للن اور کلن کی عید

ڈاکٹر سلیم خان
للن مشرا نے کلن خان کے ہاتھ میں بڑا سا تھیلا دیکھ کر پوچھا کیوں بھائی عید کی تیاری کیسے چل رہی ہے؟
عید کی تیاری ابھی تک ؟ میں تو عید کی نماز پڑھ کر آرہا ہوں ۔
اوہو تب تو عید مبارک یہ کہتے ہوئے کر للن کھڑا ہوکر اپنے بچپن کے دوست سے لپٹ گیا ۔
کلن نے کہا بہت شکریہ تمہیں بھی عید مبارک ۔ چچا اور چچی کہاں ہیں اور تیرا ننکو بھی دکھائی نہیں دیتا ۔
وہ سب لوگ پڑوس کے گاوں میں بارات کے ساتھ گئے ہوئے شام تک لوٹ آئیں گے۔
اچھا تم نہیں گئے ؟
مجھ سے بھی کہہ تورہے تھے لیکن میں نے ٹال دیا ۔
ارے یہ تو بہت غلط بات ہے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے۔ جانا چاہیے ۔
جی ہاں لیکن اگر میں چلا جاتا تو تجھ سے ملاقات کیسے ہوتی؟ اوپر والے نے اسی لیے مجھے روک دیا۔
جی ہاں للن !قسم سے اگر تو نہ ملتا تو میرا موڈ خراب ہوجاتا ۔ ہر سال عید کی نماز پڑھ کر گھر آتا ہوں تو اماں سب سے پہلے یہ کام پکڑا دیتی ہیں ۔
کلن سچ بتاوں عید کے دن ہمارے گھر میں چولہا نہیں جلتا ۔ دن بھر ہم لوگ وہی سب کھاتے رہتے ہیں جو تم لاتے ہو اور وہ ختم بھی نہیں ہوتا ۔
اسی کو برکت کہتے ہیں کہ انسان کا پیٹ بھر جائے مگر کھانا ختم نہ ہو ۔
لیکن یار کلن عید کی چھٹی تو کل ہے ۔ یہ ایک دن پیشگی کیسےہوگئی ؟
وہ ایسا ہے کہ ہم لوگ چاند دیکھ کر روزہ رکھتے ہیں اور چاند دیکھ کر چھوڑتے ہیں ۔اب چاند کے بارے اندازہ کبھی کبھار غلط بھی ہوجاتا ہے۔
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی ۔
اس بار امید تو یہ تھی کہ ۳۰ روزے ہوں گے اسی لحاظ سے کیلنڈر میں تعطیل درج کی گئی لیکن دیر رات چاند کی خبر آگئی ۔ مسجد سے اعلان ہوگیا ۔ واٹس ایپ اور ایس ایم ایس جنگل کی آگ کی مانند پھیل گئے اور آج ہم لوگوں نے عید منالی ۔
لیکن مہینے کا پہلا چاند تو غروب آفتاب کے کچھ دیر بعد اوجھل ہوجاتا ہے تو یہ رات گئے والی بات کا چکر کیا ہے؟
بھئی دیکھو ایسا ہے کہ چاند تو دکھائی دیا اور چھپ گیا لیکن اگر اس کا گواہ کسی دور دراز کے مقام پر ہو تو اسے رویت ہلال کمیٹی کے دفتر میں آ کر شہادت دینے میں وقت لگ جاتا ہے ۔ ذمہ داری کا معاملہ ہے اس لیے جب تک تصدیق و اطمینان نہ ہوجائے اعلان نہیں ہوتا ۔ اسی میں دیر ہوجاتی ہے۔
سمجھ گیا لیکن یہ جو دنیا بھر میں مختلف دنوں میں عید ہوتی ہے نا اس بارے میں کچھ کرو ۔ کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک ہی دن ساری دنیا میں عید منائی جائے۔
یار للن تم تو پڑھے لکھے آدمی ہو اور تمہیں پتہ ہے کہ چاند اسی وقت نظر آسکتا ہے جب اس کے غروب کا وقت سورج ڈھلنے کے بعد ہو۔
