دولہا سر

  (ڈاکٹر) محمد یحییٰ جمیل

انگریز نے ’کوٹ‘ کی شکل میں دنیا کو وہ نادر و نایاب تحفہ عطا کیا جو بلا شرکتِ غیرے عزت و قار کی نشانی بنا۔ ہمارے ملک میں کوٹ پہننے کے لیے مخصوص لباس کی شرط نہیں۔ پٹھان شلوار پر کوٹ پہنتا ہے، حیدرآبادی ڈھیلے پاجامے پر، مراٹھا دھوتی پر اور جنوبی ہند کے باشندے لنگی پر۔ ایک ملک کا بادشاہ چڈی پر کوٹ پہنتا ہے۔وہ چڈی کو عزت بخشتا ہے یا کوٹ کو رسوا کرتا ہے، وہی جانے۔ بادشاہ ہے، کوئی پوچھ سکتا ہے! ہمارے کرم فرما، باقاعدہ ٹراوزر پر ہی کوٹ پہنتے ہیں، لیکن جس طریقے سے پہنتے ہیں، اس سے بخوبی واضح ہوجاتا ہے کہ خود کو عزت بخشتے ہیں یا کوٹ کو رسوا کرتے ہیں۔

موصوف، ایک دیہات میں ٹیچر ہیں اورطلبہ میں بطور ’دولہا سر‘مشہور ہیں، کہ گاو ¿ںکے بچے صرف دولہے کو کوٹ میں دیکھنے کے عادی ہیں۔ جب کلاس کے ایک ’ہری رام نائی‘ نے انھیں یہ اطلاع بہم پہنچائی تووہ خوشی سے پھولے نہ سمائے، اور ان کا قہقہہ جامے سے باہر ہوگیا، جو اکثر ہوتا ہے، کہ ”بیوقوف، یہ خطاب ہے ،اگلے زمانے میں مرزا نوشہ تھے اس زمانے میں ہم ہیں، دولہا سر۔“دروغ بر گردنِ راوی کہ اس کے بعد وہ بیت الخلاءبھی کوٹ پہن کر جانے لگے۔

ویسے دولہا سر کا نام، ’شیخی جان‘ہے۔ موصوف کے اسم گرامی کے بارے میں کئی روایتیں ہیں۔ کچھ کے مطابق ان کے دادا کا نام، شیخ بھوروتھا ،اس لیے یہ شیخی ہوگئے۔ شاید ان کی سیاہ رنگت نے انھیں’ بھوروی‘ ہونے سے باز رکھا ہو۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ان کا نام سلیم تھا، والد پیار سے شیخو کہتے تھے جو رفتہ رفتہ شیخی میں بدل گیا۔کچھ بدخواہوں کے مطابق اس نام کے لیے، اُن کے شیخی بگھارنے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ لیکن ہم انھیں دولہا سر ہی کہتے ہیںکہ لفظ دولہا میں جو ’داد خواہی‘ پوشیدہ ہے، اسے ہر شادی شدہ بخوبی سمجھ سکتا ہے۔

دولہا سر ایک مرتبہ پکنک پر گئے ہوئے تھے، جہاں دواساتذہ نے شرط لگا ئی کہ ان کا کوٹ اتروایا جاسکتا ہے یا نہیں۔ ایک استاد نے طلبہ کو ورغلایا کہ دولہا سر سے ندی میں نہانے کی ضد کریں۔ بچوں کے اصرار پر دولہا سربے تا ¿مل کوٹ پہن کر پانی میں اترگئے اور بچوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ وہاں انھوں نے ڈبکیاں بھی لگائیں اور قہقہے بھی اڑائے۔ بعد ازاں ایک چٹان پر بیٹھ کر کوٹ سُکھالیا، لیکن اتارا نہیں۔ دراصل دولہا سر ،بچپن سے کپڑے گیلے کرنے کے عادی ہیں۔

سیر سپاٹا بھی ان کی سرشت میں داخل ہے۔ تعلیم کے زمانے میں ایک صبح انھوں نے اپنے والد محترم کو اطلاع دی کہ، ”آج، ہم چند دوستوں کے ساتھ پکنک پر جارہے ہیں۔“

