کیا  اسیری ہے کیا  رہائی ہے؟

ابو فہد، نئی دہلی

ملت ٹائمز

Abu Fahadاس وقت ملک کے حالات انتہائی دھماکہ  خیز ہوگئے ہیں،خاص کر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے حق میں۔ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کی اگر اس کے اپنے ملک میں سب سے بڑی کوئی حیثیت ہے تو وہ ایک باثروت ووٹ بینک کی حیثیت  ہے۔مگر اس حیثیت کے جو تھوڑے بہت مثبت نتائج نکل سکتے ہیں یا نکلتے ہیں وہ بھی دوسروں کی جھولی میں چلے جاتے ہیں۔ ووٹ بینک کی سیاست کرنے والی پارٹیاں ان کی اس حیثیت کے حصے بکھرے کردیتی ہیں اور ان سے اپنے حصے کے فوائد حاصل کرلیتی ہیں۔اور اس طرح  ایک جمہوری حکومت میں بھی  وہ اپنی اس  ایک اہم حیثیت کو بھی اچھے داموں سے کیش نہیں کروا پاتی۔

جیسے جیسے دن گزرتے جارہے ہیں ملک کی سب سے بڑی اکثریت کے مسائل بھی  بڑھتے جارہے ہیں۔ ایک غربت و ناداری اور ناخواندگی کی مار ہی کیا کم تھی کہ اوپر سے یہ دہشت گردی کی مصیبت آن پڑی۔آج امت کا ہر چھوٹا بڑا فرد دیش بھکتی اوردہشت گردی مخالف  راگ،سُر ،جذبات اورسرگرمیوں کی زد پر ہے۔تعجب ہے کہ جس قوم نے اس ملک کو سونے کی چڑیا کہلائے جانے کا مستحق بنایا اور مغربی استعمار سے آزادی حاصل کرنے کے لیے کئ دہائیوں پر محیط لمبی لڑائی لڑی اورملک کی ہر قوم سے زیادہ جان ومال کی قربانیاں دیں ،آج وہی قوم اور اسی قوم کے فرزند دہشت گردی کے نامراد جنجال میں پھنستے جارہے ہیں۔اس نامراد قوم نے دہشت گردی مخالف سرگرمیوں  کے نام پر جتنے زخم سہے ہیں شاید اتنے زخم تو ملک کو آزاد کرانے کی راہ میں بھی نہیں سہے ہوں گے۔شاید ہی کوئی ہفتہ یا مہینہ ایسا جاتا ہو گا جس میں  کسی نہ کسی مسلمان کو دہشت گردی کی حمایت اور دیش  مخالف سرگرمیوں کے نام پر گرفتار نہ کیا جاتا ہو۔اور پھر گرفتاریاں محض گرفتاریاں نہیں ہیں، ان کا مقصد کسی مسئلے کی تفتیش اورتصفیہ نہیں ہے بلکہ گرفتاریوں کے بعد غیرانسانی اذیتیں ہیں اور سالوں پر محیط قیدی کے اساسی اعضا ء کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناکارہ بنادینے والا بھیانک اور خوفناک ٹارچر ہے۔

حالیہ دنوں میں دو عالم دین کی گرفتاری ہوئی ہےاور ان دونوں کے تعلقات آئی ایس آئی ایس سے بتائے گئے ہیں۔ایک کا تعلق  جنوبی ہندوستان کے شہر بینگلور سے ہے اور دوسرے کا یوپی کے ضلع رام پور کے ایک گاؤں ہریٹا سے۔ ان دونوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں عالمِ دین ہیں،  ملکی سطح پر یکساں شہرت رکھتے ہیں ، دونوں دارالعلوم دیوبند کے فارغ ہیں اور وہاں کے ممتاز طالب علم رہ چکے ہیں۔ اور دونوں کوہی تقریر کرنے کا خداداد ملکہ حاصل ہے۔دونوں کی عمر بھی تقریبا برابرسرابر ہے۔اور دونوں پر ایک جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ بینگلور سے مولانا انظر شاہ قاسمی کی گرفتاری ہوئی ہے اور یوپی سے مفتی عبدالسمیع قاسمی عرف سمیع اللہ کی ۔ یہ الگ بات ہے کہ دونوں ایک دوسرے سے قریب نہیں رہے۔

