اس گھر کو آگ لگ گئی گھرکے چراغ سے ۔۔۔ اوقاف کی تباہی کے راست ذمہ دار مسلمان خود ہی ہیں

حکیم نازش احتشام اعظمی
اس وقت حکومت ہند مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی فلاح بہبود سے متعلق کن کن منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہی ہے اور اس سے آنے والے وقت میں اقلیتوں خاص طور مسلمانوں کی علمی و اقتصادی پسماندگی کا کس قدر ازالہ ممکن ہوسکے گا یہ جاننا ہمارے لئے انتہائی ضرور ی ہے۔اسی کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ وہ کون کون سی املاک ملک میں موجود ہیں جنہیں مسلم نوابوں ،جاگیرداروں ،بڑے کار وباریوں اور زمینداروں نے مستقبل کے خدشات کا ادراک کرتے ہوئے رفاہ عامہ کیلئے وقف کئے تھے۔یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ ہندوستان میں اس وقت وزارت ریلویز کے بعد صرف اوقاف ہی ایسا ادارہ ہے جس کے پاس ملک بھرکے شہروں اور دیہاتوں میں سب سے زیادہ زمینیں اور عمارتیں ہیں۔بیشتر مسلم ماہرین اقتصادیات اور سپریم کورٹ کے کئی مسلم وکلاء بارہا اس بات کو دوہراتے رہے ہیں کہ اگر ایمانداری کیساتھ اوقاف ملنے والی آمدنی کو مسلمان بچوں کی تعلیم و ترقی اور تربیت پر خرچ کیاجائے تو مسلمانوں کے اندر انقلابی ترقی کے علاوہ قابل رشک حد تک ان کی تعلیمی پسماندگی کو بھی دور کیا جاسکتا ہے۔ گزشتہ13مارچ 2016کو جب اوکھلا کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان کو دہلی وقف بورڈ کا چیئر مین بنایا گیا تھا اسی زمانے میں چارج لیتے ہی انہوں نے وقف املاک کے تحفظ کیلئے متعدد قدم اٹھانے کے عہد کئے تھے۔انہوں نے میڈیا سے یہ بھی کہا تھا کہ وقف بورڈ کی املاک کو ترقی دیکراس کی آمدنی میں اضافہ کیا جائے گا اور اس رقم سے غریب اور پسماندہ مسلم طلبہ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں مدد فراہم کرائی جائے گی۔اس عہد میں یہ منصوبہ بھی شامل تھا کہ وقف املاک کی آمدنی سے دارالحکومت دہلی اعلیٰ درجہ سول سروسز کوچنگ سینٹر بھی قائم کیا جائے گا،جس سے اس اہم امتحانات میں شامل ہونے کیلئے مسلم بچوں کو اعلی معیار کی کوچنگ فراہم کرائی جائے گی۔مگر ہماری بدقسمتی وہ منصوبہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا اور وقف املاک کی آمدنی کے ذریعہ مسلمانوں کی فلاح کے منصوبے کو دہلی کے سابق مسلمان ایل جی نجیب جنگ کی نظر لگ گئی۔بعد ازاں ایسے ایل جی ہاؤس سے کچھ ایسے فرمودات جاری کئے گئے کہ دہلی وقف بورڈ کے چیئرمین کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ گئی ۔اس مثبت قدم کو اس لئے بھی پابند سلاسل کردیا گیا کہ بورڈ کے اندر موجود اہم عہدیداروں اور افسران اس اسکیم میں قوم کے ذریعہ وقف کی گئی املاک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے اور کھسوٹنے کا موقع ہاتھ سے جاتا ہوامحسوس ہونے لگا تھا۔چنانچہ نووارد چیئرمین پر کئی قسم کے سطحی الزامات عائد کردیے گئے اور مرکزی حکومت کو خوش رکھنے کی پالیسی پر عمل پیرا سابق ایل جی نجیب جنگ نے تنازعات کو حل کرنے کی بجائے اورزیادہ پیچیدہ بنادیا۔نتیجہ کار دہلی وقف بورڈکے چیئرمین امانت اللہ خان کو استعفیٰ دینا پڑ گیا۔اب یہ فیصلہ کرنا قارئین کرام اور عام مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کی تعلیم اور ترقی منصوبے کو پیروں تلے روندنے کا گنہ گار کسے قرار دیا جائے۔آپ ان نامساعد واقعات سے جوبھی نتیجہ اخذ کریں،اس کیلئے آپ آزاد ہیں۔مگر میری ناقص سمجھ کے مطابق اس منصوبہ کی ناکامی کے اصل گنہ گار خود وقف بورڈ سے وابستہ افسران اور سابق مسلمان ایل جی نجیب جنگ ہیں۔یہ کہنا حق بجانب ہے کہ اس اہم منصوبہ کو سبوتاژ کرنے کے راست ذمہ دار مسلمان ہی ہیں۔’’یعنی اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے‘‘۔ اسی درمیان عدالت ایک پٹیشن داخل کی گئی تھی جس میں باوقار عدالت سے وقف املاک کوناجائز قبضوں سے نجات دلاکر اسے تعلیمی و اقتصادی طور پر حاشیہ پر پہنچ چکے مسلم طبقہ کی ترقی کیلئے استعمال میں لانے کو یقینی بنانے کی فریاد بھی کی گئی تھی۔ابھی ہندوستانی مسلمان اوقاف کے تحفظ اوراس کی آمدنی میں اضافہ کیلئے خاکے مرتب ہی کررہے تھے کہ ماہ ستمبر 2016میں نوٹ منسوخی کے دوران وزیر اعظم نریندر مودی نے اعلان فرمادیا کہ اس منصوبہ کی تکمیل کے بعد حکومت ہند انیمی پراپرٹی پر قبضے کرے گی اوراسے بیچ کر سرکاری خزانے میں اضافہ کیا جائے گا۔چناں چہ مسلم دانشوروں نے اسی زمانے میں یہ تشویش ظاہر کردی تھی کہ کہیں انیمی پرا پرٹی کے بہانے حکومت ہند مسلمانوں کے اوقاف پر قبضہ جمانے کی سازش تو نہیں کررہی ہے۔یہ اندیشہ بڑی حدتک درست بھی ثابت ہوا ہے ،اس لئے کہ اسی سال حکومت نے جابرانہ طریقے انیمی پراپرٹی ترمیمی بل منظور کرلیاہے۔جس شامل کی گئی شقوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ ترمیمی بل کے تحت حکومت انیمی پراپرٹی کے بہانے اوقاف کی املاک اوراراضیات پر قبضہ کرنے کی مجاز ہوگی۔
ماہرین قانون کی اجمالی رائے ہے کہ’’نیا اینمی پراپرٹی ایکٹ نہ صرف کالا قانون ہے بلکہ یہ ہندوستانی قوانین کی تاریخ میں فرقہ وارانہ تعصب پر مبنی قانون بھی ہے۔ مسلمانان ہند کیلئے یہ اوقاف محض زمین کے ٹکڑے ہی نہیں ہیں، بلکہ اس میں ایسے خاندانوں کی باقیات اور یادگار ہیں جو پہلے ہی تقسیم وطن کی کافی مار جھیل چکے ہیں۔ اب ایسے وقت میں جبکہ موجودہ حکومت مذہب کے نام پر مبینہ پناہ گزینوں کے لئے ملک کا دروازہ کھول رہی ہے، یہ ستم ظریفی ہی ہے کہ یہ اپنے ہی شہریوں کے لئے اقلیتی دشمنی میں اس کی ترقی کے راستے بند کررہی ہے۔ اس ترمیمی ایکٹ کی وہ شق سخت قابل تشویش ہے جو متاثرہ افراد کو قانون کی رسائی سے محروم کرنے کی سازش پر مبنی ہے ‘‘۔
واضح رہے کہ دہلی میں وقف کی جائدادوں کو پر لوگوں نے قبضہ جمایا ہوا ہے جب وقف کی جائداد سپریم کورٹ کے مطابق وقف ہی کی رہتی ہے لیکن ان ناجائز قبضوں کو خالی کرانے کا حکم آنے کے بعد بھی اسے خالی نہ کرانا افسوسناک ہے۔وقف قانون اسلام کی اہم اصطلاح ہے۔ اس کے لفظی معنی قیام یا رکنے کے ہیں۔ جسے انگریزی میں Detentionیا Tying up کہا جاتا ہے۔ کسی بھی شئے کو خدا کی ذات میں دے دینا اور اس سے حاصل ہونے والی منفعت کو دوسروں پر مذہبی، خیراتی و نیکی کے اغراض و مقاصد کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دے دینے کا نام وقف ہے۔ مگر یہ بات یاد رہے کہ نیکی کے ساتھ دے دینا یا صدقہ کرنا نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں ہمیشہ ہمیشہ کے استفادہ کی ضروری شرط ہے۔ جبکہ صدقہ کو وقف نہیں کہہ سکتے۔ کیونکہ صدقہ میں نفس جائیداد Corups استعمال کرنے کے بعد ختم ہوجاتا ہے۔ لیکن وقف میں وقف جائیداد کو خرچ نہیں کیا جاتا۔ بلکہ اس سے ہونے والی آمدنی کو خرچ کیا جاتا ہے۔ اس لیے صدقہ محض عطیہ ہے۔ جبکہ وقف Endoment ہے۔ وقف کرنے کا عمل صدقہ کی صورت میں وہ شخص جسے صدقہ دیا جاتا ہے وہ محض منفعت کا ہی حقدار نہیں ہوتا، بلکہ اسے ملکیت بھی حاصل ہوجاتی ہے۔ جبکہ وقف کی صورت یہ ہے کہ جائیداد یا شئے واقف سے منتقل ہوکر خدا کی ذات میں ضم ہوجاتی ہے۔ اس طرح کبھی ہبہ اور وقف دونوں ایک دوسرے کے مترادف سمجھے جاتے ہیں ،جبکہ یہ دونوں اصطلاح الگ الگ ہے۔ ہبہ کی صورت میں ہبہ دار (Donee) محض منفعت کا حقدار ہی نہیں مانا جاتا بلکہ مالک ہوتا ہے۔ جبکہ وقف کی صورت میں جائیداد یا شئے واقف کی ملکیت سے نکل کر خدا کی ملکیت بن جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ہبہ اور وقف دونوں میں یہ فرق ہے کہ ہبہ میں کبھی واقف کا حق نہیں ہوتا۔ جبکہ وقف خدا کے حق میں ہوتا ہے۔ ہبہ میں کوئی شرط و غرض محدود نہیں ہوتی۔ جبکہ وقف انسانوں کے فائدے کے لیے ہوتا ہے۔
حکومت ہند کے حالیہ بل پر رد عمل ہندوستان کی مسلم تنظیموں، اداروں اور شخصیات کے وفاق آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد کا ہے جو انہوں نے10 مارچ کو پارلیمنٹ کے ذریعے پاس کردہ اینمی پراپرٹی (امنڈمنٹ اینڈ ویلی ڈیشن ) بل 2016 کے تعلق سے ابھی حال میں کیاہے۔ صدر مشاورت کے اس سخت رد عمل سے کوئی پورے طور پر اتفاق کرے یا نہ کرے ،لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس نئے قانون نے متعدد سازوں کو چھیڑ دیاہے اور اس کی لپیٹ میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ متعدد وہ غیر مسلم ہندوستانی شہری بھی آگئے ہیں جنہوں نے ان اینمی پراپرٹیز کو بعد میں خرید لیا تھا۔