والد صاحب نے پوچھا، ” کون سے استاد کے ساتھ جارہے ہو؟؟“

بولے، ”ہم سر کے بغیر جارہے ہیں۔“

والد صاحب نے کہا، ”سر کے بغیر مت جاو ¿۔“

فرمایا، ”ہم سر کے بغیر جائیں گے۔“ اور والد کے لاکھ منع کرنے کے باوجود سر کے بغیر چلے گئے۔

یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ بین الاقوامی کانفرنس ہو،سیمینار ہو، تعلیمی ورکشاپ ہو یاآل انڈیا مشاعرہ؛ موصوف ہر جگہ سر کے بغیر پہنچ جاتے ہیں۔ اس لیے کسی کو دکھائی نہیں دیتے، حالانکہ وہ موجود ہوتے ہیں۔ اور اپنی موجودگی کا یقین دلانے کے لیے بحالت مجبوری انھیں تقاریب کی تصاویر میں اپنا سر ’پیسٹ‘کرنا پڑتا ہے۔

دولہا سر بچپن میں گھر کی دیوار پر لکھتے تھے،پھر دُکانوں کے بورڈ لکھنے لگے اور اب وھاٹس ایپ پر لکھتے ہیں۔ غضب کے لکھاری واقع ہوئے ہیں۔ پچھلے سال ان کی ایک کتاب ، ”تنکا تنکا جوڑ کر‘ ‘شائع ہوئی۔ اس میں انھوں نے حروف تہجی کے مطابق اپنی پسندکے تین سو اشعار جمع کیے ہیں۔ کتاب کی اشاعت کے بعد بہت دنوں تک کتاب کی رونمائی کے لیے پریشان رہے، لیکن کوئی بندوبست نہ ہوسکا ۔

ایک دن دیکھا کہ محلے میں بچے کے ختنہ کی تیاری شروع ہے۔ منڈپ ڈالا جارہا ہے، مائک ٹیسٹنگ ہورہی ہے۔ دولہا سر سے رہا نہ گیا۔ وہ بچے کے والد کے پاس پہنچ کر اس سے مستدعی ہوئے کہ ختنہ کے فوراً بعد میری کتاب کی رونمائی رکھ دیں۔ اس نے سوچا، مسکین کی دعا سے بچے کا زخم جلد سوکھ جائے گا، بخوشی راضی ہوگیا،اور بتاشے بانٹنے سے پہلے کتاب کی رونمائی کرادی۔ اس کامیابی کے بعد دولہا سر کا کانفی ڈینس بڑھ گیا۔ اب عالم یہ ہے کہ جہاں چار لوگ جمع ہوئے، کتاب کی رونمائی کرالیتے ہیں۔

ایک دن محلہ میں زوجین کا جھگڑا راستہ تک آگیا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ دولہا سر نے مجمع دیکھا تو فوراً اپنے بیگ سے دو کتابیں نکالیں اور دونوں کے ہاتھ میں دے کر موبائل سے تصویر لے لی۔ تصویر کلک ہونے کے بعد دونوں نے کتابوں سے ایک دوسرے کو مارا لیکن وھاٹس ایپ پر خبر گردش کرنے لگی کہ، ’زوجین کا جھگڑا، دولہا سر کی کتاب سے نمٹا‘۔

موصوف بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ کتاب میں اتنے صفحات نہیں ہیں جتنی مرتبہ میری کتاب کی رونمائی ہوچکی ہے۔

رونمائی کے شانہ بشانہ کتاب پر تبصرے بھی شائع ہونے لگے۔ ایک تبصرہ معروف نقاد کے نام سے شائع ہوا تو اس نقاد نے سخت اعتراض کیا کہ وہ انھوں نے نہیں لکھا۔ دولہا سر نے خوب شور مچایا کہ ،”وہ میری شہرت سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔“ یہ بات کسی طور حلق سے نہ اتری کہ انکار سے کیسے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے، لہٰذا ہم نے اپنا شک دور کرنے کے لیے ان سے پوچھا،”کیا آپ گھوسٹ رائٹنگ بھی کرتے ہیں؟“

