محفوظ احمد
وہ یوپی کے ایک گاؤں کا رہنے کا والا تھا ، طبیعت کی افتاد کے اعتبار سے ایک خشک مزاج انسان تھا ، زمانے کی رنگینیوں اور اس کی نیرنگیوں سے اسے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی ، اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے خبر وہ اپنی ہی دنیا میں جیتا اور جاگتا رہتا تھا ، اپنے ہم عمر دوست و احباب سے بھی اسے کوئی خاص لگاؤ نہیں تھا بلکہ بزرگوں کی صحبت اور ان کی معیت کو بہت حد تک پسند کرتا تھا ، بچپن سے ہی مزاج کے اندر سنجیدگی اور متانت پائی جاتی تھی ، بقدر کفاف بولنا اور اسی کے بقدر سننا بھی پسند کرتا تھا ، دوستوں کی محفل میں اعتبار کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور اپنے استاذۂ کرام کا بھی منظور نظر تھا ۔ ابتدائی تعلیم کے بعد گھر والوں کے اصرار پر علاقے کے ایک اُچؔ پراتھمک ودیالیہ میں داخل ہو گیا لیکن ماحول اور آب و ہوا راس نہ آنے کی وجہ سے جلد ہی وہاں سے واپسی ہو گئی اور پھر اپنے لیے ایک الگ ہی دنیا کا چَیَن کیا یہ انتخاب گھریلو ماحول کے اعتبار سے بالکل مختلف انتخاب تھا جہاں دن و رات انسانیت اور مانَوتا کا درس دینے کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کی تباہ کاریوں کے قصے اور کہانیاں سنائے جاتے تھے ، اسٹوڈینٹس کے ذہنوں کو دنیا و ما ورائے دنیا میں پیش آنے والے عشق و محبت کے خوفناک انجام سے روشناس کرایا جاتا تھا ، ان کے نو خیز دل و دماغ کے اندر یہ فکر اس طرح پیوست کر دی جاتی تھی کہ اپنی آنے والی زندگی میں اس پر عمل کرنا تو در کنار وہ اس کے بارے میں سوچنا بھی پاپ اور پُنیہ کا کام سمجھنے لگتا تھا ، اپنے ارد گرد کے ماحول سے بے نیاز ہو کر وہ اپنے مقصد کے حصول میں لگا رہا یہاں تک کہ گاؤں کی واجبی تعلیم کے بعد اعلی تعلیم کے حصول کے لیے ملک کی راجدھانی دہلی چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو ایک کھلے ماحول میں آنکھیں کھولنے کا موقع میسر ہوا ، لوگوں کے مختلف افکار کو پڑھنے سمجھنے اور قریب سے جاننے کا موقع فراہم ہوا ، دیکھتے ہی دیکھتے گریجویشن مکمل ہو گیا اور دیگر سارے گریجوئیٹس کی طرح اسے بھی فکر معاش ستانے لگی ۔ اس کی فلسفیانہ فکر ، مفکرانہ گفتگو ، رہنے سہنے کے انداز اور قدرے جداگانہ طرز حیات کی وجہ سے گھر والوں ، دوست و احباب اور رشتہ داروں کے نزدیک اس کی الگ ہی پہچان بنی ہوئی تھی ، اب وہ عمر کی بائیس تیئیس بہاریں دیکھ چکا تھا ، عنفوان شباب کی اس عمر میں جب ایک نوجوان جسم اور نوجوان دل و دماغ کے اندر طرح طرح کے خیالات انگڑائیاں لیتے ہیں اس کی خشک مزاجی اور مفکرانہ سوچ کی وجہ سے لوگوں کا خیال تھا کہ شادی بیاہ کے لیے وہ اپنے من پسند کی جسم و روح کا انتخاب کرے گا ، دہلی شہر میں کالج کی کسی ہم درس اور کلاس فیلو کو اپنی زندگی کے سفر میں رفیق بنائے گا جو اس کی آنے والی نسلوں کی صحیح تعلیم و تربیت کر سکے گی کیونکہ گاؤں کی آب و ہوا خواہ جتنی بھی تعلیم یافتہ ہو جائے شہر کی چلت پھرت اور وہاں کی بھاگ دوڑ والی زندگی سے کافی دور ہوتی ہے ۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس کے دل و دماغ میں بھی اس طرح کے خیالات گدگدی لینے لگے ، وہ سوچنے لگا کہ اب وہ وقت آ گیا ہے کہ اس جام کو بھی نوش کر لینا چاہیے ۔ اس کے لیے لوگوں کی توقعات کے بالکل برعکس کسی نیم کرسٹن کے بجائے اس کی نظر انتخاب اپنے ایک قریبی رشتہ دار کے گھر پر پڑی جو ایک خوش حال گھرانہ تھا ، متعدد مقامی کاروبار کے علاوہ خلیجی ممالک کے ایک معروف ملک میں اپنا بزنس تھا ، دولت کی ریل پیل تھی ، بڑے لوگ تھے اور یہ ٹھہرا ایک غریب مزدور کا کمزور بیٹا جس کے مشفق والد نے صرف اس امید پر کسی طرح اپنے بیٹے کی اعلی تعلیم کا انتظام کیا تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر ایک قابل انسان بن سکے گا اس لیے ہزار خواہشات کے باوجود کسی سے اظہار کرنے کی اپنے اندر ہمت نہیں جٹا پا رہا تھا ، دل کی خواہشیں تھیں جو بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں لیکن دماغ تھا جو سوچنے پر مجبور کر رہا تھا ، دل و دماغ کی اسی جنگی کیفیت کے مابین مئی جون کی گرمیوں میں وہ دہلی سے گھر جاتا ہے اور حسب روایت ملاقات کے لیے دیگر رشتہ داروں کے ساتھ اس گھر بھی پہنچتا ہے جو حالیہ دنوں اُس کے خواب و خیال کا مرکز بنا ہوا تھا ، چند ہی ساعت بعد اس رخ کا بھی دیدار ہوتا ہے جس کے لیے یہ پورا کارگِل چھڑا ہوا تھا لیکن ایک بار پھر اسے اپنی اور اپنے والد کی اوقات کا خیال آتا ہے اور سارے احساسات اس کے سینے کے اندر دب کر رہ جاتے ہیں یہاں تک کہ کسی سے کچھ کہے بغیر ہی چھٹیاں گذار کر دوبارہ وہ دہلی چلا جاتا ہے۔ وہاں پہنچ کر یہ احساسات اتنی شد و مد اختیار کر جاتے ہیں کہ ہر وقت یہی خیال کہ کیا کرے ، کیسے کرے ، کس کو ذریعہ بنائے اور کیسے منزل تک رسائی ہو ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اظہار کے بعد آئینہ دکھا کر اسے اس کی اوقات کا احساس دلا دیا جائے اور اپنی خود دار طبیعت کی بناء پر جیتے جی اسے موت کا تلخ گھونٹ پینا پڑے کیونکہ برابری اور کند ہم جنس با ہم جنس پرواز اس سماج کا مزاج نہیں فطرت بن چکی ہے ۔ بہر حال اس کے لیے بہتر طریقہ یہ سمجھ میں آیا کہ لوگوں سے بات نہ کر کے براہ راست صاحب معاملہ سے ہی معاملہ طے لے چنانچہ اے فور سائز پیپر پر اپنی خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں تقریباً دو پیج پر اپنے جذبات کو انڈیل کر رکھ دیتا ہے لیکن دماغ نے ایک بار ہھر ان جذبات کے دروازے پر دستک دی اور کہا کہ تو کجا اور وہ کجا ؟ اس لیے کاغذ پر بکھرے ہوئے ان احساسات و جذبات کا گلہ دبا کر وہ ان کو ایک بار پھر ڈسٹبین کے حوالے کر دیتاہے ۔ ادھیڑ و بُن کا یہ سلسلہ ابھی چل ہی رہا تھا کہ ایک واقعہ نے اس کے پورے وجود کو جھجھوڑ کر رکھ دیا اور ایسا محسوس ہوا کہ زمین و آسمان کی ساری رونق یکلخت اس کے لیے کافور ہو گئی جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا رشتہ فلاں بڑی پارٹی کے فرزند سے طے کر دیا گیا ہے ، دل پر چھری چل گئی ، آنکھوں کے پپوٹے پھول گئے ، حد تو اس وقت ہو گئی جب دہلی میں اتفاقیہ طور پر اُس سے ملاقات ہو جاتی ہے اور وہ اپنے چند دوستوں کی معیت میں اپنی منگیتر کے ساتھ زندگی کے بڑے بڑے منصوبے بنا رہا ہوتا ہے ۔ وہ منصوبے بنا رہا تھا اور اِدھر اِس بے بس انسان کا قتل ہو رہا تھا پھر بھی اس نے دل تھام کر اس کو مبارک باد دی اور اپنے دل میں طاہر فراز کا یہ شعر دھرایا کہ:
