مولانا آفتاب اظہر صدیقی
ملت ٹائمز
مسلمانوں کے درمیان اجتہادی اور فروعی اختلافات شروع سے ہیں؛ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرماجانے کے بعد سے ہی اسلام کے ماننے والوں میں نظریاتی اختلاف کا سلسلہ جاری ہوگیا؛ قرونِ خیر تک اس اختلاف کی نوعیت یہ تھی کہ ہر فریق اپنے نظریے کو فوقیت دیتا؛ لیکن دوسرے کے نظریے کو غلط نہیں کہتا بلکہ اس کا بھی احترام کرتا؛ بس اپنے نظریے کو افضل سمجھتا. اور یہ نظریاتی اختلاف ایسا نہ ہوتا تھا کہ ان کے ذاتی معاملات یا باہمی تعلقات اور محبت میں کمی پیدا کردے؛ بلکہ وہ سب آپس میں “رحماء بینھم” کی تصویر بنے رہتے. پھر جوں جوں وقت گزرتا گیا اور خیر کا زمانہ رخصت ہوتا رہا؛ اختلافات میں زیادتی کے ساتھ نوعیت میں تبدیلی آنے لگی؛ پھر فرقے وجود میں آئے، مختلف نظریات کی بنا پر مختلف مسالک بنے؛ لیکن ائمۂ اربعہ اور سلف و خلف تک بھی ان اختلافات نے شدت اختیار نہیں کی، ہر فریق دوسرے فریق کے نظریات کو اس کے دلائل کے مطابق درست مانتا رہا، اب اختلاف اس بات پر تھا کہ کس کے دلائل زیادہ مضبوط ہیں، ہر مسلک کے علماء اپنے دلائل کو قوی اور دوسروں کے دلائل کو کمزور دکھانے کے لئے قرآن و سنت کی تعلیمات میں جد و جہد سے کام لینے لگے، اسرار و رموز سے انکشاف، اصول و قواعد کی تعیین اور احادیث کی کھوج بین، راویوں پر جرح و تعدیل اور روایتوں کی درجہ بندی کے بعد علمی میدان جس قدر وسیع ہوتا گیا؛ شریعت کے مسائل اتنے ہی واضح ہوتے چلے گئے؛ لیکن ہر مسلک کا احترام ہر مسلک کے نزدیک ہنوز باقی رہا۔
پھر ایک دور وہ آیا کہ عقائد میں اختلاف ہوا اور ضروریاتِ دین کا انکار ہونے لگا تو علماء حق نے شدت سے ان کا رد کیا اور بہت سے طبقے اپنے باطل عقائد کی بنا پر دائرۂ اسلام سے خارج قرار دئے گئے. اب اختلاف کی نوعت دو قسموں پر منقسم ہوگئی، ایک اصولی اختلاف، دوسرے فروعی اختلاف۔اصولی اختلاف کا تقاضا تو یہی تھا کہ جنہوں نے قرآن و سنت کے واضح ترین دلائل کا حرف برابر بھی انکار کردیا اور ساری امت سے الگ اپنا نیا نظریہ قائم کیا؛ ان سے قطع تعلق کرلیا جائے؛ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔اس کے بعد بھی اہلِ حق کی وہی پہلی سی شناخت باقی رہی اور وہ نظریاتی و فروعی اختلاف کو خندہ پیشانی سے قبول کرتے رہے اور خود کو تعصب و عناد کی وبا سے پاک رکھا.
آقائے مدنی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئی کے مطابق امت فرقے فرقے ہونی تھی سو ہوئی، نئے نئے فرقے وجود میں آئے اور پھر اختلاف کی نوعیت رفتہ رفتہ اس درجہ خراب ہوتی چلی گئی کہ ہر فرقہ دوسرے کی تکفیر کرنے لگا؛ اختلاف کا حل قرآنی دلائل سے کرنے کے بجائے عقلی دلائل کا سہارا لینے لگے، دوسروں کے دلائل کو سنے بغیر ان پر فتوی لگانے لگے، بے دلیل باتوں میں پڑ کر دین میں اضافہ کرنے والے اہلِ حق سے بغض و کینہ رکھنے لگے، اعتقادی اعتبار سے جو کمزور طبقہ ہوا اس نے مضبوط عقائد کے حاملین پر جھوٹے الزامات لگادئے، ان کی طرف بہت سی بے بنیاد باتیں منسوب کرکے انہیں بدنام کرنا شروع کردیا غرض کہ امت میں زبردست انتشار پیدا ہوگیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی اتحادی قوت خاکستر ہوگئی.
اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ ایک مسلمان غیر مسلم کے ساتھ معاملات کر لیتا ہے لیکن دوسرے فرقے کے مسلمان سے دور بھاگتا ہے۔
فرقہ پرستانہ عداوت کی یہ آگ سب سے زیادہ ایشیا کے پاک و ہند اور بنگلہ دیش میں بھڑک رہی ہے جب یہ تینوں ملک ایک تھے اور انگریزوں کا اس پر قبضہ تھا تو انگریز حکومت نے اپنا تختہ پلٹتا دیکھ کر بہت سی سازشیں رچیں یہاں کے مسلمانوں میں فرقہ پرستی کے نام پر ایک دوسرے سے لڑوانا انگریز کی سازشوں کا ہی ایک حصہ ہے۔آج یہاں کے مسلمانوں کا جو طبقہ علمِ دین اور نماز روزے سے جتنا دور ہے فرقہ پرستی کے میدان میں اتنا ہی سرگرم نظر آتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ اختلافی باتیں صرف علماء کے درمیان ہوا کرتی تھیں؛ آج المیہ یہ ہے کہ ہر کس و ناکس، جاہل انپڑھ اختلافی مباحث میں پڑ کر خود بھی بے راہ روی کا شکار ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی بدظن کرتا ہے۔جب صحیح اور غلط کا فیصلہ علماء مفکرین کے بجائے جہلاءِ بے دین کرنے لگیں تو امت میں بجائے سدھار کے بگاڑ ہی پیدا ہوتا ہے اور نتیجہ سوائے فتنہ و فساد کے کچھ نہیں نکلتا۔
ایک مسلم طبقے کا غیر مسلم تختہ نشینوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف آواز اٹھانا اور ان کے بائیکاٹ کی مانگ کرنا صرف اس لئے کہ ان مسلمانوں کا تعلق دوسرے فرقوں سے ہے تعصب اور عداوت کی اعلی مثال نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ اختلاف نہیں بلکہ کھلی منافقت ہے۔ابھی اُدے پور کے ایک گاؤں کی خبر اخبارات میں شائع ہوئی کہ محمد یوسف نامی ایک شخص کی دفن کی گئی لاش کو قبر سے نکال کر اس کے گھر میں پھینک دیا گیا صرف اس لئے کہ اس کا تعلق دیوبندی یا وہابی فرقے سے تھا۔افسوس !یہ کیسی فرقہ پرستی ہے جو انسان سے انسانیت کا مادہ بھی ختم کرتی جارہی ہے۔