مؤخرالذکر عالم دین  مفتی عبد السمیع ملکی اور قومی سطح پر جانے پہچانے عالم  ہیں،  ان کی عمر فی الوقت  یہی کوئی 45 سال کی رہی ہوگی۔انہوں نے ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کے بعض مدارس میں حاصل کی اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے دیوبند گئے اور وہاں سے 90 یا 92 میں دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کی، وہ وہاں کے ممتاز طالب علموں میں شمار ہوتے تھے، انہیں تقریر کا تعلیم کے وقت ہی سے شوق تھا بلکہ ان کی تقریریں سنے سے لگتا ہے کہ یہ ان کی فطری صلاحیت ہے۔وہ لاکھوں کے مجمعے کو خطاب کرتے ہیں اور لوگ اس طرح سنتے ہیں جیسے ان پر سحر کردیا گیا ہو۔ان کی آواز میں بے انتہا کشش ہے، وہ ایک پرجوش مگر ہوش مند مقرر ہیں، وہ اپنی تقریروں میں ہمیشہ مسلمانوں کو اتحاد ویکجہتی کی دعوت دیتے ہیں اور مسلمانوں کو جو مسائل درپیش ہیں انہیں باہم مل کر حل کرنے  کی طرف مائل کرتے ہیں،وہ فرقہ پرستی کے بھی خلاف ہیں اور مسلمانوں میں  مسلکی اور سیاسی گروہ بندیوں کے بھی مخالف ہیں۔ ان کے مخاطب عام طور پر نوجوان ہیں، ان کی تقریروں میں سیاسی شعور اور بالیدگی کی جھلک بھی ہوتی ہے ، دین کے علاوہ حالات حاضرہ پر بھی ان کی اچھی نظر ہے۔اوریہ اس لیے بھی ہے کہ وہ 2007 میں عملی طور پر سیاست کا حصہ بھی رہے ہیں ، انہوں نے 2007 میں یوڈی ایفunited democratic frontکی طرف سے الیکشن بھی لڑا تھا اور وہ یوپی میں ضلع  رام پور کے یوڈی ایف کے صدر تھے۔ یہ پارٹی جامع مسجد دہلی کے امام بخاری اور حاجی یعقوب قریشی نے مل کر بنائی تھی، جس میں انہیں خاطر خواہ کامیابی نہیں مل سکی۔بعداس پارٹی کو سبوتاز کردیا گیا۔

وہ یوپی کے شہر ہاپڑ میں  جامعہ علی المرتضیٰ کے نام سے ایک مدرسہ بھی چلاتے ہیں، جس میں تقریبا 150 بچے پرائمری اور حفظ وناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔جن میں زیادہ تر اطراف و اکناف کے غریب بچے پڑھتے ہیں ، کتنے تو ایسے بھی ہیں کہ ان کے تمام اخراجات مدرسہ ہی برداشت کرتا ہے۔وہ اپنی تعلیمی اور تبلیغی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ  شوشل ورک بھی کرتے رہے ہیں، وہ ہمیشہ لوگوں کو ایک اچھا شہری بننے کی تلقین کرتے ہیں  اور ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد کرتے ہیں اگر وہ خود کسی کی مددنہیں کرسکتے تو اصحاب خیر کو متوجہ کرتے ہیں۔سردیوں کے موسم میں  لحاف اور کمبل وغیرہ تقسیم کرتے ہیں اور بیواؤں اور یتیموں کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔یہ سب کچھ وہ اپنے پاس سے تو نہیں کرتے ، کیونکہ  وہ کوئی کروڑ پتی نہیں ہیں ،ان کے پاس تو دہلی میں اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہے ،  وہ دہلی میں کئی سالوں سے ہیں اور سیلم پور میں دو روم پر مشتمل کرائے کے فلیٹ میں اپنے چاربچوں دو لڑکیوں ، دولڑکوں اور  اپنی اہلیہ کے ساتھ رہتے ہیں۔

گزشتہ جمعہ کے دن انہیں این آئی اے نے لکھنؤ کے پاس سے  جب وہ اپنے قریبی ساتھیوں کے ساتھ کسی پروگرام میں تقریرکرنے کے لیے کارکے ذریعہ جارہے تھے گرفتار کرلیا ، انہیں آئی ایس آئی کا ایجنٹ بتایا اور ان پر یہ الزام عاید کیا کہ وہ نوجوانوں کو آئی ایس آئی ایس  کی طرف راغب کرتے تھے۔ان کے گھر کے افراد نہایت صدمے میں ہیں، ان کے گھر  اور رشتہ داروں کے گھروں میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے، انہوں نے ان کی گرفتاری کو ظالمانہ قرار دیا ہے۔ ان کے دوست واحباب اور ان کو فالو کرنے والوں کا ماننا ہے کہ مولانا کسی بھی صورت میں دیش دروہی نہیں ہوسکتے ۔ اور دیوبند سے تعلیم حاصل کرنے والا کوئی عالم دین بھلا کس طرح دیش دروہی ہوسکتا ہے۔ دیش کی تعمیر وترقی میں دیوبند کے کردار کو بھلا کون نکار سکتا ہے۔ دیوبند کو جنگ آزادی میں ہندوستان کے مسلمانوں میں سب سے بڑا کردار ادا کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور  یہ دیوبند ہی ہے جس نے ملک میں سب سے پہلے دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی، دہشت گردی مخالف کانفرنسیں کیں اور ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک  بڑے پیمانے پردورے کئے اور مسلمانوں کو ملک کا وفادار رہنے  اور ایک اچھا شہری بنانے کے لیے بھر پور کوششیں کیں اور دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث تنظیموں اور افراد سے دوررہنے کا اعلامیہ جاری کیا اور اس وقت کیا جب دنیا کے دوسرے ممالک کے مسلمان اور خاص کر علمائے دین ان تنظیموں کو ابھی پوری طرح سمجھ بھی نہیں پائے تھے۔ مگر دیوبند نے پہل کی اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ملک ہندوستان دہشت گردی کی بیماری سے محفوظ ہے، القاعدہ اور داعش سے کئی ممالک کے مسلم نوجوان متاثر ہوئے مگر ملک کے  مسلم نوجوانوں نے ان کے کام اور سرگرمیوں میں کچھ بھی دلچسپی نہیں دکھائی ،بلکہ ہر سطح پر ان سے اعراض ہی برتا۔ یہاں تک کہ  ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنکھ جی نے بھی اس کا برملا اظہار کیا کہ دیش کےمسلم نوجوان داعش او ر القاعدہ کے جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں، مسلمان کل بھی ملک کے وفادار تھے اور آج بھی اسی طرح وفادار ہیں۔ملک کے دیگر مسلم دینی اداروں میں دیوبند کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا ہے کہ وہ مسلمانوں کی صرف مذہبی رہنمائی ہی نہیں کرتا بلکہ  سیاست کے وسیع پلیٹ فارم سے بھی ان کی اسی طرح رہنمائی کرتا ہے۔

