ہندوانتہا پسندوںکے بڑھتے حوصلوں کے سبب اقلیتی فرقہ میلہ سے غائب
میلہ کی رونقیں کافی پھیکی،منتظمین کے ماتھے پر فکر مندی کی لکیریں
دیوبند(ملت ٹائمزسمیر چودھری)
سرزمین دیوبند یوں تو پوری دنیا میں عظیم دینی دانش گاہ دارالعلوم دیوبند کے سبب اپنی علمی و فکری شناخت رکھتی ہے لیکن یہاں ایک طرف اکثریتی فرقہ کی عقیدتوں کا مرکز تری پور بالا سندری دیوی کامندر بھی ہے جو اکثریتی فرقہ کے مذہبی مقامات میں کافی اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ اس مندر کی مناسبت سے گزشتہ سینکڑوں سال سے یہاں ثقافتی میلہ کا انعقاد ہوتا آرہاہے جس کو ہمیشہ یہاں کے ہندو مسلم اتحاد کا علمبردار سمجھاجاتارہاہے لیکن گزشتہ کئی سالوں سے ہندوانتہائی پسند تنظیموں کے لوگ اس میلہ کو خالص مذہبی میلہ قرار دینے کی ضد پر اڑے ہیں اور اقلیتوں کے میلہ میں شامل ہونے سے کافی مشتعل رہتے ہیں، تیزی تبدیل ہوتے دور کا اثر کہا جائے یا اقلیتوں کو ہراساں کرنے کی دھمکی کیونکہ اس مرتبہ اقلیتی فرقہ اس میلہ سے غائب سا ہوگیاہے جس کے سبب اس سال میلہ کی رونقیں کافی پھیکی پڑگئی۔ نگر پالیکا پریشد دیوبند کے زیر اہتمام لگنے والے ہندو مسلم اتحاد کی مثال تاریخی میلہ کے افتتاح کے موقع پر ہمیشہ سرکاری افسران اور ذمہ د اران روایتی انداز میں سفید کبوتر اور غبارے ہوا میں اڑاکر امن پیغام ضرور دیتے ہیں اور اس میلہ کو دیوبند کے آپسی بھائی چارہ کی تاریخی علامت بھی قرار دیتے ہیں لیکن شدت پسندوںکے سبب یہ میلہ آہستہ آہستہ اپنی اہمیت گنواتا جارہاہے۔ ہرسال ہندی کلینڈر کے مطابق چیت کے مہینے میں شروع ہونے والا دیوبند کا یہ قدیم میلہ اس مرتبہ ابتدا سے ہی بد نظمی کا شکار ہے۔ یہ میلہ ماضی میں چمار چودس کے نام سے منسوب تھا ، روایات کے مطابق یہ واحد مندر تھا جہاں اعلیٰ ذات کے ہندو اور دلت ایک ساتھ پوجا کرتے تھے ۔ ابتدا میں یہ میلہ صرف تین روز کا ہوتا تھا جس کا نظم مندر کمیٹی کی جانب سے کیا جاتا تھا ۔ 1960ءکی دہائی میں جب اس میلہ کا نظم میونسپل بورڈ کے ہاتھ میں آیا تو اس کو ہندو مسلم یکجہتی سے بھی منسوب کیا جانے لگا ، جہاں اس کے انعقاد میں دنوں کا اضافہ کیا گیا وہیں اس میں ثقافتی و ادبی پروگرام بھی شامل کرلئے گئے ۔ جس میں آل انڈیا مشاعرہ ، کوی سمیلن ، قوالی ، بے بی شو اور دوسرے اسی طرح کے ثقافتی پروگرام ہیں ۔ دھیرے دھیرے مختلف عنوان سے منعقد ہونے والے پروگرام تنگ نظر ی اور فرقہ پرستی کا شکار ہونے لگے ۔ گزشتہ کئی سال سے ہندو تنظیمیں اس کو خالص مذہبی میلے کی شکل میں منعقد کرنے کی مانگ کررہے ہیں اور اس کے اثرات اب واضح طور پر نظر بھی آنے لگے ہیں کیونکہ میلہ اب نہ تو اس آب و تاب ساتھ منعقد ہورہا ہے اور نہ یہاں وہ رونقیں دکھائی دیتی ہیں، میلہ میں اس مرتبہ اقلیتی فرقہ کے مردو خواتین اور بچوں کی تعداد کافی کم نظر آرہی ہے ،جس سے میونسپل بورڈ کے ذمہ داران اور میلہ منتظمین کے ماتھے پر فکر مندی لکیریں صاف دیکھی جارہی ہیں اور یہ سوال پیدا ہونے لگا کہ مستقبل میں اس میلہ کاتاریخی وجود برقرار رہے گا بھی یا نہیں ؟۔ نگر پالیکا پریشد دےوبند کے زیر اہتمام منعقد ہونے والے تری پور بالا سندری مےلے مےںگزشتہ برس ہندوشدت پسند تنظیموں کے شرپسند عناصر نے کھلی وارننگ دےتے ہوئے کہا تھا کہ مےلے مےں مشاعرہ، قوالی کے پروگرام نہیں ہونے دےں گے۔ جس کے اثرات اس مرتبہ اس طرح دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ ایسے پروگرام کے شائقین ابھی تک میلہ سے پوری طرح غائب ہیں۔ان عناصر کی جانب سے مےلے مےں مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگےز بےان بازی اس مرتبہ اگرچہ نہیں ہوئی لیکن بی جے پی حکومت میں بڑھتے ہندو انتہائی پسندوں کے حوصلوں اور تکنیک کے سبب دیوبند کے اس تاریخی میلہ کاوجود خطرہ میں ضرور آگیاہے۔