ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی
( اردو ليكچرر عين شمس یونیورسٹی، قاہرہ – مصر)
شہر زاد کا نام ہمیں ماضی کی طرف لے جاتا ہے_ قصہ گوئی کی مشہور کتاب (الف لیلہ و لیلہ: ایک ہزار ایک رات” کی ہیروئن شہر زاد جنہیں دنیا کی ذہین ترین عورتوں میں شمار کیا جاتا ہے_ الف لیلہ و لیلہ کی کہانی میں بیان کردہ ساری کہانیاں اس کی زبانی بیان کی گئی ہیں۔
الف لیلہ و لیلہ کی کہانی سے شہر زاد کی شخصیت کی جو جھلک نظر آتی ہے – اُس سے پتہ چلتا ہے کہ طاقتور بادشاہ “شہریار” کے سامنے وہ ایک بے بس شخصیت تھی لیکن بیان کرنے کی مالک تھی_ بس اسی ایک طریقہ سے وہ ان بادشاہ نمٹ سکتی تھی اور وہ یہ ہے “بیان کرنا “- ایک ظالم بادشاہ جو نفسیاتی اذیت اور کٹھن حالات برداشت نہیں کر سکتا تھا اور ان کی آزمائش کا مقابلہ کرنے کو عبور نہیں کر سکتے تھے۔
یہ بادشاہ اپنی ملکہ کی بے وفائی کی وجہ سے عورتوں سے نفرت کرتے تھے اور ایسا کہا جاتا ہے ہر رات کو ایک کنواری لڑکی سے شادی کرتے تھے _ مانا جاتا ہے کہ یہ شادی صرف رسم کے لیے ہوتی تھی اور لڑکیوں کی عصمت دری کی جاتی تھی_ دلہن کو رات بھر رکھ کر اپنی پیاس بجھا کر صبح کو قتل کر دیتے تھے۔
یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا، تین سال کے اندر اندر انہوں نے اپنی سلطنت میں ایک ہزار سے زائد لڑکیوں کو قتل کیا تھا_ اس طرح شہر میں عورتوں کی تعداد کم ہونے لگی اور بادشاہ کی رعایا نے ان کی نا انصافی کو قبول نہیں کیا_ اور بہت سے لوگ اپنی بیٹیوں کے ساتھ بادشاہ کی سلطنت سے بھاگ گئے تاکہ ان کو ایک زندگی پانے کا موقع ملے_ چنانچہ بادشاہ کی یہ عام سزا ظلم اور نا انصافی سے مشہور تھی اور لوگوں کا جینا دو بھر ہوگیا تھا۔
شہر زاد، بادشاہ شہریار کے وزیر کی بڑی بیٹی تھی_ بہت عقلمند اور کثیر مطالعہ رکھنے والے لڑکی تھی_ کہا جاتا ہے کہ شہر زاد کے کتب خانے میں ایک ہزار کتابیں موجود تھیں_ انہوں نے خاص طور پر تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ کیا تھا۔ گزرے ہوئے بادشاہوں کے حالات اور گزشتہ قوموں کے واقعات کا گہرا مطالعہ شامل تھا۔
اپنے باپ کی مرضی کے بغیر شہر زاد نے شہریار سے شادی کر لی تاکہ لڑکیوں کو اس عذاب سے نجات دلائے اور سلسلۂ قتل وغارت گری کو روکے_
شادی کی پہلی رات کے وقت شہر زاد نے شہریار کو ایک دلچسپ کہانی سنانا شروع کی، وہ ہر رات ایک کہانی ختم کر کے ایک نئی کہانی شروع کرتی اور کسی اہم مقام پر پھر کہانی ختم ہو جاتی۔ اس طرح رات ختم ہوجاتی لیکن کہانی ختم نہ ہوتی_ اور شہریار باقی کہانی سننے کی خاطر شہر زاد کو قتل کرنے کا ارادہ ملتوی کر دیتا تھا_ اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا یہاں تک کہ شہر زاد ایک ہزار ایک رات تک کہانی سناتی رہی ۔ اس مدت میں شہریار نے قتل کا ارادہ ترک کر دیا تھا۔
