سیاسی پارٹیوں کا مستقبل؟

تبسم فاطمہ
اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ بی جے پی آج کی تاریخ میں ملک میں اکیلی سیاسی پارٹی بن چکی ہے جس کے سامنے دور دور تک کوئی دوسری سیاسی پارٹی نظر نہیں آتی۔ خوش فہمیوں کے ساتھ ساتھ کمزور حکمت عملی نے نہ صرف ان سیاسی پارٹیوں کو حاشیہ پر ڈال دیا ہے بلکہ تاش کے پتوں کی طرح بکھرتی ہوئی ان پارٹیوں کے سیاسی وجود کے آگے بھی خطرہ منڈلا رہا ہے۔ اترپردیش میں شکست کے بعد بیمار کانگریس کابھروسہ بیمار سونیا گاندھی سے بھی اٹھ چکا ہے۔ راہل گاندھی لمبی گہری نیند میں چلے گئے ہیں۔ کبھی کبھی ان کا کوئی کمزور بیان آجاتا ہے، جس سے سیاسی سطح پر ان کے زندہ ہونے کا ثبوت مل جاتا ہے۔ کانگریس اب بھی کمزور لیڈر شپ کے سہارے اگر اقتدار میں آنے کا خواب دیکھ رہی ہے، تو یہ اس کی بھول کہی جائے گی۔ ملک میں اس وقت صرف بی جے پی اور آر ایس ایس کی گونج ہے اور اس کے آگے ہر آواز کمزور اور سہمی ہوئی ہے۔ ابھی حال میں دہلی ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سچر کمیٹی کے سربراہ راجندر سچر نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ آر ایس ایس ۹۱۰۲ میں ہندوستان کو ہندو راشٹر بنانے کا اعلان کردے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ یوگی کو وزیر اعلیٰ بنایا جانا آر ایس ایس کی سوچی سمجھی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے۔ مودی صرف ایک چہرہ ہے۔ یہ خدشات اپنی جگہ صحیح ہوسکتے ہیں لیکن اس میں دو باتیں وضاحت طلب ہیں— آج کی تاریخ میں علامتی طور پر ہندوستان ہندوراشٹر بن چکا ہے۔ ہاں سچر صاحب کی یہ بات صحیح ہے کہ محض اعلان ہونا باقی ہے۔ سچر صاحب کی اس بات سے مجھے اختلاف ہے کہ مودی صرف ایک چہرہ ہے۔ مودی کو الگ کریں تو آر ایس ایس کا کوئی سیاسی وجود نہیں ہے۔ ۵۲۹۱ سے مشن چلانے والی آر ایس ایس کو ہندو اکثریت کا ساتھ دلانے میں اکیلا سب سے بڑا کردار مودی کا رہا ہے۔ آج مودی کا نام ہی آر ایس ایس کی شناخت بن چکا ہے، اور اس شناخت سے مودی کو نکال دیں تو آر ایس ایس کا وجود ایک بار پھر کمزور پڑ جائے گا۔ مودی ہندوﺅں کی ایسی طاقت کے طورپر ابھرے ہیں کہ لوگ ان کی پوجا کرنے لگے ہیں۔ آج مودی نے پورے ملک کو اپنی مٹھی میں کررکھا ہے۔ اور مودی پر سیاسی حملہ کرنے والوں کی جرا¿ت بھی کمزور پڑچکی ہے۔
ایک عام سا سوال صحافی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے کہ اگر دیگر سیاسی پارٹیاں متحد ہوجائیں تو کیا بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے— ہمارے تجزیہ نگار ابھی بھی اعداد وشمار پر یقین رکھتے ہیں جبکہ ہندوستانی سیاست اب طاقت کی سیاست کا حصہ بن چکی ہے۔ اور اس طاقت کی سیاست میں الکٹرانک ووٹنگ مشین تک مودی کا جادو بولتا ہے۔ مودی اس حقیقت سے واقف ہیں کہ مینڈک کی طرح ٹرٹرانے والی سیاسی پارٹیوں کو اگرمیڈیا کا ساتھ نہیں ملے گا تو ان کی باتوں کو سننے والا کون ہوگا۔ اپازیشن حکومت پر حملہ کرتی ہے تو میڈیا ہاﺅس، اپازیشن کو ٹرائیل میں لے آتی ہے۔ وہاں معمولی نیوز، اینکر بھی سیاسی پارٹیوں کے لیڈران کو نشانہ بناتا ہے اور ان کی ہنسی اڑاتا ہے۔ حکومت میں اپنا دبدبہ بڑحانے کے لیے ایسے اینکر دیگر سیاسی پارٹی کے لیڈران کو ڈانٹتے پھٹکارتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ اس وقت ملک کا ماحول یہی ہے کہ اگر سیاسی پارٹیاں مودی کے خلاف ماحول بنانا بھی چاہیں تو یہ مشن امپاسبل ہے۔ کیا یہ سیاسی پارٹیاں مودی کے خلاف متحد ہونگیں؟ اسکا جواب آسانی سے نہیں دیا جاسکتا۔ اگر یہ پارٹیاں متحد ہوتی ہیں تو اگلے وزیر اعظم کے طور پر کس کے نام کو آگے کریں گی؟ نتیش، مایاوتی، ملائم سنگھ، راہل گاندھی کیا کسی ایک نام پر متفق ہوسکتے ہیں؟ میرے خیال سے نہیں۔ یہ مشکل کام ہے۔ لیکن اگر ان سیاسی پارٹیوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوجائے کہ ان پارٹیوں کا سیاسی وجود بکھر جائے گا تو یہ ایک بار اس فیصلے پر غور ضرور کرسکتے ہیں۔ اتر پردیش میں بی جے پی کی زبردست فتح کے بعد کا سیاسی منظر بے چین کرنے والاہے۔ کانگریس، بی ایس پی، ایس پی میں بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔ بڑے بڑے نام اور چہرے سیاسی شناخت قائم رکھنے کے لیے اب بی جے پی میں شامل ہورہے ہیں۔ یہ خطرہ تمام پارٹیوں کے سامنے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جو کام مشکل لگ رہا ہے، حل بھی وہی ہے۔ اتحاد کے بغیر آج کی تاریخ میں ان سیاسی پارٹیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
عوام نے مودی کی طاقت کو آزمالیا ہے۔ یہ مودی کی طاقت ہے کہ کیجریوال کے سیاسی تیور کو میڈیا کے سہارے اس قدر کمزور کردیا کہ کجریوال بھی گوا اور پنجاب میں شکست کے بعد اپنی سیاسی زمین کو کمزور محسوس کررہے ہیں۔ وقت کے ساتھ کجریوال کا سیاسی جلوہ دم توڑ چکا ہے۔
سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ ابھی کچھ دن خاموشی سے مودی کی قیادت کے تین برسوں کا تجزیہ کریں۔ جہاں سیاسی پارٹیاں جیت کی مہر لگارہی ہوتی ہیں، مودی اپنی سیاسی حکمت عملی سے وہاں اپنی جیت کی مہرلگا دیتے ہیں۔ یہ ان کی طاقت، محنت اور سیاسی کرشمہ ہے کہ منی پور اور گوا پر بھی قبضہ کرلیا۔ اترپردیش کی حکمت عملی پر تجزیہ نگاروں میں اختلاف تھا مگر شاندار جیت کی لہرمیں مودی کا کرشمہ بھی شامل تھا۔ مودی کی اصل طاقت یہ ہے کہ مودی جیت کے لیے اپنا پسینہ بہاتے ہیں اور کسی گوشہ یا کسی پہلو کو بھی نظرانداز نہیں کرتے۔ مودی کی اصل طاقت یہ ہے کہ وہ اپنے بیانات سے سیاسی پارٹیوں میں اشتعال پیدا کردیتے ہیں اور سیاسی پارٹیاں اصل ایشو کو چھوڑکر مودی کے بیانات کے پیچھے بھاگنے میں وقت ضائع کردیتی ہیں۔ اسی طرح یہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ آر ایس ایس کے مشن کو صرف مودی نے سمجھا تھا کہ اگر ہندو اکثریت پر قبضہ ہوجائے تو ہندو راشٹر کا راستہ آسان ہوجائے گا۔ کیا ہماری کمزور سیاسی پارٹیاں مودی کے اس مشن کو روک پائیں گی؟ پانچ فیصد سیکولر اور جمہوری کردار والے ہندوﺅں کو نظرانداز کیا جائے تو آج ہندو اکثریت مکمل طور پر مودی کے ساتھ نظرآتی ہے۔
جیسا کہ سچر صاحب نے اندیشہ ظاہر کیا ہے کہ آر ایس ایس ۹۱۰۲ میں لوک سبھا انتخابات سے قبل ہندو راشٹر کا باضابطہ اعلان کردے گی۔ اگر یہ اعلان ہوتا ہے تو ملک کی اکثریت مودی کے ساتھ نظر آئے گی۔ اس اکثریت کے سامنے پاکستان کا بھی چہرہ ہوگا جہاں اسلام اوردہشت گردی کے نام پرایک ملک خون کے سوسو آنسو رو رہا ہے۔ اسلام کی غلط تصویر کشی کے ذمہ دار بھی مسلمان رہے ہیں۔ اس لیے یہ اسلامی ممالک آج اپنی شناخت کی جنگ سے دو چار ہےں۔ یہ خوفناک صورتحال ہے کہ اس وقت عالمی سطح پر مسلمان نشانے پر ہیں۔ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ عالمی سطح پر ہونے والے واقعات کا اثر ہمارے ملک پر بھی ہوتا ہے۔ پاکستان میں ابھی بھی مذہب کے نام پر دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ ان واقعات کا نفسیاتی اثر ہندوستان میں غیر مسلمانوں پر ہونا لازمی تھا۔ اس لیے مسلم مخالفت کا کھیل اب آہستہ آہستہ آر ایس ایس اور بھاجپا کی مضبوطی بنتا جارہا ہے۔ ہندو اکثریت، ہندو راشٹر کے زیر سایہ خود کومحفوظ اوراقتدار کی طاقت سے قریب محسوس کرے گی۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ بھیانک ہوگا اور مذہبی اقلیتوں کا استحصال بڑے پیمانے پر شروع ہوجائے گا۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے مستقبل کی فکر کرنی ہے تو اتحاد ہی واحد راستہ ہے۔ یہ راستہ آسان نہیں لیکن اس راستہ کو آسان بنانے کے لیے کوشش ضرور کرنی چاہیے۔ کیونکہ یہی راستہ ہندوستان کے سیکولر کردار، جمہوریت، تحفظ اور بقا کی طرف جاتا ہے۔ یہ آخری امید ٹوٹ گئی تو مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ سیاسی پارٹیوں کی مشکلیں بھی بڑھ جائیں گی۔(ملت ٹائمز)