ہندوستانی محدثین پر مقالہ نویسی کے مسابقہ کا انعقاد تاریخی قدم،تمام شرکاءخصوصی انعامات سے سرفراز

مظفر پور(ملت ٹائمز۔عبدالخالق القاسمی )
مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے زیر اہتمام گذشتہ دنوں دربھنگہ بعد نماز مغرب ایک عظیم الشان تقسیم انعامات اور توصیفی اسناد جلسہ کا انعقاد،حضرت مولانا قاسم صاحب مظفرپوری قاضی شریعت دارالقضاءامارت شرعیہ پٹنہ کی صدارت میں کیا گیا،جس میں پورے ہندوستان گجرات، دہلی،لکھنو ،اعظم گڑھ کے علماءکے علاوہ صوبائی علماءکرام سمیت مقامی سماجی و ملی قائدین نے شرکت کی،مدرسہ طیبہ کے ایک طالب علم عزیری عبدالتواب کی تلاوت سے باضابطہ اس روح پرور مجلس کا آغاز ہوا نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نعت پاک کا گلدستہ عزیزی عادل کریم نے پیش کیا،حافظ منت اللہ رحمانی نے تمام شرکاءخصوصا موقر علماءکرام ومقالہ نویس ائمہ مساجد وذمہ داران مدارس اساتذہ کرام کے علاوہ مقامی علمائکرام اور سماجی کارکنان کا دل کی گہرائیوں سے استقبال کیا اور ان کی خدمت میں ہدیہ تبریک و خوش آمدید پیش کیا،مولانا رحمت اللہ ندوی نے اپنے افتتاحی کلمات میں بڑی خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج سے دو سال قبل بر صغیر ہندوستان میں حدیث شریف کی خدمات اور اس کی نشرو اشاعت کے تعلق سے جس عظیم تحقیقی مقالہ نویس کے مقابلے کا اعلان کیا گیا تھا،آج اس عظیم عملی تحقیقی مقابلے کے نتائج کا اعلان کیا جائےگا اور فاتحین کو بیش قیمت انعامات اور توصیفی اسناد سے نوازا جائے گا،انہوں نے اللہ تبارک وتعالی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آج کی تاریخ بھروارہ ضلع دربھنگہ کے لئے ایک سنہرے باب کی حیثیت کی ہے،اس مقابلے کا سہرا دراصل سعادہ الشیخ خالد بن محمد بن غانم بن علی ال ثانی دوحہ قطر کے سرجاتا ہے،جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں کے ذریعہ اس عظیم علمی کارنامے کو انجام دیا، اور ہندوستان میں علم حدیث شریف کی خدمات،اور ہندوستانی محد ثین کرام کی مبارک زندگیوں کے حالات پر مشتمل مختلف علمائ کے مقالات اور بحوث کو تیار کرنے کا موقع فراہم کیا،کل مقالات کی تعداد آٹھ ہیں جن میں سے چار مقالات انعامات کے مستحق قرار پائے دیگر چار مقالات نویس کو تشجیعی انعامات سے نوازے جائنگے،
اس موقع پر مولانا قاسم مظفرپوری قاضی شریعت دارالقضاءامارت شرعیہ پٹنہ نے اپنے کلیدی خطاب میں فرمایا کہ،آج دنیا کے تمام میدانوں میں تقابل و تسابق کا نظام چل پڑا ہے،تقابل تسابق وہ اوصاف ہیں جن کے بل بوتے انسان اعلی مراتب اور سنہری کامیابیاں حاصل کرتا ہے،مسابقہ طلبہ کے خوابیدہ صلاحیتوں کو کو اجاگر کرکے طلبہ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کرتا ہے،انہوں نے مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مسابقہ ان کی کاوشوں سے گذشتہ تین برسوں سے بہار کی سرزمیں پر منعقد کیا جارہا ہے،اور آئندہ بھی اس کا سلسلہ جاری رہے گا،حضرت نے شرکاءسے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں ایسے ایسے اکابرین موجود ہیں جو دینی خدمات انجام دے رہے ہیں جو ہم سب کے لئے نمونہ ہے،ہندوستان میں جو محدثین کی جو سند کے اعتبار سے خدمات ہیں وہ قابل رشک ہے،انہوں نے نوجوان فضلاء کو متوجہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کے علما کا علوم نبوت سے خاص تعلق ہے ،چونکہ حضرت آدم ہندوستان میں تشریف لائے تھے،نوجوان فضلاءکو علمی تحقیقی کام سے جڑ کر علم حدیث اور علم نبوت کے کام کو مزید برھانا چاہیے،