موصوف نے کچھ یوں قہقہہ مارا گویا کہہ رہے ہوں،’جہانِ عشق میں تفریقِ اسم و ذات نہیں۔‘ ہم نے یہ سوچ کر دل کو سمجھالیا کہ اگر کوئی ادیب اس طرح اپنی تحریر کا صدقہ نکالتا ہے توکیا برائی ہے۔

ادھر، دولہا سرنے ادبی اصطلاحیں وضع کرنے کا ٹینڈر بھرا اور ٹھیکہ ان کے نام ہوا۔ ایک معروف افسانہ نگار نے گاے پر چند افسانچے سپردِ قلم کیے تو انھوں نے بے دریغ مشورہ دیا کہ آپ نے نئی صنف ایجاد کی ہے، آپ اسے بجائے افسانچہ کے بقرانچہ لکھیے۔شکر ہے کہ افسانہ نگار نے اُس کے بعد افسانچہ ہی لکھنے سے توبہ کرلی۔ ورنہ وہ ان کے بچوں پر لکھے گئے افسانچوں کو ’طفلانچے‘ اور عورتوں پر لکھے گئے افسانچوں کو ’زنانچے‘کہتے۔ و علیٰ ہٰذا القیاس۔

ایک دن اطلاع ملی کہ دولہا سر ،اسکول کی عمر رسیدہ چپراسن کے عشق میں گرفتار ہیں۔ یہ سن کر ہمارا اپنا جمالیاتی ذوق شک کے دائرے میں آگیا۔ ہم نے عرض کیا، ”آپ کے والد مو ¿ذن ہیں؟“ بولے، ”بھئی حکیم الامت بھی اس وادیِ پر خار سے گذرچکے ہیں۔“

ہم نے ازراہ ہمدردی کہا،”لیکن آپ ٹیچر ہیں اور وہ بیچاری ….؟“

قہقہہ مار کر بولے، ”کفو نکاح کے لیے ضروری ہے، عشق کے لیے نہیں۔ بندہ کے لیے بغیر عشق کے سانس لینا بھی حرام ہے۔“

ہم نے کہا، ”جو بھی ہو، مگریہاں ،وہ منھ کھولے تو اس کے پَون انچی دانت دکھائی دیتے ہیں۔“

فرمایا، ”ان دانتوں میں ایک دانت سونے کا بھی ہے۔“اُس دن ہم اپنے جمالیاتی ذوق پر شرمندہ ہوکر دولہا سر کے معاشی ذوق پر رشک کرنے لگے۔ یہ عشق بہت لمبا چلا اور اس کا اختتام بڑے المیے پر ہوا۔ دولہا سر کو امید تھی کہ جس روز سالخوردہ معشوقہ کو پیغام اجل آئے گا، وہ یہ دانت تبرکاً حاصل کر لیں گے۔ مگر پھر انھیں معلوم ہوا کہ ایک وہی دانت ذاتی ہے اور باقی تمام مستعار۔ چونکہ اصل ہے اس لیے پیلا پیلا چمکتا ہے اور نقلی دانت سفید دکھتے ہیں۔ اس کے بعد انھیں لفظ عشق سے نفرت ہوگئی۔

ایک دن سر راہ مل گئے، خیریت پوچھنے پر فرمایا، ”انگریزی الفاظ کے معمے حل کرنے میں جو لطف ہے وہ عشق بازی میں بھی نہیں۔“ ہم نے، کلمات تحسین سے ان کے کانوں کو نوازا۔ موصوف خوش ہوکر بولے، ”صاحب! ہم نے وہ معمہ (puzzle) صرف چھہ مہینے میں حل کردیا جس کے اوپر ”۲ سے ۵ سال کے لیے“لکھا ہوا تھا۔

ہم نے کہا، ”بھئی آپ دنیا کے سب سے بڑے جینیس ہیں!“

انھوں نے اونٹ کی طرح گردن اونچی کی اور بولے، ”وہ تو ہم نے ثابت کردیا ہے۔“

براہِ کرم، دولہا سر کو ’قدرتی حماقت پر مصنوعی ذہانت‘ کی جیتی جاگتی تصویر نہ کہیں، ہاں قہقہہ لگاتی تصویر کہہ سکتے ہیں۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں