جائزہ ……. راشدالاسلام
سیمانچل کا پہلا سب سے بڑا مسئلہ علاقہ ہرسال سیلاب کی زد میں ہوتاہے جس سے عوام خصوصاً کسانوں کی کمر ٹوٹ جاتی ہے ۔سرکاری امداد محض اونٹ کے منھ میں زیرہ ثابت ہوتی ہیں۔سیلاب کسانوں کے ساتھ ساتھ ان کی نسل پربھی ایک خوفناک اثر چھوڑ جاتا ہے۔ اس کا اثربچوں کی پڑھائی ،ان کی کفالت پربھی پڑتاہے ۔سیلاب کی وجہ سے ہوئے نقصان کی تلافی کے لئے عوام پریشان رہتے ہیں پھربھی اس کی بھرپائی نہیں ہوپاتی ہے۔کہنے کوتوحکومتیں ہرسال سیلاب اوراس کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کیلئے کاغذی طورپر بلند و بانگ دعوے کرتی ہیں لیکن زمینی سطح پر اس کا کوئی اثر نہیں دکھائی دیتا ہے۔
سیمانچل میڈیامنچ پوچھناچاہتاہے کہ سیمانچل کے غریب عوام اورسیلاب سے ہوئی تباہی کودکھاکرورلڈبینک سے 2010سے 2014تک225.1ملین ڈالرز2007سے 2015تک 162.8ملین ڈالرزملے ان سے سیمانچل کے عوام کیلئے کونسے فلاحی کام کئے گئے ہیں؟ یہ سوال پوچھا جانا چاہئے۔جنوری2016میں پھرایک پروجیکٹ بی کے بی ڈی پی 250ملین ڈالرزکا حکومت ہنداورورلڈبینک نے دستخط کرکے بہارسرکارکودیا۔اس رقم کو2023تک خرچ کرناہے۔سیمانچل میڈیامنچ سرکارسے جانناچاہتاہے کہ اس رقم میں سے پچھلے سال آئے بھیانک سیلاب سے تباہ ہوئے لوگوں کیلئے کیاکیاگیا؟اورسیلاب کی پھر سے آمد سے قبل اس سے نمٹنے کے لئے کونسا لائحہ عمل مرتب کیاجارہاہے؟ایس ایم ایم او اپنے پارلیمامنٹ ممبران سے سوال کرتاہے کہ آپ سب نے اس فنڈسے اوراپنے فنڈسے سیمانچل کے عوام کیلئے کیاکیاکام کئے ہیں ذرا خود سے اسکا بیورا دیں۔
سیمانچل میڈیامنچ آرگنائزیشن کے زیراہتمام ’’سیمانچل کے مسائل اوران کا حل :کیا کہتا ہے سیمانچل‘‘کے موضو ع پربہار کے اس پسماندہ علاقے کے سیاسی، سماجی اور معاشی منظرنامے کے حوالے سے ایک مذاکرہ وکانفرنس کاہوٹل ریورویوابوالفضل نئی دہلی کے گولڈن ہال میں انعقادکیاگیاتھا۔ سیمانچل کی زبوں حالی کے اسباب پرتبادلہ خیال بھی کیاگیا۔صحافیوں اوردانشوروں نے تفصیلی اعدادوشمار کے ساتھ سیمانچل کی دشواریوں کواجاگرکرنے کے ساتھ ساتھ اس کے حل کی طرف رہنمائی کی۔کیونکہ سیمانچل کا بہارکے چارپانچ اضلاع ارریہ ،پورنیہ ،کٹیہار،کشن گنج اورسپول پرمشتمل ہے۔یہ بہارکاپسماندہ ترین علاقہ ہے جہاں قابل ذکردلت اورمسلم اکثریتی آبادی ہے۔یہاں کوسی ندی کے سیلاب سے ہرسال تباہی مچتی ہے ۔یہ نمی والا علاقہ ہے۔یہاں کے پانی میں ہمیشہ سے خرابی رہی ہے۔یہاں مختلف امراض ،وبائیں پھیلتی رہتی ہیں،ڈھنگ کاکوئی اسپتال نہیں ہے۔تعلیمی وسائل معدوم ہیں۔میٹرک پاس بچوں کیلئے جونےئرکالج اوربارہویں جماعت کامیاب طلباکیلئے ڈگری کالج کیلئے سینکڑوں بارمطالبہ کیاگیاہے مگرجس علاقے میں دلت اورمسلمان ہوتے ہیں،اس پرتوجہ کون دے گا؟ایک کروڑ80لاکھ آبادی والے اس سیمانچل میں ایک بھی انجینئرنگ کالج نہیں ہے۔چپراسی لیکرافسرتک کی نمائندگی چندے معدودہے۔راجیہ سبھاہویاقانون سازکونسل یاپھرمختلف کارپوریشنس اوربورڈس ،اس علاقے کی نمائندگی کہیں بھی نہیں ہوتی۔
سیمانچل میڈیامنچ کی حکومت ہندسے اپیل ہے کہ نیپال سے بات کی جائے اورکڑوے ہوتے رشتوں میں کچھ بہتری لائی جائے تاکہ وہاں سے اچانک چھوڑے جانے والے پانی سے نپٹاجاسکے کیونکہ وہاں سے آنے والا گاد منجمد ہوتے ہوتے پہاڑ بن گیا ہے۔نیپال کے بارڈر سے متصل ہونے کی وجہ سے وہاں ہونے والے کرائسس اکنامک بلاکڈکاسیدھااثرسیمانچل کی روزی روٹی اور ناطے رشتہ داروں پرپڑتاہے۔مدھیسیوں کی اقتصادی ناکہ بندی اور نوٹ بندی نے وہاں کے تاجروں کی کمر توڑ دی ہے۔ کیاحکومت ہند اس جانب توجہ دے گی ؟سیمانچل کے عوامی نمائندے ایم پی اورایم ایل اے کے پاس ترقیاتی اموراورسیلاب سے نمٹنے کیلئے کیاکوئی روڈ میپ ہے؟
سیمانچل کادوسراسب سے بڑامسئلہ 21ویں صدی میں سیمانچل کا علاقہ اپنی شناخت کھوتاچلاجارہاہے جس کی بنیادی وجہ تعلیمی فقدان اوربے روزگاری ہے۔اس علاقے نے جہاں عوامی نمائندہ پیداکئے جوہمہ وقت علاقے میں سرگرم رہ کرعوام سے روبروہوتے ہیں اوران کے مسائل کے تئیں فکرمندہیں وہیں کچھ ایسے بھی نمائندے بھی ہیں جواس علاقہ کی نمائندگی کرنے کے باوجودیہاں کے مسائل سے ناواقف اورنابلدہیں جس کا خمیازہ سیمانچل کے عوا م کوبھگتناپڑرہاہے۔
سیمانچل کا تیسرا سب سے بڑا مسئلہ طبی خدمات کی عدم دستیابی ہے۔ علاقہ میں لوگوں کو طبی خدمات میسر نہیں ہیں۔ بے روزگاری بھی اس علاقہ کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ روزی روٹی کیلئے مجبوراً آج کی نوجوان نسل تعلیم سے کنارہ کشی اختیارکرکے سیکڑوں میل دوردہلی ،ممبئی ،پنجاب اورکلکتہ وغیرہ شہروں کی خاک چھان رہی ہے۔
شایدیہی وجہ ہے کہ سیمانچل کے مسائل پر آج قومی راجدھانی دہلی میں بحث ہورہی ہے کیونکہ ہمارے نمائندے کوسیمانچل میں ڈھونڈنامشکل ساکام ہوگیاہے۔سوال یہ نہیں ہے کہ بحث کہاں ہورہی ہے سوال یہ ہے کہ کس موضوع پربحث ہورہی ہے اوراس کا حل کیاہے۔سوال یہ بھی ہے کہ اتنے دن گزرجانے کے بعدبھی سیمانچل کواس کا حق کیوں نہیں مل رہاہے اوراس کی ترقی ،خوشحالی کیلئے جامع کوشش کیوں نہیں کی جارہی ہے ۔
کانفرنس کی اس آوازکوسیمانچل کی آوازکے طورپرسیمانچل کی گلیوں میں پہچائیں اوراپنے نمائندوں کواس علاقے کے مسائل سے روبروکراکراس کے حل کے لئے پرامن تحریک چلائیں تاکہ علاقہ کی آنے والی نسل خوشحال اورامن پسند ہواورترقی کرکے علاقہ کوہندوستان کے نقشے پر چمکاسکے۔
ایک اوراہم مسئلہ دہلی میں کام کرنے والے مزدوروں اورپرائیویٹ سیکٹرمیں نوکری کرنے والوں کے حوالے سے ہے۔وہ یہ ہے کہ پورے بہارخصوصاً سیمانچل کے علاقہ سے کثیرتعدادمیں لوگ روزی روٹی کی تلاش میں دہلی اورآس پاس کے علاقوں میں آتے ہیں ،ان لوگوں کا بڑے پیمانے پراستحصال کیاجاتاہے ۔مہنگائی کے دورمیں بھی ان کو یومیہ مزدوری بہت کم دی جاتی ہے۔ سرمایہ کار،فیکٹری ودیگرکارخانوں کے زیادہ ترمالکان وقت پران کو مزدوری نہیں دیتے ۔اگردیتے بھی ہیں توقسط واردیتے ہیں ۔یہ کام کرنے والے اپنی مزدوری کیلئے آوازبھی نہیں اٹھاسکتے ہیں کیوں کہ یہ لوگ غریب اورکمزورہیں باتیں توکارپوریٹ ،سرمایہ کاروں کی سنیں جاتی ہیں چاہے لیبرکورٹ ہویاپولس اسٹیشن۔ہرجگہ یہی صورت حال ہے۔
سیمانچل کے مسائل اوران کا حل کے موضوع پرعوامی نمائندوں کے مابین سیمانچل میڈیامنچ نے گذشتہ دنوں 19مارچ 2017کونئی دہلی کے ابوالفضل انکلیومیں واقع ہوٹل ریورویوکے گولڈن ہال ایک کانفرنس کا انعقادکیا۔اس پروگرام میں مولانااسرارالحق قاسمی رکن پارلیمنٹ(کشن گنج)نے اپناپیغام بھیجا۔اس پیغام میں انہوں نے منچ کی حمایت کرتے ہوئے نیپال سے بات کرنے کیلئے بہارکے سیلاب متاثرہ علاقوں کے 17ایم پی کا ڈیلی گیشن تیارکرنے کی بات کہی۔ممبرپارلیمنٹ پپویادوجی پروگرام میں شریک ہوئے اور اپنی حمایت کا یقین دلایا،لیکن اصل مسئلے کوصرف یہ کہہ کرٹال گئے کہ فنڈ کا diversionہوجاتاہے اوربیچ کے افسران ساری رقم کھاجاتے ہیں۔
سیمانچل میڈیامنچ نے مطالبہ کیاکہ دوسری ریاستوں کی طرح دہلی میں بھی سیمانچل بھون کا قیام عمل میں لایا جائے ۔خواہ اس کا قیام سینٹرل گورنمنٹ فنڈ سے ہویا ایم پی فنڈسے۔ دہلی میں سیمانچل بھون کا قیام عمل میں لانے کا مقصدہے کہ علاقے کے عوامی نمائندوں کو ایک چھت کے نیچے لا کر مختلف مسائل کے تدارک کے لئے آپسی صلاح و مشورہ ہو سکے جس میں ماہرین اور میڈیا کارکن بھی شامل ہوں اور بہتر نتائج حاصل ہو سکیں ۔سیمانچل بھون کے قیام کامطالبہ اس لئے ہے کہ یہ قومی راجدھانی میں پڑھائی لکھائی کرنے والے طلباوطالبات یانوکری ومزدوری کرنے والے لوگوں کے لئے ایک پناہ گاہ بن سکے۔ دہلی میں مقیم افراد درپیش مسائل کے ازالہ کیلئے یہاں آسکیں نیزیہ علاج ومعالجہ کی غرض سے آنے والوں کیلئے بھی یہ ایک مستقر وپناہ گاہ ہوسکے۔بہرکیف عوامی نمائندوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے یہ بہارکازرخیزخطہ پسماندگی میں پھنساہواہے۔ضرورت سرکاری اورعوامی سطح پرنوٹس میں لانے کی۔
سیمانچل میڈیامنچ قلم سے لیکرقافلہ اورقافلہ سے لیکرکارواں تک جاری رکھے گا اورسڑک سے پارلیمنٹ تک اپنی عوام کی آوازبنے گا۔ہم لوگ جو یہاں کانفرنس میں اکٹھاہیں یہ ہماری پرامن تحریک کا ایک آغازہے ۔اگرہماری باتیں نہیں سنی جائیں گی توہم لوگ جاٹوں کی طرح سڑکوں پراتریں گے۔جاٹوں میں توایک ہی کمیونٹی کے لوگ ہیں ۔سیمانچل میڈیا منچ کے بینرتلے ہردبے کچلے برادری کے لوگ ایک صف میں کھڑے ہیں چاہے ہندو ہو یا مسلم۔ہمیں صرف مسلمانوں کی ترقی نہیں بلکہ علاقے کے تمام طبقوں کی ترقی چاہئے۔
9810863428
rashid110002@gmail.com