مولانا عبدالقادر شمس سب ایڈیٹر روزنامہ سہارا دہلی نے اپنے تاثراتی کلمات میں مولانا رحمت ندوی کو مبارکبادی دیتے ہوئے کہا کہ مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کی دلی خواہش تھی کے قطر میں السعادہ الشیخ خالد بن محمد بن غانم بن علی آل ثانی دوحہ قطر کے زیر اہتمام ہونے والا مسابقہ القرآن والحدیث کا انعقاد سرزمین ہندوستان پر بھی ہو،اور الحمداللہ یہ تمنا اللہ تبارک وتعالی نے پوری کردی،اور یہ سلسلہ ہندوستان کے صوبہ بہار کے مختلف جگہوں انعقاد کیا جاتا رہا ہے،مگر اس سال مسابقہ کو موقوف کرکے وہ مقالہ نویس جنہوں نے اپنی ،علمی،قلمی،محنت سے مقالہ لکھاتھا ان کو اعزاز سے نوازا جائے گا انہوں نے خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،اتنے بڑے پیمانہ پر مسابقہ القرآن والحدیث کا انعقاد ہندوستان کی سرزمیں صوبہ بہار پر کبھی بلند نہ ہوئی،یہ مولانا رحمت اللہ ندوی کا قرآن و حدیث کے تعلق سے ایسا تجدیدی کارنامہ ہے جسے دنیا فراموش نہیں کرسکتی،اور بے لاگ دیانتدار تذکرہ نگار قلم کار کبھی نظر انداز نہیں کرسکتا،
مولانا صفی الرحمن القاسمی صدر مدرس مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ نے اپنے تاثراتی کلمات میں خوشی و مسرت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ جن مقالہ نویس نے اپنی محنت اور لگن سے مقالہ لکھا اور تحقیقی کام کیا وہ قابل مبارکباد ہیں،انہوں نے مزید فرمایا کہ ہمارے اندر جو کمی کوتاہی رہی اس کی تلافی کے لئے ہم سب محنت کریں،اور امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا رحمت اللہ صاحب کی جو کوشش ہے ان کے ہم شکر گزار ہیں،کہ انہوں نے مسابقہ القرآن کے ذریعہ سرزمین ہندوستان کو زینت بخشی ،مولانا رحمت اللہ ندوی نے ہندوستان کے علماءکے اندر علمی تحقیقی کام کرنے کا جو جذبہ پیدا کیا ہے وہ قابل تعریف ہے
قاری شبیر احمد القاسمی نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ،دور حاضر میں علمی کاموں سے ہماری بے اعتنائی بڑھتی جارہی ہے،علم دین کا جو کام ہمارے علماء نے اعلی پیمانے پر کیا ہے وہ قابل احترام ہے،مگر افسوس کے موجودہ وقت میں ہمارے نوجوان فضلاءکی علم دین سے دوریاں ہو رہی ہے،ہمارے اکابرین نے کسی میدان میں غفلت سے کام نہیں لیا،وہی قوم ترقی کرتی ہے جو علماءکی تاریخ کو یاد رکھتی ہے،مقالہ نویس مولانا فیصل ندوی استاذ ندوہ العلماءلکھنوءنے پنے تاثرات میں کہا کہ حدیث کی تحقیق و تخریج کے تعلق سے مولانا رحمت اللہ ندوی صاحب کا یہ اقدام قابل مستحسن ہے کہ انہوں نے ہندوستانی محدثین کرام کی مبارک زندگیوں کے حالات پر مقالات تیار کرنے کا موقع فراہم کیا،انہوں نے اپنے گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حدیث کو مانے بغیر انسان مسلمان ہو ہی نہیں سکتا،حدیث کو ہم وہی حیثیت دیں جو حدیث کی حیثیت ہے،حدیث و قرآن کا مطالعہ بھی ہمیں گہرائی سے کرنی چاہیے
