ہم تنہا ہی اچھے ہیں

ویلینٹائنس ڈے پر اسپیشل مزاحیہ مضمون
فیصل نذیر کے قلم سے
ملت ٹائمز
دور حاضر میں جس طرح ہر چیز نے بازار اور منفعت و مضرت کی صورت اختیار کرلی ہے، ہر چیز کا موازنہ پیسے سے کیا جانے لگاہے ،خلوص کی جگہ فلوس نے لے لی ہے،بھلا ایسے میں محبت کہاں پیچھے رہنے والی تھی؛ گریٹینگ کارڈ،برتھ ڈے وش کارڈ ،تحفے، کینڈل لائٹ ڈنر،کلب اورKFC McDonald ۔ یہ سب محبت کے وہ نئے امور ہیں جسے ہر عاشق کو کرنا لازمی ہے۔
اب وہ دن نہیں رہے جب لوگ اندھیروں میں محبوب سے مل کر شوق دیدار پورا کیا کرتے تھے اور محبوب کے چھت پر آنے کا انتظار کیا کرتے تھے اور اپنے آنگن سے ہی چاند کا دیدار کرلیا کرتے تھے ،حسرت موہانی بھی اپنی حسرت بھری راتوں اور ملاقاتوں کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں
چوری چوری ہم سے تم آکر ملے تھے جس جگہ
مدتیں گزریں پر اب تک وہ ٹھکانہ یاد ہے
مگر دور حاضر کے سہل پسند عاشقوں کے لئے صبر طلب عاشقی اب بازیچۂ اطفال بن گئے ہی، اب لحاف کے اندرسے ہی محبوبہ سے کچھ یوں گفتگو ہورہی ہے جو شیریں و فرہاد نے کبھی توقع بھی نہیں کی ہوگی۔ محبت کی وبا ایبولا یا زیکا کی طرح نئی نہیں ہے بلکہ عرصہائے دراز سے لوگ اس لا علاج مرض میں مبتلا رہے ہیں ۔
ذکی کیفی صاحب کہتے ہیں
اس وقت سے میں تیرا پرستار حسن ہوں
دل کو میرے شعور محبت بھی جب نہ تھا
مزید ایک شاعر اپنے قدیم روگ کی کیفیت بتاتے ہوئے کہتا ہے ۔
کب سے ہوں مبتلائے غم عشق یہ نہ پوچھ
تخلیق کائنات سے پہلے کی بات ہے
پدم شری مجتبی حسین لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ فیض احمد فیض کے پروگرام میں ایک خوبصورت دوشیزہ نے ان سے اپنی اردو سے نادانستگی اور فیض سے وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ آپ ذرا ان کی غزلوں کا انگریزی میں ترجمہ کردیا کریں ،مجتبی صاحب نے پیچھا چھڑاتے ہوئے اپنے ایک جوان انگریزی و اردو داں دوست کو اس کام پر مامور کردیا ۔
فیض جب اپنی مشہورغزل ’’گلوں میں رنگ بھرے باد نوبہار چلے ‘‘کے اس مصرعے پر پہنچے ’’چلے بھی آؤ کے گلشن کا کاروبار چلے ‘‘ تو اس جوان نے ترجمہ کیا۔
Faiz says, please come so that the business of garden may start.