جی ہاں ، یہ تو عقلِ عام کی بات ہے اس کے لیے پڑھا لکھا ہونا ضروری نہیں ہے۔
اب تم دہلی اور ممبئی کا ٹائمز آف انڈیا اٹھا کر دیکھو تو ان میں سورج اور چاند کے غروب کا الگ الگ وقت لکھا ہوا ملے گا ۔ اس لیے عین ممکن ہے کہ وہاں چاند نظر آئے اور یہاں نظر نہ آئے۔ اب جہاں نظر آگیا عید منالی اور جہاں نظر نہیں آیا روزہ رکھ لیا ۔ اس میں کیا مشکل ہے؟
کہیں روزہ کہیں عید ! کچھ عجیب سا نہیں لگتا ؟
کہیں دن اور کہیں رات اگر عجیب نہیں لگتا تو کہیں روزہ کہیں افطار میں حیرت کی کیا بات ہے ۔ بھائی یہ دنیا اگر گول ہے تو اسے چوکور کیسے کرسکتے ہیں؟
جی ہاں کلن چونکہ ہم قدرت کے قوانین کو بدل نہیں سکتے تو اس کے مطابق خود کو ڈھال جانے میں بھلائی ہے۔
للن نے تائید میں کہا اور ہم ویسے بھی اپنے شہر کے لوگوں سے عید ملتے ہیں۔ اس لیے اگر ایک شہر میں ایک ہی دن عید ہوجائے یہ کافی ہے؟
کلن بولا کافی تو ہے لیکن اگر کسی طرح ایک ملک میں سہی ایک ہی دن ہوجایا کرے تو کتنا اچھا ہو؟
ہاں دوست لیکن ممالک کی سرحدیں بھی توپھیلتی سکڑتی رہتی ہیں ۔ ان کا کیاا عتبار مثلاً بنگال کا افق بنگلا دیش اور پنجاب کا پاکستان سے قریب ہے۔
جی ہاں لیکن اس سے واٹس ایپ اور فیس بک وغیرہ پر میسیج ڈالنے میں کنفیوزن ہوجاتا ہے ۔
سوتو ہے لیکن اگر عید کی مبارکباد ایک دن قبل یا بعد آجائے تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ویسے بھی دو تین دن تک عید کا ماحول رہتا ہی ہے۔
لیکن بھائی اس عید کے تعلق سے ہی یہ تذبذب کی کیفیت رہتی ہے ۔ شاید ہی کسی اور تہوار کی بابت ایسا ہوتا ہے؟
جی نہیں ہماری معلومات ناقص ہے ۔ دنیا میں کرسمس بھی مختلف دنوں میں منائی جاتی ہے اور تمہیں یاد ہے پچھلے سال دہلی اور ممبئی میں دسہرہ بھی الگ الگ دنوں منایا گیا ۔ اس سے کون سا فرق پڑگیا ۔
جی ہاں یاد آیا مودی جی وہاں رام لیلا میدان میں راون کا دہن کرکے آئےتو ہم لوگ ممبئی میں اس کا پتلا بنارہے تھے تاکہ دوسرے دن یہاں جلاسکیں ۔
یہی تو میں بھی کہہ رہا ہوں ۔ اب تم پیالہ طشتری لاو تو یہ توشہ دان کھولاجائے۔ میں نے گھر پر یہ سوچ کرناشتہ نہیں کیا کہ تمہارے ساتھ کروں گا۔
جی ہاں یار ہم لوگ بلا وجہ کی بحث میں الجھ گئے ۔ میں نے بھی ابھی تک ناشتہ نہیں کیا اور اس سے اچھا پکوان قسم سے پورے سال انتظار رہتا ہے۔
للن مشرا گھر کے بھیتر کی اوردوڑا ۔ اسی کے ساتھ کلن خان گرم گرم ٹفن کا ڈھکن کھولنے لگا۔ عید منانے کے لیے یہ لازمی تھا۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں