عدالت سے باہرحل ناممکن،مسلم پرسنل لاء بورڈنے خواتین کووارثت میں حصہ دینے اورجہیزوفضول خرچی کی حوصلہ شکنی کی اپیل کی
ائمہ مساجد اورسوشل میڈیاکے ذریعہ نکاح وطلاق پرزمینی سطح تک بیداری مہم چلانے اورخواتین ونگ کومزیدمضبوط بنانے کافیصلہ
کروڑوں خواتین نے مذہبی امورمیں مداخلت کومستردکیا،بورڈکامسلم پرسنل لاء میں مداخلت سے بازرہنے کامشورہ
لکھنو(ملت ٹائمز)
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈکی دوروزہ عاملہ کی میٹنگ آج مکمل ہوئی ۔فیصلہ کی میڈیاکواطلاع دینے کی غرض سے اس نے پریس کانفرنس کی ساتھ ہی بابری مسجدمعاملہ پربھی اپناواضح موقف پیش کیا۔بورڈنے صرف عدالت سے ہی حل کوممکن بتاتے ہوئے عدالت سے باہربابری مسجدپرمذاکرات کومستردکیااورصرف سپریم کورٹ کافیصلہ منظورہونے کے اپنے موقف کااعادہ کیا۔ساتھ ہی بورڈنے جہیزاورشادیات میں فضول خرچی سے مسلمانوں کوبچنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہاکہ مسلمان اسراف کے بجائے نکاح کوآسان بنائیں اوربچیوں کووراثت میں حصہ دیں۔نکاح وطلاق کے معاملہ پرعوامی بیداری پیداکرنے اورنچلی سطح تک مہم کوپہونچانے کافیصلہ بھی کیاگیاجس میں ائمہ مساجدسے بھی مددلی جائے گی،مزیدخواتین ونگ کواورمتحرک اورسرگرم بنانے پربھی اتفاق رائے ہوا۔پریس کانفرنس سے جنرل سکریٹری بورڈمولانامحمدولی رحمانی،سکریٹری ظفریاب جیلانی،مولانایٰسین علی عثمانی بدایونی،مولاناخالدرشیدفرنگی محلی،ڈاکٹراسماء زہرااورکمال فاروقی نے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ کسی بھی طرح سے مسلم پرسنل لاء میں مداخلت برداشت نہیں ہوگی۔مسلم پرسنل لاء پرعمل آئینی حق ہے۔ہم تین طلاق کے مسئلے کو شریعت کے روشنی میں ہی دیکھیں گے۔طلاق کوجتنابڑھاچڑھا کر پیش کیا گیا ہے، کیس اتنا سنگین نہیں ہے۔جتنا بتایا جا رہا ہے اس کا10فیصدبھی نہیں ہے۔پھربھی ہم ہم سوشل میڈیاکازیادہ سے زیادہ استعمال کرکے اسلام اور شریعت کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمی دورکریں گے۔جن خواتین کے ساتھ تین طلاق میں ناانصافی ہوئی ہے، بورڈ ان کے لئے ہر ممکن مددکے لئے تیارہے۔بورڈنے صاف کیا کہ شرعی وجوہات کے بغیر تین طلاق دینے والوں کامسلم سماج میں سماجی بائیکاٹ کیاجائے گا۔بورڈ نے کہا کہ شریعت کے مطابق ہمیشہ نکاح کا رشتہ قائم رہے،لیکن میاں-بیوی میں جھگڑا ہونے پر ضابطہ اخلاق جاری ہو رہاہے۔اس کے ساتھ ہی مسلم پرسنل بورڈ نے کہا کہ مسلمان شادیوں میں فضول خرچی سے بچیں۔ماں باپ بیٹیوں کو جہیز دینے کی جگہ اپنی جائیداد میں حصہ دیں۔
پرسنل لاء بورڈ نے اس کے ساتھ ہی بابری مسجد کے مسئلے پراپناموقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے کومانیں گے۔ بابری مسجد قضیہ کے سلسلہ میں بورڈ عدالت سے اپیل کرتا ہے کہ وہ تیز رفتاری کے ساتھ مقدمہ کی سماعت کرے اور جلد سے جلد زمین کی حقیقت کے سلسلہ میں اپنا فیصلہ صادر کرے کیوں کہ پچھلے تجربات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کورٹ کے فیصلہ کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں ہے، اور بورڈ اپنے اس موقف پر قائم ہے کہ کورٹ کا جو فیصلہ ہوگا وہ ہمیں قبول ہوگا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جنرل سکریٹری مولانامحمدولی رحمانی نے کہاکہ مسلم پرسنل لاء بورڈنے کہاکہ ہم نے سروے کیا ہے کہ طلاق کو جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے، کیس اتنا سنگین نہیں ہے۔جتنا بتایا جا رہا ہے اس کا 10فیصدبھی نہیں ہے۔مسلم بورڈ کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرکے اسلام اور شریعت کے خلاف پھیلائی گئی غلط فہمی دورکی جائے گی۔ہم نے ملک میں سب سے بڑی دستخطی مہم چلائی ہے اور جو اعداد و شمار آئے ہیں،اس میں تقریباََ5کروڑ مسلمانوں نے شریعت کے ساتھ رہنے پر اپنی رضامندی دی ہے۔ بورڈ نے اپنے پچھلے اجلاس میں اپنا ۔مسلم ویمن ونگ۔ قائم کیا تھا، یہ شعبہ بہت بہتر طور پر خواتین کے درمیان کام کررہا ہے، مسلمان عورتیں بڑی تعداد میں اس سے جڑ رہی ہیں اور اس شعبہ کے ذریعہ خواتین کے درمیان سماج سدھار کی مہم شروع کی گئی ہے، امید ہے کہ مستقبل میں اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ شعبہ خواتین نے مسلمان عورتوں کی شرعی وقانونی مدد کے لیے Help Line بھی قائم کیے ہیں اور ہزاروں خواتین اس سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ بورڈ کوشش کرے گا کہ خواتین کے ذریعہ، خواتین کے درمیان اصلاح معاشرہ کے اس کام کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائے۔خواتین ونگ کی سربراہ ڈاکٹراسماء زہرانے کہاکہ اسلامی شریعت میں عورتوں کو جو عزت اور حقوق دئیے ہیں کسی مذہب اور قانون میں اس کی مثال نہیں ملتی، اس نے عورتوں کو مختلف حیثیتوں سے میراث میں حق دیا۔ نکاح کے معاملہ میں عورتوں کو بااختیار بنایا۔ اگر وہ رشتہ نکاح کو کسی وجہ سے ختم کرنا چاہتی ہیں تو دارالقضاء کے ذریعہ علیٰحدگی حاصل کرنے کی گنجائش فراہم کی، ذمہ داریاں مردوں پر زیادہ رکھی گئیں اور حقوق عورتوں کے زیادہ رکھے گئے۔ لیکن یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ ذرائع ابلاغ شریعت اسلامی کی سچی تصویر پیش نہیں کرتے۔ اور مسلمانوں کی شبیہ کو قصداً بگاڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس لیے یہ اجلاس پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو متوجہ کرتا ہے کہ غیرجانبداری اور سچ کی ترجمانی ان کی ذمہ داری ہے اور طرفدارانہ طور پر کسی مسئلہ کو پیش کرنا اور کسی طبقہ کو بدنام کرنا یہ ان کے پیشہ وارانہ مقام کے خلاف ہے، اس لیے انہیں چاہیے کہ وہ مسلمانوں کے موقف اور شریعت اسلامی کی منصفانہ تعلیم کو صحیح طور پر پیش کریں۔مسلم پرسنل لاء بورڈنے کہاکہ طلاق کے مسئلہ میں شریعت کا موقف واضح ہے کہ بے جا طلاق دینا اور ایک ساتھ تین طلاق دینادرست طریقہ نہیں ہے، شریعت نے اس سے منع کیا ہے اس لیے بورڈ ایک وسیع عوامی تحریک چلائے گا کہ بلاوجہ طلاق نہ دیاجائے اور ضرورت پڑجائے تو ایک سے زیادہ طلاق نہ دی جائے اس بات کو مسلمانوں کے تمام طبقات تک اوربالخصوص غریب آبادیوں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی اور مساجد کے ائمہ وخطباء سے خاص طور پر مدد لی جائے گی۔ اس مسئلہ پرگفتگو کرتے ہوئے بورڈ کی خاتون ارکان نے یہ بھی کہا کہ میڈیا تین طلاق کے مسئلہ کو بڑھا چڑھاکر پیش کر رہی ہے، حقیقت یہ ہے کہ مسلم سماج میں ایسے واقعات کا تناسب بہت ہی کم ہے۔اجلاس نے نکاح وطلاق کے سلسلہ میں شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے ایک ضابطہ برائے طلاق بھی جاری کیاہے، جس میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ میاں بیوی کے اختلاف کو باہمی گفتگوسے دورکرنا چاہیے، اگر آپسی طور پر معاملہ طے نہ ہو تو دونوں خاندان کے بزرگوں کو مل کر نزاع دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اگر مصالحتی تدبیر یں نتیجہ خیز نہ ہوں تب طلاق دینی چاہیے اور وہ بھی ایک طلاق، بورڈطریقۂ طلاق کے سلسلہ میں یہ ہدایت نامہ چھاپ کر زیادہ سے زیادہ مسلمان مرد وعورت تک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔ مسلم پرسنل لا کے جن مسائل کے بارے میں مسلمانوں اور غیرمسلم بھائیوں کے اندر غلط فہمی پائی جاتی ہے، ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے بورڈ نے تفہیم شریعت کا شعبہ قائم کیا ہے، جو قانون دانوں، دانشوروں اور صحافیوں کے پروگرام منعقد کرتا ہے اور انہیں احکام شریعت کی مصلحتوں سے آگاہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اجلاس نے طے کیا ہے کہ اس کام کو اور وسعت دی جائے اور سیمینار وسمپوزیم کے علاوہ سوشل میڈیا کا بھی اس مقصد کے لیے استعمال کیا جائے۔اور مجلس عاملہ نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ جو لوگ ایک ساتھ تین طلاق دے دیتے ہیں، جن سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، ایسے حضرات کا مسلمانوں کو بائیکاٹ کرنا چاہیے، یہ سماجی بائیکاٹ طلاق کی تعداد کو مزید کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔مسلم پرسنل لا کے سلسلہ میں گذشتہ دنوں بورڈ نے جو دستخطی مہم چلائی تھی، وہ بیحد کامیاب رہی، ۵؍کروڑ سے زیادہ مسلمانوں نے اس مہم میں حصہ لے کر واضح کردیا کہ قانون شریعت پر انہیں پورا اطمینان ہے اور کامن سول کوڈ انہیں قطعاً قبول نہیں ہے ۔ ان دستخط کرنے والوں میں پچاس فیصد سے زیادہ تعداد خواتین کی ہے۔ اور یہ تمام فارم لا کمیشن کے حوالہ کردئیے گئے ہیں۔