم کے ایک ایک فرد نے اس میں حصہ لیا ؛ لیکن اللہ نے اپنی قدرت خاص سے آپ کو بچالیا ، (انبیاء : ۶۹) بے گانوں ہی سے نہیں اپنوں سے بھی کچھ کم تکلیف نہیں پہنچی ، خود والد نے کہا : اگر تم دعوت توحید سے باز نہیں آئے تو میں تمہیں سنگ سار کردوں گا ۔ ( مریم : ۴۶)
حضرت یوسف علیہ السلام کے والد بھی نبی تھے ، دادا بھی ، دادا کے بھائی بھی اور پردادا حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی ؛ لیکن اس کے باوجود کیسی کیسی آزمائشوں سے گزارے گئے ، اندھیرے کنوے میں پھینکے گئے ، ماں باپ سے جدا کئے گئے ، نبی زادہ تھے ؛ لیکن غلام بنائے گئے اور بازار میں بیچے گئے اور بالآخر قید کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں ؛ یہاں تک کہ مفسرین کی روایت کے مطابق کم و بیش بارہ سال آپ نے قید خانہ میں گزارے ، ( تفسیر کبیر : ۱۶؍۹۴) — حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بنی اسرائیل جن آزمائشوں سے گزاری گئی ، قرآن مجید نے تفصیل سے ان کو بیان کیا ہے ، (بقرہ : ۴۹) مفسرین نے اس کی تفصیلات لکھی ہیں کہ فرعون پوری قوم بنی اسرائیل سے بے گار کا کام لیتا تھا ، ان سے کھیتی کرائی جاتی تھی ، عمارتیں بنوائی جاتی تھیں ، پہاڑوں کو تراش کر ستون بنوائے جاتے تھے ، جو اِن کاموں کے لائق نہیں تھے ، ان سے یومیہ جزیہ لیا جاتا تھا ، اگر کوئی شخص سورج کے ڈوبنے سے پہلے پہلے جزیہ ادا نہیں کرتا تو اس کے ہاتھ اس کے گردنوں سے باندھ دیئے جاتے تھے اور عورتوں کے ذمہ کپڑوں کی بنائی اور کڑھائی کا کام ہوتا تھا ، پھر ظلم کی انتہا اس وقت ہوگئی جب فرعون نے خواب دیکھا کہ بیت المقدس سے ایک آگ نکلی ، مصر پہنچی اور اس نے قوم فرعون یعنی قبطیوں کے ایک ایک مکان کو خاکستر کردیا اور بنی اسرائیل اس سے محفوظ رہے ، کاہنوں نے اس کی تعبیر بتائی کہ بنی اسرائیل میں سے ایک شخص پیدا ہوگا ، جو مصر پر غلبہ حاصل کرلے گا ، پھر کیا تھا ! فرعون کا ظالمانہ حکم جاری ہوا کہ بنی اسرائیل میں جو بھی لڑکا پیدا ہو، اسے ذبح کردیا جائے اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیا جائے اور سالہاسال اس پر عمل ہوتا رہا ، یہاں تک کہ خود قبطی سرداروں نے فرعون سے درخواست کی کہ اس سلسلہ کو روکا جائے ؛ کیوںکہ بنی اسرائیل کے بچے قتل ہوتے جارہے ہیں اور ان کے بوڑھوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے ، جو محنت مزدوری کے لائق نہیں ہیں ، اس طرح آئندہ ہم لوگوں کو اِن پُر مشقت کاموں کو انجام دینا ہوگا ۔ ( تفسیر ابن کثیر : ۱؍۲۵۷)