 کل تک مسلمان ہوجی، لشکرطیبہ،سیمی اور انڈین مجاہدین جیسی نام نہاد تنظیموں کے نام پر گرفتار کئے جاتے تھے اور اب آئی ایس آئی ایس اور القاعدہ کے نام پر بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہورہی ہیں، حال فی الحال میں ہی کم از کم  پندرہ بیس  گرفتاریاں ہوچکی ہیں اور ابھی پتہ نہیں کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔حالانکہ دنیا بھر کے مسلمانوں نے اور خاص طور پر علمائے دین نے آئی ایس آئی ایس  اور القاعدہ کی سرگرمیوں کو غیر اسلامی قرار دیا ہے اور ان سے دوررہنے کا اعلامیہ جاری کیا ہے۔

ایک طرف صورت حال یہ ہے کہ آج سے دس بیس سال پہلے گرفتار کئے گئے نوجوان یکے بعد دیگرے بری ہورہے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں ہورہے ہیں، ملک کی عدالتیں انہیں بے گناہ ثابت کررہی ہیں اور دوسری طرف ملک کی تفتیشی ایجنسیاں اور مقامی اور مرکزی پولیس نئی نئی گرفتاریاں کررہی ہے۔ نہایت ہی عجیب اور خوفناک سلسلہ ہے ،یہ رہائی کا اور اسیری کا سلسلہ۔ عدالتوں کے ذمے ایک کام ہے اور وہ یہ کہ وہ بے قصو ر مسلمانوں کو آزادکریں اور تفتیشی ایجنسیوں اور پولیس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ مسلم نوجوانوں پر جھوٹے اور جعلی الزمات  عائد کرکے انہیں عدالتوں میں بھیجتی رہے۔صرف گزشتہ سال 2014 میں 141 مسلمانوں کو پر دہشت گردی کے مختلف الزمات لگائے گئے جن میں سے 123 بے قصور پائے گئے۔اتنی بڑی تعداد میں بے گناہ مسلمان جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے جارہے ہیں تو ضرورایسا ہے کہ  اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی خفیہ سازشی ایجنڈا یقینی طور پر کام کررہا ہے۔اور دوسری طرف بعض ہندو لیڈر اور ہندو تنظیمیں کھلے عام اشتعال انگیزی کررہی ہیں اور ان کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔

یہ اچھا ہے کہ امت کے بعض افراد اور بعض ملی تنظیموں کو اس کی فکر لاحق  ہوئی ہے اور وہ اس کے خلاف آواز اٹھا رہے ہیں، قانونی لڑائیاں بھی لڑ رہے ہیں اورمیڈیا کے توسط سے اس ظالمانہ روش کے خلاف آواز بھی بلند کررہے ہیں۔پھر بھی یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ ان کوششوں میں اجتماعی رنگ نہیں ہےاو ر اس کے لیے کوئی خاص رڑنیتی اور منصوبہ بندی کم از کم اب تک نہیں کی گئی ہے۔اور اس سے زیادہ دکھ کی بات یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا ہی ایک گروہ دوسرے مسلم گروہ کو دہشت گردی کا ذمہ دار ٹہرارہاہے ، کم از کم ہندوستان کی حد تک یہ بات غلط ہے کیونکہ ہندوستان میں کوئی بھی مسلم تنظیم  یا ادارہ دہشت گردی کا حمایتی نہیں ہے۔

 

SHARE