شہر زاد اور شہریار کی دلچسپ کہانی سے میرا مقصد یہ ہے کہ دور حاضر میں کہانی بیان کرنے کی روایت بہت اہم ہے_ اس کے ذریعے ہی عصر حاضر کی پریشانیوں سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے، وہ ہمیں آزاد خیال بنا سکتے ہیں اور سوالات پوچھنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ لوگوں کو ایک نئی اور آزاد زندگی جینے کا امکان دے سکتا ہے_ دنیا کو ایک سوال میں تبدیل کرتا ہے، اس کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا جواب بھی دیتا ہے۔
علاوہ از این کسی چیز کو بیان کرنا، دوسروں سے تعلق بنانے اور علم حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے چنانچہ عام طور پر لوگ بیان کرنے کو ذریعے رابطہ بناتے ہیں_اس کے واسطے بھی انسان دریافت کر سکتا ہے کہ وہ نہ صرف ایک فرد اپنی ذات سے تعلق رکھتا ہے بلکہ وہ سماج کا ایک اہم رکن ہے_ ایک فرد اور دوسروں کے درمیان قریبی رابطہ، سماجی روابط کو مضبوط بنانے کا موقع دیتے ہیں۔ چنانچہ انفرادی تنہائی انسان کو نفرت سے قریب تر کر دیتا ہے، اس کے اندر تنگ نظری پیدا کرتا ہے، جنگ میں حصہ لینے کی ترغیب دیتا ہے اور اختیار یا اثر ورسوخ کا حرص بھی پیدا کرتی ہے_ جس کے نتائج ہمیشہ اچھے نہیں ہوتے_ جس طرح شہریار نے اپنے دور میں کیا۔ اپنی توجہ صرف اپنی ذات پر مرکوز کیا پھر ایک جابر حکمران بن گئے _ جو رعایا پر حکومت کر کے اس کو ضرر اور اذیت پہنچاتا تھا۔
شہر زاد نے سیاسی اور سماجی زندگی کے ایسے بہت سے پہلو شہریار کو دکھایا جو قابل ذکر ہے جیسے عدل وانصاف، راست بازی، ایثار و قربانی، صفائے قلب، سخاوت، شجاعت، صبر و قناعت اور حق اور باطل کی جنگ۔
شہر زاد کا حیرت انگیز علم اور صلاحیت شہریار کا بے انصافی اور خونریزی کے متضاد تھا_ یہی وجہ تھی کہ اس کا بیان کرنا شہریار کے ظلم واستبداد کے خاتمے کا ذریعہ بن گئی۔
شہریار نے شہر زاد کی کہانیوں سے سبق سیکھا اور اپنے اندر حق اور انصاف پیدا کیا_ رعایا کے ساتھ عمدہ سلوک کیا اور اپنی ذمہ داری بحسن وخوبی نبھائی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ” بیان کرنا “ انسان کے اندر جدت پیدا کر سکتا ہے اور تصورات کو بھی ابھار سکتا ہے_ بیان کرنے کی خوبی سے شہر زاد موت کا سامنا کر سکی اور بالآخر جیت گئی کیونکہ وہ جدت کی زندگی بسر کر رہی تھی_ شہر زاد کی کہانی ہم سب کے لئے سبق آموز اور پُر معنی ہے_ یہ ہمیں ضبط کرنا سکھاتی ہے اور لوگوں سے بات چیت کرنا کا فن بھی سکھاتی ہے۔ اس طرح ہم دوسروں سے بھی سیکھتے ہیں اور ان کو اپنے بارے میں بھی بتاتے ہیں_ اسی بنا پر ہم دوسروں کو اپنے خیالات اور احساسات کے بارے میں کُھل کر بیان کرتے ہیں۔
میں نے محسوس کیا ہے کہ کبھی کبھی ہماری زندگی ایک قیدی جیسی ہے جو جیل میں رہنے کی مانند ہے_ ہر روز قتل کرنے کے لئے اس جیل سے قیدی باہر آتے ہیں_ اور ہم سب شہر زاد کی طرح سزائے موت کا سامنا کرتے ہیں_ ہماری زندگی کا مقصد محض اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے سخت محنت کرنا اور پھر مر جانا نہیں ہے_ اس لئے ہمیں اپنی زندگی میں ایک لامتناہی اور نئے آغاز پیدا کرنا چاہیے۔ اپنی ذات اور سماج کے لئے ایک بہتر آئینہ بننا چاہیے۔ ہمیں نئے خیالات پیدا کرنا چاہیے اور تخلیق کرنا چاہیے۔ اور یہ چیزیں اپنی بات بیان کرنے سے ہی حاصل ہوگا۔