اس سلسلے میں خود رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ اور آپ کے صحابہ کی زندگی ہمارے سامنے ہے ، خوف و دہشت کا عالم یہ تھا کہ مکہ میں حضرت ابوطالب روزانہ بنو ہاشم کے کچھ نوجوانوں کو آپ اکی حفاظت پر مامور فرماتے تھے ، ( المعجم الکبیر للطبرانی : ۱۱؍۲۵۶ ، حدیث نمبر : ۱۱۶۶۳) اور مدنی زندگی میں بھی جب تک سورہ مائدہ کی آیت نمبر : ۶۷ نازل نہیں ہوئی ، آپ کی قیام گاہ پر پہرا دیا جاتا تھا ، ( ترمذی ، کتاب تفسیر القرآن ، حدیث نمبر : ۳۰۴۶) بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ بہت سی دفعہ اپنے بستر میں تلوار رکھ کر سویا کرتے تھے ؛ تاکہ اگر دشمن اچانک حملہ آور ہوجائے تو دفاع کیا جاسکے ، پوری مکی زندگی آپ اکی جان خطرے میں رہی ، عین صحن کعبہ میں آپ کو پھانسی دینے کی کوشش کی گئی ، قتل کے منصوبے بنائے گئے ، طائف میں زخموں سے چور چور ہوگئے ، اُحد میں روئے منور سے خون کا فوارہ بہنے لگا ، شعب ابی طالب میں تین سال سے زیادہ عرصہ ایسا بائیکاٹ کیا گیا کہ مسلسل فاقوں سے گزرنا پڑا اور بنو ہاشم کے بچے ایک ایک دانے کو ترس گئے ، اپنے عزیزوں کی قربانی آپ نے اپنے آنکھوں سے دیکھی ، آپ انے حضرت حمزہؓ کی شہادت کا غم بھی دیکھا ، جن کی لاش مسخ کردی گئی تھی ، مکی زندگی کے تیرہ سال آپ انے سخت مشقت میں گزارے اور مدینہ آنے کے بعد بھی آٹھ سال کا عرصہ اسی طرح گزرا کہ اہل مکہ کی طرف سے تابرتوڑ حملے ہوتے رہے ، آخر ہجرت کے آٹھویں اور نبوت کے اکیسویں سال مکہ فتح ہوا اور جس محبوب سرزمین سے آپ کو ظلما نکال دیا گیا تھا ، وہی آج آپ اکے قدموں میں بچھی ہوئی تھی ، غور کرنے کی بات ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر نہیں تھے کہ جیسے اکیس سال کے بعد مکہ کے لوگ دامن اسلام میں آگئے اور انھوںنے پیغمبر اسلام ا کے سامنے سر طاعت جھکادیا ، یہی اہل مکہ آج سے اکیس سال پہلے جب آپ انے دعوت حق پیش کی تھی ، آپ کی دعوت کے سامنے سر جھکالیتے ؟ لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان آزمائشوں سے اس لئے گزارا کہ اُمت کو جن جن آزمائشوں سے گزرنا تھا ، آپ کو ان تمام دشواریوں سے گزارا جائے ؛ تاکہ مسلمانوں کے لئے اپنے نبی کا اُسوہ موجود ہو ، دشواریاں ان کے قدموں میں تزلزل پیدا نہ کردیں ، وہ مایوس اور نااُمید نہ ہوں ، ان کے سامنے اپنے نبی کی مثال موجود ہو اور یہ بات ان کے لئے ڈھارس اور تسلی کی باعث بنے ۔
اس لئے مسلمانوں کو موجودہ عالمی اور ملکی حالات سے نہ پریشان ہونا چاہئے اور نہ ان کے یقین میں تذبذب پیدا ہونا چاہئے ،انھیں احساس رہنا چاہئے کہ ان کا ابتلاؤں سے دوچار ہونا ان کے نبی کے ایسے حالات سے گزرنے کے مقابلہ تو بہت ہی کمتر ہے ، رسول اللہ انے اس اُمت کو پیش آنے والے حالات کے پس منظر میں فرمایا : کہ اللہ کے یہاں آزمائش کے اعتبار سے افراد اور قوموں کا اجر ہوگا ، اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو اس کو آزمائش سے دوچار کرتے ہیں ، اگر وہ ان حالات میں بھی اللہ کے فیصلہ پر راضی رہے تو اللہ اس سے راضی ہوجاتے ہیں ، اور اگر وہ اس پر راضی نہیں رہے تو اللہ بھی اس سے ناراض ہوجاتے ہیں : ’’ … فمن رضی فلہ الرضا ومن سخط فلہ السخط ‘‘ ۔ (ترمذی ، باب ماجاء فی الصبر علی البلاء ، حدیث نمبر : ۲۳۹۶)