مولانا زاھد ندوی استاذ جامعہ مظہر السعادہ ہانسوٹ گجرات نے اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مولانا رحمت اللہ ندوی مبارکبادی کے مستحق ہیں،کہ انہوں نے ہمارے اس ملک میں اس طرح کے پروگرام کا قیام عمل میں لایا،اور نوجوان علماء کے لئے جو موضوع منتخب کیا گیا وہ کافی دلچسپ تھا،مولانا اجمل ابوالکلام دہلی نے اظہار تاثر میں کہا کہ اس مقالہ نویسی سے ہندوستان کے جو مشاہیر علمائ کرام ہیں ان کے پڑھنے کا موقع ملا یقینا ان حقائق کے پیچھے مولانا رحمت اللہ ندوی کا ایک اہم رول ہے جن کے ہم بے حد ممنون و مشکور ہیں،مولانا مسعود صاحب مدرسہ مرقات العلوم مﺅ نے اپنے کلمات تاثر میں مدارس کے اساتذہ و ذمہ داران کو متوجہ کرتے ہوئے فرمایا کہ،جس طریقہ سے مدارس اسلامیہ میں تقریرو تدریس پر توجہ دی جاتی ہے اسی طرح تصنیف و تالیف تحقیق و تخریج پر بھی توجہ دیجانی چاہیے،مزید کہا کہ عربوں نے جو روایت اور اسناد کو زندہ رکھا ہے وہ قابل رشک ہے،یہاں کے لوگ آرام پرست ہیں ،جن لوگوں نے مقالہ لکھا ہے وہ قابل مبارکباد ہیں،اللہ مولانا قاسم صاحب مظفرپوری اور مولانا رحمت اللہ ندوی کا سایہ تادیر قائم رکھے تاکہ ہندوستان کی سرزمین پر علمی تحقیقی خدمات کا سلسلہ جاری رہے مقالہ نویس میں مولانا فیصل احمد ندوی استاذ ندوہ العلماءلکھنﺅ یوپی،جناب مولانا زاھد ندوی استاذ جامعہ مظہر السعادہ ہانسوٹ گجرات،مولانا عبدالرب صاحب استاذ جامعہ السعادہ ہانسوٹ گجرات،مولانا اجمل حسین ابوالکلام دہلی،مولانا مسعود احمد صاحب مدرسہ مرقات العلوم مﺅ،مولانا اسامہ عبدالزاق قاسمی استاذ دارالملت رام پور سگھری مظفرپور،عزیزی حذیفہ سلمان متعلم دارالعلوم دیوبند،طلحہ سلمان متعلم دارالعلوم دیوبند کے نام قابل ذکر ہیں،مذکورہ مقالہ نویس کو قیمتی انعامات اور توصیفی اسناد سے نوزا گیا مشترکہ طور پر دس لاکھ سے زیادہ نقد انعام کے ساتھ دیگر قیمتی چیزیں بھی دی گئیں.آخر میں مولانا تقی احمد القاسمی نے کلمات تشکر پیش کیا.اور آئے ہوئے تمام مہمانان کرام وطلبہ عزام کا دل کے ممکنہ گہرائی سے سپاس گزار ہوئے اس موقع پر مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی ایجوکیشنل ٹرسٹ کے سکریٹری حافظ ناظم رحمانی کے عزم و ارادے اور جہد مسلسل کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا تقی احمد القاسمی نے کہا کہ انہیں کی محنت و کاوش اور جہد مسلسل سے یہ پروگرام کامیابی سے ہمکنار ہوا طبیعت علیل ہونے کے باوجود ہمیشہ اس ٹرسٹ کے لئے اس کے زیر اہتمام ہونے پروگرام کے لئے متفکر رہتے ہیں اللہ ان کا سایہ ہم لوگوں پر تادیر قائم و دائم فرمائے ،مولانا قاسم صاحب مظفرپوری کی رقت آمیز اور دلسوز دعاپر مجلس کا اختتام عمل میں آیا.اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں ماسٹر جاوید صاحب قاری بلال صاحب مظاہری.مولانا اسرار صاحب.مظاہری،مولانا عبدالخالق القاسمی،مولانا مجاہدالاسلام القاسمی،مولانا عبیدالرحمن،ماسٹر شمیم صاحب،حافظ عمران حال مقیم دوحہ قطر،جناب انظار صاحب جناب افروز عالم کے علاوہ مدرسہ طیبہ اور اسلامیہ شکرپور بھروارہ دربھنگہ کے طلبہ استاذہ سمیت مقامی لوگوں کا اہم رول رہا۔

SHARE