آ گلے لگ جا مبارک ہو تجھے میرے رقیب
کل تلک جو شخص میرا تھا وہ تیرا ہو گیا
اب اِس کے لیے فصبرٌ جمیل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے مرتا کیا نہ کرتا ، خاموش ہو گیا اور ہزاروں بوجھ تلے دبے و بجھے ہوئے من سے اپنے مستقبل کی تعمیر میں لگ گیا حالانکہ اگر وہ چاہتا تو تیسری دنیا کے لوگوں کی طرح ایک طوفان بپا کر سکتا تھا ، اپنے معیار سے نیچے اتر کر انجام کی پرواہ کیے بغیر جانبین کی عزت کو تار تار کر سکتا تھا لیکن چونکہ وہ ایک شریف اور با عزت انسان تھا اس لیے صنف نازک کے ساتھ ساتھ کسی کی عزت سے کھلواڑ کرنا اپنی غیرت و حمیت کے خلاف سمجھا اور صبر و ضبط کے تلخ گھونٹ کو اپنے اس مجازی مرض کا آخری علاج قرار دیا پھر خاموشی کے ساتھ تعمیر خویش میں مشغول ہو گیا ۔
پانچ سال کی مسلسل اور انتھک جد و جہد کے بعد قسمت نے یاوری کی ، اسے ایک بہترین ملازمت مل گئی ، لاکھوں روپیے ماہانہ آمدنی شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا شمار علاقے کے خوش گوار بلکہ مالدار لوگوں میں ہونے لگا ، قریبی رشتہ داروں کی نگاہیں اس کی طرف اٹھنے لگیں اور کل تلک جو لوگ اسے قابل اعتناء نہیں سمجھتے تھے اب اسے اپنی محفل میں جگہ دینے لگے ، اسے اپنے پاس بٹھانے ، اس سے باتیں کرنے اور اس کے ساتھ اپنے تعلقات کو بر قرار بلکہ مضبوط کرنے میں فخر محسوس کرنے لگے اور یہی نہیں واہ رے تقلباتِ زمانہ ! جس گھر میں اس کی خواہشوں کا خون ہوا تھا ، جس گھر میں اس نے اپنے احساسات و جذبات کو دفن کیا تھا ، جس گھر میں چار و ناچار اسے فصبرٌ جمیل کا تلخ گھونٹ پینا پڑا تھا اسی گھر کی چہار دیواری سے چھوٹی ہمشیرہ کے لیے اُس کے ساتھ رشتہ کا پیغام بھیجا جاتا ہے ۔ اس کے والدین جذباتی ہونے کے بجائے چونکہ ایک سنجیدہ شخصیت کے مالک انسان تھے اور خود اس کی ذات بھی سنجیدگی سے معمور تھی اس لیے حالات کے نبض کو سمجھ کر ان لوگوں نے اس رشتہ کو قبول کر لیا اور پھر چندسالوں بعد ان کی شادی کر دی گئی جن سے ان کی چند اولادیں بھی ہو چکی ہیں ۔
Moral of the story
کہانی کی حقیقت یا عدم حقیقت سے قطع نظر اس میں اس بات کا پیغام دینا ہے کہ اگر آپ کے ساتھ اس طرح کے واقعات پیش آئیں تو جذبات میں آ کر اپنا اور کسی کا نقصان کرنے کے بجائے آپ تعمیر خویش ( self construction ) میں لگ جائیں ، اپنے آپ کو اس بات کا اہل بنا لیں کہ آج جو لوگ آپ کو کم تر سمجھ رہے ہیں کل آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہو جائیں اور آپ بلا کسی کو نقصان پہنچائے ہوئے اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں۔