اس کو یوں سمجھنا چاہئے کہ اگر آپ اپنے گھر سے باہر محلہ کی سڑک پر نکلے اور دیکھا کہ چند بچے آپس میں گالی گلوج کررہے ہیں ، اور ان میں ایک آپ کا بیٹا بھی ہے تو آپ محلے کے بچوں کو تو چھوڑدیں گے ؛ لیکن اپنے بچے کا کان پکڑ کر گھر لائیں گے اور ہوسکتا ہے کہ اس کو دوچار تھپڑ بھی لگائیں ؛ کیوںکہ آپ دوسرے بچوں کی غلطی کو تو وقتی طورپر نظر انداز کرسکتے ہیں ؛ لیکن آپ کا اپنا بچہ — جس سے آپ کا مستقبل جڑا ہوا ہو — کی تھوڑی سی کوتاہی بھی آپ کے لئے ناقابل برداشت ہوتی ہے اور آپ فوری طورپر اس کی تنبیہ کرتے ہیں ، اسی طرح یہ اُمت خدا کے دین کی سربلندی کے لئے پیدا کی گئی ہے ، لوگ اپنے لئے جیتے ہیں اور یہ اُمت انسانیت کے لئے جیتی ہے : ’’خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس‘‘ (آل عمران : ۱۱۰) اس لئے دوسری قوموں کوتو اس کی کوتاہیوں پر ڈھیل دی جاتی ہے ، جس کو قرآن مجید نے’’ امہال‘‘ سے تعبیر کیا ہے ، ( طارق : ۱۷) لیکن اس اُمت سے اگر کوئی کوتاہی ہوتو فوراً اس کی پکڑ کی جاتی ہے ؛ کیوںکہ رسول اللہ انے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال کھیتی کی سی ہے کہ برابر ہوا اس کو ایک طرف سے دوسری طرف ہلاتی رہتی ہے ، مومن اسی طرح آزمائش سے دوچار ہوتا رہتا ہے ، اور منافق کی مثال ایسے درخت کی ہے جو ہلتا نہیں ہے ، یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ کاٹ لیا جاتا ہے : ’’ مثل المومن کمثل الزرع لا تزال الریاح تفیئہ ولا یزال المومن یصیبہ بلاء ومثل المنافق مثل الشجرۃ الأرز لا تھتز حتی تستحصد‘‘ ۔ ( ترمذی ، حدیث نمبر : ۲۸۶۶)
غرض کہ موجودہ حالات سے نہ گھبرانا چاہئے اور نہ قدم لڑ کھڑانا چاہئے ، یہ ایک طوفان ہے جو آیا ہے اور گزر جائے گا ، ایسا نہیں ہے کہ کسی خطہ میں مسلمانو ں کے مغلوب ہوجانے سے اسلام مغلوب ہوگیا ؛ بلکہ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ عین اس وقت جب مسلمان مغلوبیت سے دوچار تھے ، اسلام نے اپنی استدلالی قوت کی بدولت غلبہ اور فتح مندی کی نئی تاریخ رقم کی ؛ اسی لئے قرآن نے کہا ہے کہ اگر تم ایمان و یقین کے اس معیار پر اپنے آپ کو لے آؤ ، جو اللہ کے یہاں مطلوب ہے ، تو انجام کار تم ہی کو غلبہ حاصل ہوگا : ’’وَلاَ تَہِنُوْا وَلاَ تَحْزَنُوْا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْن ‘‘ (آل عمران : ۱۳۹ ) علامہ اقبالؒ نے کیا خوب اس کی ترجمانی کی ہے :
تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشۂ مئے کو تعلق نہیں …… پیمانے سے