کانگریس کو کسی سیاسی معجزے کا انتظار

ڈاکٹر شہاب الدین ثاقب

دہلی میونسپل کارپوریشن کے حالیہ انتخابات کے نتائج کا جائزہ لیں تو ایسا کہیں سے نہیں لگتا ہےکہ کانگریس پارٹی اس بار مقابلے میں تھی اور یہ چناؤملک کی سب سے بڑی اور سب سےزیادہ تجربہ کار پارٹی کے طور پر لڑرہی تھی۔اس کی بہترینمثال یہ ہےکہ کانگریس کے تقریبا ۹۲؍امیدوارں کی ضمانت ضبط ہو گئی۔دوسری طرف ایک کے بعد ایک ریاست پر کامیابی کے جھنڈے گاڑتی جا رہی بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایم سی ڈی کے انتخاب کو بھی اسمبلی اور پارلیمانی انتخاب کی طرح لڑا۔اورجس انداز میں پارٹی کے لیڈروں نے محنت کی پھل اس کےحساب سے کاٹا۔اپنے پرانے کونسلروں کو ٹکٹ سےمحروم کردینے کے باوجودنئے امیدوارں پر بازی لگانے والی بی جے پی نے یہ ثابت کردیا کہ وہ کوئی ہاری بازی نہیں کھیلتی،صرف جیتنے پر یقین رکھتی ہے۔یہی وجہ ہےکہ اس پارٹی نے ۲۷۰؍سیٹوں میں سے ۱۸۱؍سیٹ حاصل کرکےدہلی کے تینوں میونسپل کارپوریشن پر جیت کی ہیٹرک لگادی۔
بی جے پی کی جیت اور کانگریس کی شکست کے بنیادی اسباب یہیں ہیں۔کانگریس کے جن لیڈروں کواس صورتِ حال سے نکلنے کے لئے کلیدی کردار ادا کرنا چاہیے،وہ عملی اقدامات کےبجائے کسی معجزے کے انتظار میں بیٹھے ہیں ، جبکہ ہندوستان کو ’کانگریس مکت‘ کرنے کا عہد کرنے والے سیاست کے سب سے بڑے کھلاڑی نریندر مودی اور بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اتر پردیش سمیت کئی ریاستوں میںزبر دست کامیابی حاصل کرنے کے باوجود آرام سے تکیہ لگا کر سونے کے بجائےاپنی جدو جہد جاری رکھی،پارٹی کے بڑے لیڈروں اور مرکز کے وزراء تک کو دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات کے لئے مسلط کردیا ۔ ایم سی ڈی پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے اس نے ہر وہ حربہ استعمال کیا جس کی بدولت اسے کامیابی اور کامرانی کی منزلیں نصیب ہو سکتی تھیں۔
ادھر کانگریس ملکی اور ریاستی سطح پراپنے گرتے گراف سے اتنی مایوس ہو چکی ہے کہ پارٹی میں نہ تو کوئی ہلچل ہے ۔ایسا محسوس ہوتاہےکہ جنگ آزادی کی لڑائی میں شامل یہ پارٹی بی جے پی جیسی فرقہ پرست پارٹی کے سامنے خودسپردگی کر چکی ہے۔ایم سی ڈی کے پورے انتخابی عمل کے دوران کانگریس کے اعلیٰ لیڈران گدھے کی سینگھ کی طرح سے چناؤی میدان سے غائب رہے۔ امیدواروں کوجو کچھ معمولی کامیابی ہاتھ لگی ہے اس میں پارٹی کا کوئی کردار نہیں رہا، بلکہ امیدواروں کی اپنی محنت اور ووٹروں میں پکڑ نے اہم کردار ادا کیا۔
کانگریس صدر اور نائب صدر کی طرف سے کوئی ہدایت یا پلاننگ سامنے نہیں آئی ، پارٹی کے دوسرے لیڈران بھی تشہیری مہم سے دور رہ کر ہی اپنے امیدواروں کی ہار کا تماشہ دیکھتے رہے۔حد تو یہ ہوگئیکہ دہلی پر سب سے زیادہ حکومت کرنے کا تجربہ رکھنے والی سابق وزیر اعلیٰ شیلا دکشت اور ان کے صاحبزادے،سابق ممبر پارلیمنٹ سندیپ دکشت بھی تشہیری مہم میں کہیں نظر نہیں آئےاور نہ ہی ان کے طویل تجربہ سےانتخاب کی ذمہ داری سنبھال رہے لیڈروں نے کچھ تعاون لینے کی کوشش کی۔کئی بڑے اور سینئر لیڈران دہلی میں موجود ہو نے کے باوجود ایم سی ڈی انتخابات سے دور رہے۔ پارٹی کے لیڈروں کے رویے سے ایسا واضح طور پر لگنے لگا ہےکہ بی جے پی کے سامنے انہوں نےہتھیار ڈال دیا ہے یامودی نے سیاسی طور پر ان کی کمر توڑ دی ہے۔پارٹی میں اندرونی خلفشار بھی ایک اہم مسئلہ ہے ،اس کے علاوہ لیڈروں کی تساہلی،ایک دوسرے پر چھینٹاکشی،خاص طور پر پارٹی کے نائب صدر راہل گاندھی کی قیادت پر بڑے اور چھوٹے لیڈروںکا سوال اٹھانا۔آپس میںاعتماد کا جس قدر بحران ہے ، پہلے کبھی نہیں تھا۔شکوک و شبہات اور بے یقینی نے پوری پارٹی کو اپنیلپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ایسے میں کوئی کیسے یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ حالات جلد نارمل ہو جائیں گے۔اس کا تو دور دور تک کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
یہ وہ اسباب ہیں جن کی وجہ سے کانگریس پارٹی ہندوستان کے سیاسی نقشے سے غائب ہو تی جا رہی ہے۔جنرل سیکریٹری دگ وجے سنگھ کے بھائی لکشمن سنگھ نے تو یہاں تک کہ دیاکہ اگر اندرا جی کی طرح سونیا گاندھی اور راہل گاندھی بھی جیل جائیں تو کانگریس بہت جلد واپس آ سکتی ہے۔
کانگریس کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر جناب کپل سبل نے بھی اعتراف کیا ہے کہ پارٹی میں اتحاد کی کمی، دہلی میونسپل کارپوریشن انتخابات میں کانگریس کی ہار کی بڑی وجہ ہے۔ جن چہروں کےبل بوتے پر کانگریس نے دہلی میں پہلے فتح حاصل کی تھی انہیں اس انتخابات میں یکسر نظر انداز کیا گیا،پارٹی کو ان چہروں کو ساتھ میں لے کر انتخابی میدان میں اترنا چاہیے تھا جنہوں نے گزشتہ سالوں میں دہلیکی شکل تبدیل کرنے میں نمایاں کردار نبھایا تھا۔ جب کوئی مصیبت آتی ہے تو پرانے اور نوجوان رہنماؤں کو ساتھ لے اس مصیبت کا مقابلہ کیا جاتا ہے۔
دہلی کی سابق وزیر اعلی اور کانگریس پارٹی کی سینئر لیڈر شیلا دکشت نے ایم سی ڈی میں شکست کے لئے کانگریس کے ریاستی صدر اجے ماکن کو ذمہ دار ٹھہرایا،پارٹی میں اندرونی رسہ کشی پر ان کا کہنا تھا کہ ناراض لوگوں کو منایا جاتا ہے اور جس کے ہاتھ میں کمان ہے یہ کام اسے ہی کرنا پڑتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا، ہم انتخابات اچھے نتائج کے لئے لڑے تھے لیکن جب تک آپ خود مضبوط نہیں ہوں گے تب تک آپ ایک اچھی لڑائی نہیں لڑ سکتے۔دوسری طرف اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیتے ہوئے اجےماکن نے سابق وزیر اعلی شیلا دکشت اور ان کے بیٹے سندیپ دیکشت کو ذمہ دار قراردیا۔یہ لیڈران اس ذلت آمیز شکست کا ٹھیکرا بھلے ہیں ایک دوسرے پرپھوڑ رہے ہوں مگر کڑوی سچائی یہ ہےکہ۲۰۱۴ء میں لوک سبھا انتخابات میں ملی ناکامی کے بعد سے کانگریس کے لیڈران ایک اسٹیج پر جمع ہونا تودورکئی بڑے لیڈر استعفیٰ دےکر بھگوا پارٹی کی گود میںجا بیٹھے ہیں،ان کے اندر عجیب سی مایوسی اور بے چینی دیکھی جا رہی ہے۔ان کے سر پر اطمینان اور استحکام کا ہاتھ رکھنے والا کوئی نظر نہیں آرہا ہے۔حالت یہ ہوگئی ہےکہ کئی بار کانگریس صدرمحترمہ سونیاگاندھی کی دعوت میں بھی بہت لیڈران شریک نہیں ہو پائے ،یہ اس بات کی علامت ہےکہ پارٹی میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک نہیں ہےاور اس کے اندر مودی اور امت شاہ جیسے پاورفل لیڈروں کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہے۔وہ دم خم نہیں جس کے لئے پارٹی مشہور تھی،بی جے پی کے جھوٹ، اس کے پرفریب نعروں کواسی انداز میں بے نقاب کرنے والے لیڈروںکا فقدان ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہےکہ گوا اور منی پور کے اسمبلی انتخابات میں سب سے بڑی پارٹی کے طور پر سامنے آنے کے باوجود کانگریس حکومت بنانے میں ناکام رہی تھی اور بی جے پی نے ان دونوں ریاستوں میں توڑ جوڑ کرکے اپنی حکومت بنالی،جس کی وجہ سے کانگریس کی خاصی فضیحت ہوئی تھی۔کانگریس کے رہنما گورنر کی طرف سے دعوت دیے جانے کا انتظار ہی کرتے رہے اور بی جے پی نے گورنر سے ملاقات کرکے حکومت سازی کا دعویٰ پیش کردیا اورتمام مخالفت کے باوجود حکومت بنانےمیں کامیاب ہو گئے۔اس کے بعد گوا میں کانگریس پارٹی کے انچارج رہے دگ وجے سنگھ کے خلاف مقامی لیڈروں نےکھل کر بیان دیا تھا۔ان کا کہنا تھاکہ ۲۱؍ ممبران اسمبلی کی حمایت کے باوجود دگوجے نے گورنر کے پاس جانے سے روک دیا تھا ۔بی جے پی نے کانگریس کے زخم پر نمک چھڑكتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ دگوجے گوا میں چھٹیاں منا رہے تھے،تاہم کانگریس نے پارٹی دگ وجے سنگھ کو گواکے انچارج کےعہدے سے ہٹا دیا ہے۔ساتھ ہی کرناٹک کے انچارج کو بھی بدل دیاگیاہے،بظاہراس تبدیلی کو کرناٹک میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے۔دوسری طرف ہندوستان میںبھگوا پارٹی کے عروج پر ملک کا سیکولرطبقہ فکر مند ہے،ان کی اس بے چینی کواس سے سمجھا جا سکتاہےکہ ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کیلئے سیکولرجماعتوںکے اتحاد کی کوششیں جاری ہیں،اگر یہ اتحاد نہیں بن پاتاہےتو بی جے پی کے وجے رتھ کو روکنا مشکل ہوگا۔