وہ محترمہ مجتبی صاحب سے مخاطب ہو کر بولی:مسٹر مجتبی یہ بزنس آف گارڈن کیا ہے ؟ میں نے کبھی ایسے بزنس کی بارے میں نہیں سنا، کیا یہ بہت مفید بزنس ہے؟
مجتبی صاحب نے بے ساختہ جواب دیا:میڈم آپ انگلش والوں کے یہاں یہ بزنس نہیں چلتی ،ہم اردو والے برسوں سے یہ سودا کرتے آرہے ہیں، اور بڑے گھاٹے کا کاروبار ہے۔
قہقہے کے بعد اس مترجم نے میڈم کو بزنس آف گارڈن کا مطلب کچھ اس طرح سمجھایا کہ ان دونوں کے درمیان یہ بزنس چلنے لگا اور دونوں نے بالاخر شادی کرلی، فیض صاحب سے جب اس انجام کا ذکر کیا گیا تو وہ بہت ہنسے۔
مگر اب زمانے کا گھلاپن،آسان طرز زندگی ،شوشل نیٹورکنگ کے طوفان نے اس کارعشق کو اتنا مشکل نہیں چھوڑاجتنا کے ہمارے بزرگوار ہمیں ڈرا کر چلے گئے ، کوئی اسے آگ کا دریا بتاکر ڈوب کے جانے سے تشبیہ دے رہا ہے توکوئی اسے راہ پرخار بتا کر آبلہ پا ہونے کی دھمکی دے رہا ہے ،حالانکہ اب تو عشق وعاشقی اس قدر عام ہوگئی ہے کہ آج کل کے بچوں کے دانت بعد میں ٹوٹ رہے ہیں،دل پہلے ٹوٹ رہاہے ۔
ہمارے ایک استاد کہا کرتے ہیں کہ وہ زمانے چلے گئے جب طالب علم کہا کرتے تھے’’مریں گے ہم کتابوں پر ورق ہوگا کفن اپنا‘‘آج کے بچے عمل سے یہ ظاہر کر رہے ہیں’’مریں گے ہم حسینوں پر دوپٹہ ہوگا کفن اپنا‘‘۔
دور حاضر کے لیلی و مجنوں کیلئے موبائل کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ہے ،کاش یہ آلہ محبت قدیم عاشقوں کو بھی حاصل ہوتا تو انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے اور صحرا نوردی کی ضرورت ہی نا پڑتی،کبوتر اور معشوقہ کی سہیلیوں کی خوشامد کرنے سے بھی بچ جاتے اور رسوائی وجگ ہنسائی بھی نا ہوتی۔
کتنا اچھا ہوتا کہ لیلی کی شادی کے بعد مجنوں جنگل میں مارا مارا پھرنے کے بجائے لیلی سے لیپ ٹاپ پر ویڈیو چیٹنگ کر کے دل کو تسلی دے لیتا، کیا ہی خوب ہوتا جو کوہکن فرہاد ،شیریں کے مرنے کی غلط خبر سن کر خود کو تیشہ زن کرنے سے پہلے ایک بار موبائل پر اس سے تصدیق کر لیتا،یا واٹس اپ پر ہی پوچھ لیتا
Darling , r u dead or alive ?
اگر زندہ ہو تو میں دودھ کی نہر لا رہا ہوں اور اگر نہیں تو میں تمہارے پاس آرہا ہوں۔
کاش ؛ شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کے انارکلی کو دیوار چنوانے سے قبل عاشق شہزادہ سلیم اگرانارکلی کو چپکے سے ایک اسمارٹ فون دیدیتا، پھر وہ جہاں رہتی اور جس حال میں رہتی سلیم کو ایک مس کال دیتی اور اسکائپ پر بات چیت بھی ہو جاتی،ظل الہی بھی خوش، نہ باپ سے بغاوت نہ یلغارکی ضرورت اوردربار اکبری کی چھت پر نیٹ ورک بھی صاف آتا۔
غالب کلکتے کی نازنین بتان خود آرا کو دیکھنے کے بعد ان کے حسن سے مسحور ہو کر ہائے ہائے نہ کرتے اگر انہیں موبائل پر بیروت، انگلینڈ اور پیرس کی نیم ملبوس خوبصورت دوشیزائیں،محض جنبش انگشت سے ہی دیکھنے کو مل جاتیں۔
اب آج یوم عشاق کے دن جو حضرات اکیلے ہیں وہ کسی طرح کی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں اور احساس کمتری سے دور رہیں اور’’لیٹے رہے تصور جاناں کئے ہوئے ‘‘اور جو حضرات آج مصروف ہیں ان کے انجام پر نظر رکھتے ہوئے حفیظ جالندھری کی زبانی بس یہی کہنا چاہوں گا
کیوں درد کے شکوے کرتا ہے،کیوں ہجر کے رونے روتا ہے
اب عشق کیا تو صبر بھی کر، اس میں تو یہی کچھ ہوتا ہے
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی میں ایم اے سال دوم کے طالب علم ہیں)

SHARE