مولانا حافظ ہاشم مصباحی قادری
ملت ٹائمز
مذہب اسلام نے نکاح کے ذریعہ مردوزن کے اس باہمی تعلقات کو جس قانون و معاشرہ کا پابند بنایا ہے اگر انہی دائرے میں رہ کر اس فریضہ کو انجام دیا جائے تو یقیناًاس سے ایک پاکیزہ اور صالح معاشرہ کا وجود ہوگا اس معاملہ کو قانون اور معاشرتی رنگ دینے کی اصل وجہ جنسی تسکین کے سابقہ حفاظت نسب اور نسل انسانی کے تسلسل کو بھی باقی رکھناہے دنیا کی ہر قوم و مذہب نے مرد و عورت کے اس باہمی اجتماع کو اپنے معاشرتی نظام کا پابند بنایا ہے آج تک اس سرزمین پر جتنی بھی قومیں وجود میں ہیں ان سب میں نکاح کا وجود ضرور رہاہے اپنے مذہب کے مطابق شادی بیاہ ضرور کرتاہے یہ الگ بات ہے کہ کچھ مذہب میں سیاسی ورہبانی زندگی (بغیر شادی شدہ ) کو اچھا بتایاہے ۔ لیکن مذہب اسلام چونکہ مذہب فطرت ہے اس کے قوانین یہ ہیں کہ تقرب الی اللہ حاصل کرنے کے لئے تارک الدنیا اور دنیا کی جائز رنگینیوں سے بے نیاز ہونا تقرب الی اللہ نہیں بلکہ اس دنیا میں رہ کر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی زندگی بسر کرے وہ اللہ کا مقرب بندہ بن جائیگا ۔
ہرمذہب اور معاشرہ نے بغیر شادی ( جواسکے مذہب میں رائج ہے ) مردو زن کے باہمی تعلقات کو ناپسند کیا ہے ،انسان کو جنسی ضرورت کے تحت سکون انہیں جوڑوں سے حاصل ہوتا جو قانون شریعت کے مطابق باہم نکاح سے حاصل ہوتاہے اور اسلام انہیں کو جوڑاقرار دیتا ہے ۔غیر نکاح جوڑوں کو اسلام جوڑاتسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ انہیں زانی اور بدکار قرار دیتاہے ان کے لئے سخت سزا تجویز کرتا ہے آج کل مغربی تہذیب کے علم بردار شیاطین اسی مذموم گندی کوششوں میں مصروف ہیں کہ مغربی معاشرے کی طرح اسلامی ملکوں اور ہر جگہ نکاح کو غیر ضروری قرار دیاجائے اور آزادانہ میل ملاپ بدکارمرد و عورت کو جوڑا تسلیم کرلیا جائے اور قانون بنا یا جائے کہ کپل (Couple)یعنی قانونی جوڑاماناجائے اور انہیں سزاکے بجائے وہ حقوق دیئے جائیں جو ایک قانونی جوڑے کو حاصل ہوتی ہے آج آزادی کے نام پرمغربی ثقافت نے ہماری نسلوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے ،بلاشبہ شادی بیاہ فطرت کی آواز ہے اور انسانی ضرورت ہے رب العالمین کا ارشاد ہے ترجمہ : اور اس کی نشانیوں میں سے ہیکہ تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے ( یعنی بیویاں بنائیں ) کہ ان سے آرام و سکون پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی ہمدردی رکھی ( القرآن ، سورہ روم ۳۰، آیت ۲۰)
یقیناًغور فکر کرنے والوں کے لئے اسمیں بہت سی نشانیاں ہیں فقہاء کرام نے نکاح کی کئی صورتیں بیان فرمائی ہیں بعض نے نکاح کرنا واجب کہا جب کہ بعض نے اسے مباح اور بعض نے مستحب قرار دیا تاہم استطاعت رکھنے والے کے لئے یہ سنت مؤکدہ ہے بعض نے عقد نکاح کو اس شخص کے لئے واجب قرار دیا جس کی جانب سے برائی کا ڈر ہو حدیث پاک میں ہے اللہ تعالیٰ اسکی ضرور مدد فرماتاہے جو پا ک دامنی کے لئے نکاح کرتاہے ۔
احادیث رسول میں کثرت نکاح کرنے کی تر غیب دی گئی ہے اور خصی اور غیر شادی شدہ برہمچاری رہنے کی ممانعت کی گئی ہے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا : من کان ذاطول فلیتزوج ’’جو شخص استطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرے ‘‘ (معجم کبیر ج ۱۰ ص ۱۴۹) ایک اور حدیث میں آپ ﷺ فرماتے ہیں ’’تم میں سے جو شخص گھر بسانے کی اسطاعت رکھتا ہو وہ شادی کرے کیوں کہ نکاح سے نظر نہیں بہکتی اور شرم گاہ محفوظ رہتی ہے اور جو شخص نکاح کی استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روز ے رکھے کیونکہ روزے اس کی شہوت (sex) کو کم کر دیتے ہیں ۔ (بخاری شریف ج۲ ص ۷۵۸حدیث نمبر ۱۹۰۵ ،مسلم شریف حدیث نمبر ۳۲۹۷)
النکاح من سنتی فمن رغب عن سنتی فلیس منی ۔ ( بخاری شریف حدیث نمبر ۵۰۶۳،مسلم شریف حدیث نمبر ۱۰۲۰ )
اسلام میں نکاح ایک مذہبی فریضہ ضرورت اور قرب الٰہی کا سبب بھی ہے آقا ﷺ نے ارشاد فرمایا : اذتزوج العبد فقد استکمل نصف الدین فلیتق اللہ فی نصف الباقی ۔ ’’ جب بندے نے نکاح کرلیا تو اسنے نصف (آدھا) دین مکمل کرلیا اور باقی نصف کے لئے اللہ سے ڈرے ( مشکوٰۃ شریف ص ۲۸۶) حضور ﷺ نے رہبانیت و تبتل (مجرد زندگی (اکیلا) زندگی گزارنے کاعمل ) کے خود ساختہ خیالوں کو مسترد کرتے ہوئے نوجوان معاشرہ کو شادی کی ترغیب دی ہے ، ارشاد گرامی ہے یا معاشرالشباب من استطاع البناء ۃ فلیتزوج ‘‘ نوجوان کی جماعت تم سے جو شخص لوازمات مجامعت (بیویوں اور بچوں کا نفقہ اور مہر ادا کرنے کی )استطاعت رکھتا ہو ،تو وہ نکاح کرلے ،کیونکہ نکاح نظر کو نیچی اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتاہے اور جو اس پر قادر نہ ہو تو وہ روزہ رکھے ، کیونکہ روزہ رکھنا اس کو خصی بنا دے گا (اس کی شہوت کودورکردیگا )سچی حقیقت تو یہ ہے کہ جس معاشرہ میں شادی کا رواج نہ ہو گا یا شادی کو ایک بوجھ سمجھا جائے گا۔تو وہاں لوگ اپنی جنسی پیاس کو بجھانے کے لئے ناجائز طریقے ضرور تلاش کریں گے ، جس سے ناجائز بچوں کی پیدائش ہوگی جیسے آج نام نہاد ترقی یافتہ کہے جانے والے ملکوں امریکہ، جرمنی،انگلینڈ اور دیگر مغربی ملکوں میں یہ وبا عام ہے اخباری رپورٹوں کے مطابق ؍۲۲ فی صدبچے نا جائز پیدا ہورہے ہیں اسی وجہ سے آج یورپین ملکوں میں بچے کی نسبت باپ کے بجائے ماں کی طرف کی جاتی ہے ،کیونکہ بچے کی ماں تو معلوم ہوتی ہے مگر خود ماں کو بھی پتا نہیں ہوتا کہ اس کا باپ کون ہے جبکہ مذہب اسلام میں نکاح کے ذریعہ بچہ کی نسبت باپ سے ثابت ہوتی ہے جو دنیا میں عزت وشرافت ،پاک دامنی کا باعث ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا و انکحوا منکم……. الخ ۔ ترجمہ ، اور نکاح کر دو اپنوں میں سے انکا جو بے نکاح ہے اور اپنے لائق بندوں کااور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انھیں غنی کردیگااپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا او ر علم والا ہے (القران ،سورہ نور ، آیت ۳۲ ۔ کنز الایمان )
ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’فلا تعضلوھن ان ینکحن ازواجھن اذ تراضوا بینھم باالمعروف ‘‘ترجمہ : تو عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح سے نہ روکو جب کہ آپس میں موافق شرع رضامند ہوجائیں ، یہ نصیحت اسے دی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو یہ تمہارے لئے زیادہ ستھرا اور پاکیزہ ہے اور اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے ۔ (القرآن ،سورہ البقرہ آیت ۲۳۲)
نکاح کے بہت فوائد ہیں سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ اس سے نسل انسانی کی بقا و استحکام ہے انسان حصول اولاد کی جو کوشش کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ اسکی محبت کا بھی دخل ہے کیونکہ وہ اللہ کے حکم کی اطاعت کرتاہے اولاد کو باعث ثواب قرار دیا گیا ہے حضور نے ارشاد فرمایا : خوب بچہ دینے والی عورتوں سے شادی کرو کیوں کہ میں کثرت امت پر قیامت کے دن فخر کروں گا نکاح کے بے شمار فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ انسان کی شہوت کا زور ختم ہوجاتا ہے اور اسکو سکون مل جاتاہے اس کا دل اس کی نظر پاکیزہ ہوجاتی ہے اور گناہوں
سے بچارہتاہے ۔ ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ انسان کو بیوی کے ذریعہ سکون ملتاہے اللہ تعالیٰ نے حضرت حوا کو حضرت آدم کی تسکین کے لئے پیدا فرمایا قرآن کریم میں ہے ترجمہ : اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنا یا تاکہ اس سے چین پائے ۔(القرآن ، سورہ الاعراف ۷ ، آیت ۱۸۹) اسی لئے اسلام میں بغیر شادی شدہ رہنے کی ممانعت کی گئی ہے اللہ نے اپنے رسولوں کو بھی بیوی اور اولاد سے نوازا چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے ولقد ارسلنا رسلا من قبلک و جعلنا لھم ازواجا و ذریۃ ترجمہ : بے شک ہم نے تم سے پہلے بھی رسولوں کو بھیجا اور ان کو بیویوں اور بچوں یعنی نسلوں سے نوازا ۔(القرآن ،سورہ رعد ۱۳ آیت ۳۶) بعض کفارنے اعتراض کیا کہ اگر حضور نبی ہوتے تو آپ نکاح نہ کرتے بیوی بچے نہ رکھتے تارک الدنیا ہوتے انکے جواب میں یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی ،پیغمبران عظام میں بغیربیوی حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عمر شریف گزاری باقی تقریبا تمام انبیاء کرام نے نکاح فرمایا یعنی نکاح حکم خداوندی ہے اور نکاح سنت انبیاء ہے جو کہ فطرت ہے ایسے ہی زیادہ بیویاں رکھنا بھی نبوت کے خلاف نہیں ہے حضرت داؤد علیہ السلام کی ۹۹بیویاں تھیں اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک ہزار بیویاں تھیں اور وہ نبی تھے ۔ ہندؤں کے بھی بعض اوتاروں کنہیاا اور راجہ دسرت کی کئی بیویاں تھیں کنہیا کی ایک ہزار بیویاں تھیں ۔ قطع نظر اسکے کہ نکاح سنت ہے یا فرض ہے ، بہ وجہ تقاضہ بشریہ خود ایک انسانی ضرورت ہے بلکہ انسانی فطرت ہے خدائی قانون ہے سنت رسول اور عبادت بھی ہے اسی لیے اسلام نے نکاح کو بہت آسان بنایا ۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺنے فرمایا : نکا ح کا اعلان کرو ، اسے مسجدوں میں رکھو، مرقات میں اس حدیث کے تحت ہے ۔ مسجد میں نکاح رکھنا یا اس فائدہ کے پیش نظر ہے کہ اس سے اعلان زیادہ ہوگا اور برکت کا مقام ہے برکت حاصل ہوگی اور فال نیک لینے کے لئے مسجد میں نکاح کی ترغیب دی گئی ۔ ( طبرانی ،معجم کبیر ، حاکم ،مستدرک )
جہیز زحمت ہے پر ذمہ دار کون ؟
آجکل جہیز کی مانگ نے باقاعدہ بایوڈاٹا (BIO-DATA)کی طرح لسٹ کی صورت اختیار کر لی ہے پورے معاشرے کو تباہی کے دہانے پر پہنچادیاہے ۔ جسکی ایک سے زائد بیٹیاں ہوں تو اسکی پوری موت ہوجاتی ہے ، اگر جہیز اختیاری ہو یعنی خوشی پر منحصر ہوتو کوئی قباحت نہیں لیکن جبری جہیز کی Demandنے صورت حال کو خطرناک اور تباہ کن بنادیا ہے مفت میں لاکھوں کا مال ہاتھ آنا سب کو اچھا لگتاہے اوراس موذی مرض میں اچھے خاصے دین دارلوگ بھی جہیز لے کرشادیاں کررہے ہیں، ’’مال مفت دل بے رحم ‘‘ کوئی رحم کوئی شرم و حیا نہیں پورا معاشرہ اسی ظلم کی وجہ سے نہایت بے چینی کی زندگی گزار رہاہے غریبوں اور مڈل کلاس کے لوگوں کے لیے یہ لعنت جان لیواثابت ہورہی ہے کتنے باپوں نے اپنی لگی روزی کو داؤں پر لگادیا ،دوکانیں بیچ ڈالیں ،جائیدادیں بیچ دیں ،رہن رکھ دیا ،سودی قرض لے لیا اور ساری زندگی قسطوں پر مرنے کا سامان کر لیا کیا یہ حالات دردمند مسلمانوں کو جھنجھوڑنے اور جگانے کے لئے کافی نہیں ہے معاشرے کو اس جان لیوا خراب رسم سے پاک کیا جائے ایک تو غریب لڑکیوں کی بڑھتی عمر کا رونا روتے ہیں اور لالچی لڑکے والوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں یہ سچ ہیکہ جہیز ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح نہیں بلکہ ڈائناسور (DINOSAUR)کی طرح کھاجارہی ہے مگر جہیز کے لئے ذمہ دار صرف لڑکے والے ہی نہیں ہیں خود لڑکی والے بھی لڑکے والوں کو منھ مانگے جہیز کی پیش کش کرتے ہیں بلکہ ایسے واقعات بھی ہیں کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی اچھا رشتہ آیا ہے اور اسکے گھر والے اسکی مانگ پوری کرنے پر مجبور ہیں تو اسکی بھنک جب پڑوسی یا رشتہ داروں کو پڑی تو وہ جلدی سے ’’Tender‘‘ کی طرح بولی لگا کر اپنی لڑکی کے لئے وہ رشتہ حاصل کرلیتے ہیں ۔ اخبارات میں ضرورت رشتہ کے اشتہار پر نظر ڈالئے ’’معیاری شادی ‘‘ لڑکا بھائی باہر سے آیا ہواہے ۔ویزا کاروبار لگا ہے بھیج دیا جائے گا….وغیرہ وغیرہ جیسے لالچ دیئے جاتے ہیں جو دولت مند ہیں اور جس نے اپنی لڑکی کی شادی کے لیے زندگی بھر کی کمائی جماکر رکھی ہے انہیں روکا نہیں جاسکتا لیکن غریب شخص اور جسکی بچیوں کی تعداد زیادہ ہے وہ گھٹ گھٹ کر مر رہاہے سوال یہ ہے کیا صرف ’’باہر ‘‘رہ کر ہی لڑکی خوش رہ سکتی ہے کیا وہ اپنے وطن میں خوش نہیں رہ سکتی جو بیویاں اپنے شوہر کے ساتھ باہر ہیں ان کی حالت انکے دل سے پوچھئے ’’سارادن گھر میں لاک (بند) رہتی ہیں ایسے ہی جو یہاں رہتی ہیں انکے شوہر باہر ہونے کی وجہ سے ان گنت پر یشانیاں اور مسائل ہیں جو لکھنے کیلئے ایک دفتر چاہیے ۔مقامی نوجوانوں اور کم آمدنی والے نوجوانوں سے شادی کے لئے نہ ہی ماں باپ اورنہ ہی لڑکیاں تیار ہوتی ہیں جبکہ اکثر دیکھا گیا ہے مقامی نوجوان اور کم آمدنی والی فیملی خوش و خرم ہے باہر والے اور دولت مند لوگ سکون کے متلاشی ہیں ۔
انتخاب نکاح میں دیندار کی اہمیت
نیک اور صالح نسل کے لئے ا ن اوصاف کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے دینداری ،حسب و نسب، عزت و وقار عمر کے توازن کے ساتھ یعنی لڑکے کی عمر زیادہ ہو لڑکی کی کم ہومناسب نہیں مرد عورت کے اخلاق و آداب میں عورت کا اخلاق زیادہ ہونا بہتر ہے ۔بد خلق ، بد صورت ، پست قد ، عمر دراز ، صاحب اولاد نہ ہونا اچھا اور فاسق و بدکار بد چلن تو ہر گز نہ ہو ۔ (درمختار ، ردالمختار ) رہی بات حسن وجمال کی تو رسول کریم ﷺ کے ارشاد ات بھی پیش نظر ضرور رکھے : فرمایا رسول اکرم ﷺ نے عورت سے نکاح کے چار داعیے ہوا کرتے ہیں (۱) اس کامال (۲) اسکا حسب (۳) اس کا جمال (خوبصورتی ) ( ۴) دین والی کو اختیار کرو (اگر تونے دین کو ترجیح نہ دی تو ) تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں ۔ (بخاری ، حدیث نمبر ۲۰۴۱ سنن ابو داؤد باب نکاح کا بیان دیندار عورت سے نکاح کرنا مقدم ہے حدیث نمبر ۱۲۰۴و مسلم ) عورتوں سے شادی محض حسن کی بنیاد پر نہ کرو ان کا حسن تمہیں تباہی میں ڈال دے گا ان کی دولت ثروت (جہیز ) کو شادی کی بنیاد نہ بناؤ ۔ہوسکتا ہے انکی دولت جہیز تمہیں سرکشی میں مبتلا کردے لیکن دین کی بنیاد پر تم شادی کرو کالی کلوٹی دیندار کنیز دولت والی سے اچھی ہے جو خدمت گذار اطاعت شعار رہے گی ایک اور حدیث پڑھیں یہ حدیث پاک ان نوجوانوں کے لئے تازیانہ عبر ت ہے جو محض حسن و جمال پر جان لٹادیتے ہیں ۔ یا دولت و ثروت کی لالچ میں اپنی زندگی کا سکون قربان کردیتے ہیں اور دیانت تقوی نیک دیندار کی پرواہ نہیں کرتے فرمایا آقا ﷺ نے جس نے کسی عورت سے اس کے عزت کے سبب نکاح کیا وہ اور ذلیل ہوگا، جس نے اسکی دولت کی وجہ سے نکاح کیاوہ اورمحتاج ہوگا ، جس نے اس کے حسب کے باعث نکاح کیادنائت میں اضا فہ ہوگا۔ جی ہاں جسنے کسی عورت سے صرف اس لئے نکاح کیا کہ اپنی نظراورشہوت کی حفاظت یا اپنی سابقہ قرابت کی رعایت کر سکے تو اس شادی میں خدا مرد اور عورت دونوں ہی کے لئے برکت عطا فرمائے گا (طبرانی) آقا ﷺ نے فرمایا سبھی متاع ہے اور بہترین متاع دنیا نیک وصالح عورت ہے ۔ آج ہندوستانی معاشرہ میں انگنت برائیاں ہیں ان معاشرتی برائیوں میں مئے نوشی ۔سٹہ وجوا ۔ ذرہ ذرہ بات پر لڑائی جھگڑا تعلیم سے دوری اور جہیز کا مسئلہ شادی کے موقع پر نا جا ئزخرچ اور خرافات رسمیں کرنا انتہائی افسوس ناک اور مہلک بات ہے وہ قوم جسے رسول ﷺ رسومات کو مٹانے اور حق کو پہچانے آئے تھے وہ قوم ملت بے جارسوم میں پڑ کر نہ صر ف دولت برباد کررہی ہے بلکہ اپنی آخرت بھی خراب کررہی ہے اس سلسلے میں حضرت مولانا احمد رضا خاں کی کتاب (ھادی الناس فی رسوم الاعراس) ،لوگوں کا رہنما شادیوں کی رسموں کے بارے میں )مشہور نام رسوم شادی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے زبردست دلائل سے آپ نے بدعات وخرافات و رسومات کی بیخ کنی فرمائی ہے اس کتاب کے مطالعہ سے نہ صرف دینی معلومات میں اضافہ ہوگا بلکہ خوف خدا ،خوف آخرت بھی دل میں آئے گی ۔
مہرکی ادائیگی عورت کا شرعی حق ہے۔ دینا ضروری ہے۔
مہر کے بارے میں ہمارے معاشرے میں معلومات نہ کے برابر ہیں اور جنکو معلوم بھی ہے وہ بھی اس خدائی حکم کی پیروی نہیں کرتے جو انتہائی افسوس ناک اور عاقبت خراب کرنے والی ہے جولوگ جہیز کے معاملے میں ذرہ برابر رو رعایت نہیں کرتے وہی لوگ عورت کا مہر ادھار آگے اداکرنے کے لئے اٹھا چھوڑتے ہیں یہی وجہ اسکی بے برکتی کی وجہ سے زوجین میں اتنی محبت و انسیت نہیں ہوتی لڑائی جھگڑا ہوتے رہتا ہے اللہ کے رسول نے فرمایا: عورت سے فائدہ مہر دیکر حاصل کرو برکت ہوگی ۔ (الحدیث)
مہر کی ادائیگی شوہر کے ذمہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے و اٰتوا نسآء صدقٰتھن نخلۃ فائن طبن لکم عن شئی منہ نفسافکلوہ ھنیا مریا ترجمہ:اور عورتوں کے مہر خوشی سے دو پھر اگر اپنے دل سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے کھاؤ لذت حاصل کرتے ہوئے خوش گوار سمجھتے ہوئے کھاؤ ۔ ( القرآن ، سورہ نساء ۴،آیت ۶)
کریمہ میں رب العالمین اپنے بندوں کو یہ حکم دے رہا ہے کہ جب وہ نکاح کرے تو جو مہر مقرر ہوا ہے ضرور ادا کرے جو بیویوں کا واجبی حق ہے اگر کوئی اس حق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتاہے یا جبری و مکاری کے ذریعے اس سے بچنے کی صورت نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اللہ کی بارگاہ میں مجرم ہے اور مجرموں کے معاملے میں سریع الحساب اور شدالعقاب ہے مہرنہ دینا یہ اسلام کی تعلیمات کے سخت خلاف ہے یا جھوٹے بہانے بنا کر رکھ چھوڑنا ادھار کر لینا بہت بری بات ہے مہر نکاح اداکرنا ضروری ہے ۔ شوہر کا مہر کو معمولی سمجھنا اہمیت نہ دینا اور عورت کو سمجھا سمجھا کر ادانہ کرنے کی نیت رکھنا اتنی سخت بات ہے کہ حدیث پاک میں اس پر سخت لعنت و وعید آئی ہے حدیث نبوی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص کسی عورت سے نکا ح کرے اور اس کا کچھ مہر مقرر کرلے پھر یہ نیت رکھے کہ اس کے مہر میں سے کچھ اس کو نہ دے گا یا اس کو پورانہ دے گا تو وہ انی (ظالم ، ناانصاف ) ہو کر مریگا (بیہقی شریف ) مہر کے مقرر کرتے وقت یہ کہاسنا جاتاہے کہ مہر کون دیتاہے اور کون لیتاہے ۔ یہ بات انتہائی نامناسب ہے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کے حکم صریح خلاف ورزی ہے ’’مہر چونکہ عام طور پر دینے کی نیت ہی نہیں ہوتی لہٰذا مہر زیادہ رکھا جاتاہے اور بڑے فخر سے خاندان میں بتایا جاتا ہے کہ ہم نے تو مہر اتنا زیادہ رکھاہے حالانکہ یہ عمل رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف ہے ۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر خطبہ میں ارشاد فرمایا : کہ مہروں میں زیادتی مت کرو ،کیونکہ اگر یہ دنیا میں عزت کی بات ہوتی یا اللہ کے نزدیک تقویٰ کی بات ہوتی تو سب سے زیادہ اس کے مستحق رسول خدا ﷺ تھے ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا عورت کا مبارک ہونا یہ بھی ہیکہ اس کے مہر کا دینا اسکے شوہر کے لئے آسان ہو ۔ حضرت مولانا احمد رضا ں خاں علیہ الرحمۃ والرضوان نے فتاویٰ رضویہ ج۵ ،ص ۴۶۸ ، باب المہر میں اس کی نفیس تحقیق فرمائی ہے ۔ یہ عام دستور بنا ہوا ہے کہ عورت جب مرنے لگتی ہے تو اس سے مہر معاف کراتے ہیں حالانکہ مرض الموت میں معافی دیگر ورثہ کی اجازت کے بغیر معتبر نہیں ہے یعنی بیوی نے معاف کردیا تو ایسی حالت میں وارثین کی اجازت کے بغیر معاف نہیں ہوگا ۔ آج مہر کے معاملے کو بہت آسان سمجھا جاتاہے اسکی کوئی پرواہ نہیں
کی جاتی ہے حالانکہ یہ حقوق العباد میں سے ہے اگر عورت کو مہر ادانہیں کیا تو قیامت میں اس کا سخت مواخذہ ہوگا عورت کو یہاں تک حق ہے کہ اگر مہر معجل مقرر کیا گیا ہے تو بغیر مہر وصول کئے عورت اپنے اوپر قابونہ دے ( فائدہ حاصل نہ کرنے دے ) تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔(اللہ اعلم و رسولہٗ ), ان تما م معاملے میں خاص کر جہیز کی مانگ کے سلسلے میں واعظین علمائے کرام اہل علم ودانش ،سماج کے سبھی دانشور حضرات تحریک چلائیں کم از کم اپنے محلے اپنے علاقے پر کوشش کریں برا بر محنت کریں تاکہ اس برائی سے نجات پایا جاسکے اللہ ہم سب کو دین اسلام کے احکام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔
09386379632
hhmhashim786@gmail.com