شام پر امریکی حملہ سے تلملایا روس

عزیر احمد

تین دن پہلے ملک شام کے خان شیخون علاقے پہ ظالم بشار الاسد نے کیمیائی ہتھیاروں سے حملہ کیا، تقریباً اسی لوگ مارے گئے، جو تصویریں سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئیں وہ نہایت ہی دلدوز اور دلخراش تھیں، کفن میں لپٹے ہوئے باپ کی آغوش میں دو معصوم، انسانیت دیکھتے ہی اپنی موت آپ مرگئی، ہر درد مند شخص تڑپ اٹھا، ہر آنکھ جل اٹھی، چاروں طرف سے عالمی برادری کی خاموشی پہ سوال اٹھنے لگے، اقوام متحدہ کے سارے نارمس اینڈ ریگولیشن ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے، عالمی اخباروں نے کاروائی کی مانگ کی، اس سے پہلے ۲۰۱۳ میں بھی یہ ظلم بشار الاسد کرچکا تھا، پھر عالمی برادری کے دباؤ کی وجہ سے اسے اپنے کیمائی ہتھیاروں کا ذخیرہ تباہ کرنا پڑا تھا، ایک بار پھر اس نے کیمیائی ہتھیاروں کا حملہ کیا، پوری عالمی برادری سے مانگ اٹھنے لگی کہ امریکہ اس پہ سخت ایکشن لے، اس پہ خاموشی عالمی امن کے لئے مہلک ثابت ہوسکتی ہے، مگر کسی کو امید نہیں تھی کہ نو منتخب صدر اس پہ ایکشن لے گا کیونکہ وہ بہت پہلے اس بات کا حامی ہے کہ امریکہ کی انرجی امریکہ کے لئے بچا کے رکھنی چاہیئے اور دور دراز کے علاقوں میں اسے Intervention سے بچنا چاہیئے، خود اس کا 2013 کا ایک ٹویٹ ہے جب بشار نے کیمیائی حملہ کیا تھا، “President Obama, Don’t attack Syria”. ( صدر اوبامہ سیریا پہ حملہ مت کیجئے )
اور پھر جب الیکشن کے لئے کمپین کررہا تھا، تو زیادہ زور اسی بات پہ دیا کہ Regime change سے زیادہ اہم اسلامک اسٹیٹ کو ہرانا ہے، بشار الاسد مسئلہ نہیں بلکہ مسئلہ دہشت گرد تنظیمیں ہیں، مگر بشار کے کیمیائی حملے کے بعد اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر ایکشن لے کر کے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ امریکہ کی Non-Intervention Policy تبدیل ہورہی ہے، اب جہاں ضرورت ہوگی وہاں طاقت کا ضرور استعمال کیا جائے گا۔
شام کے مسئلے کو الجھانے میں سب سے بڑا ہاتھ خود امریکہ کا رہا ہے، سابق صدر براک اوبامہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور دنیا کو سب سے بڑے امیگریشن کرائسس سے دوچار ہونا پڑا، امریکہ، ایران اور روس تینوں نے مل کے شام میں اپنے اپنے مفادات کی کھیل کھیلی، ایران اور روس بشار الاسد کے حامی، امریکہ مخالف، مگر ایک کمزور مخالف، جس نے ایران اور روس کے بھرپور موقع دیا کہ وہ دہشت گردی کے نام پہ جتنی چاہیں دہشت گردی پھیلائیں، ان دونوں نے اسلامک اسٹیٹ کو مارنے کے بہانے سویلین اور عام شہریوں کا قتل عام کیا، پھول سے بچوں کو مسل دیا اور نجانے کتنی عصمتوں کو تار تار کردیا، سقوطِ حلب کا واقعہ ابھی ذہنوں میں تازہ ہے، وہ شامی بندے کے ٹوئیٹ کی ایک ایک بات یاد ہے کہ ” گلیوں میں ہمارے بہنوں کے چیخوں کی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، اور ہم ان کی ذرا بھی مدد نہیں کر پارہے” ۔
اس بار کے حملے کے فوراً بعد ڈونالڈ ٹرمپ نے جو ایکشن لیا، جہاں اسے ایک طرف عالمی برادری نے سراہا، وہیں دوسری طرف روس نے اسے عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اسے سیریا کے خلاف Act of agression قرار دیا، وہیں دوسری طرف ایرانی وزیر خارجہ مسٹر جواد ظریف نے اسے بوگس الزامات (کیمیکل حملہ) پہ مبنی عمل قرار دیا. اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، ابھی کچھ کہنا مشکل ہورہا ہے، سرد جنگ کے بعد یہ شاید دوسرا موقع ہے جب دو سپر پاورز ایک دوسرے کے مد مقابل نظر آرہے ہیں، اگر شام کے مل بیٹھ کے نہ حل کیا گیا تو خطرناک نتائج دنیا ک دیکھنے پڑ سکتے ہیں، کیونکہ شام کے مسئلے میں بھی اسی ٹائپ کا بلاک بن رہا ہے، جو پہلی جنگ عظیم اور دسری جنگ عظیم میں بنا تھا. دوسری جنگ عظیم میں جرمنی، اٹلی اور جاپان ایک طرف تھے، تو دوسری طرف برطانیہ، فرانس، روس اور دیگر چھوٹے چھوٹے ممالک تھے، پھر بعد میں امریکہ نے بھی جنگ کو جوائن کیا تھا، یوں پوری دنیا کو اس کے شعلوں نے لپیٹ لیا تھا، اور جنگ کے اثرات پوری دنیا نے محسوس کئے تھے … اس بار بھی کچھ ایسا ہی بلاک بنتا نظر آیا ہے، شام کے مسئلے میں روس، چین اور ایران ایک طرف ہیں، تو دوسری طرف امریکہ، ترکی اور سعودیہ ہیں اور بہت سارے یوروپی ممالک امریکہ کا سپورٹ کررہے ہیں، جن میں جرمنی، فرانس، برطانیہ وغیرہ قابل ذکر ہیں، روس اور امریکہ ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑے ہیں، تھوڑی سی بھی چنگاری آگ کو بڑھکا سکتی ہے، صڈر ٹرمپ کا حملہ ایک خطرناک رسک کی طرف اشارہ کررہا ہے، اگر روس ضد پہ اڑ گیا اور امریکہ کے مد مقابل آ کھڑا ہوا تو صورت حال نازک ہوسکتی ہے، فی الحال ہمارے پاس انتظار کے سوا کھ نہیں …!