پروفیسر اختر الواسع
بلاشبہ ہندوستان میں مسلم مطلقہ خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو ذہنی اذیت، سماجی نابرابری اور طرح طرح کے مسائل و مشکلات سے نبردآزما ہے اور ان میں سے کچھ مطلقہ عورتیں ایسی بھی ہیں جن کا اس سنسار میں کوئی یارومددگار نہیں۔ زمانہ کے تھپیڑوں کو برداشت کررہی ان مطلقہ خواتین کے دکھ درد اورمشکلات کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے، مگر فی زمانہ جس طرح مطلقہ خواتین کے مسائل کو لے کر شوروغوغا ہورہا ہے اس سے یہ باور ہورہا ہے کہ اس ملک کے ہر مسلمان کے گھر میں کوئی نہ کوئی مطلقہ آنسو بہا رہی ہے، جب کہ حقائق اس سے قطعاً مختلف ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مطلقہ خواتین کے غم میں کچھ افراد اور جماعتوں نے تین طلاق کو موضوع بحث بنالیا ہے۔ اس بحث کو اس قدر طول دیا گیا ہے جیسے اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ مطلقہ خواتین ہیں اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تین طلاق ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ اب تین طلاق کے مسئلہ کو ایک سیاسی مسئلہ بنادیا گیا ہے،جس کے حوالے سے ہرکس وناکس اپنا دہن کھول رہا ہے۔ جب سے اترپردیش میں آدتیہ ناتھ یوگی کی قیادت میں بی جے پی برسراقتدار آئی ہے تو ایسا لگ رہاہے کہ اب اس حکومت کا ایجنڈا سلاٹر ہاؤس ہے یا تین طلاق۔ تین طلاق کے مسئلہ پر بی جے پی کے کئی اعلیٰ لیڈران بھی لب کھول چکے ہیں اور خواہی نہ خواہی قوانین اسلامی کی اساس پر تیشہ کاری کے مرتکب ہورہے ہیں۔
خبررساں ایجنسیوں اور الیکٹرانک میڈیا میں ایسی رپورٹیں پیش کی جارہی ہیں، جن سے محسوس ہوتا ہے کہ مسلم مطلقہ خواتین کو اب اپنی شریعت پر بھروسہ نہیں رہا اور وہ یا تو اپنے دکھوں کا مداوا مودی کی چوکھٹ پر ڈھونڈ رہی ہیں یا انہیں بدگمانی ہے کہ انہیں ’نرک‘ جیسی زندگی سے یوگی جی ہی باہر لاسکتے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کئی خبریں سامنے آچکی ہیں اور بی جے پی کے کئی لیڈران یہ بیان دے چکے ہیں کہ وہ تین طلاق جیسے ظالمانہ قانون کو ختم کراکر ہی دم لیں گے۔ لونی ضلع غازی آباد کی دوبہنیں باغپت کے رہنے والے دو بھائیوں کے نکاح میں تھیں، لیکن دونوں ہی طلاق پاکر اپنے مائیکہ میں رہنے پر مجبور ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق دونوں نے یوپی کے وزیراعلیٰ آدتیہ ناتھ یوگی سے انصاف کی امید ظاہر کی ہے، اسی طرح محض دو دن قبل علی گڑھ میں ہندومہاسبھا کی جنرل سکریٹری ڈاکٹر پوجاشکن پانڈے دومطلقہ خواتین کے ساتھ پریس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ یہ دونوں مطلقہ خواتین ان کے پاس انصاف کے لیے آئی ہیں۔ ہندومہاسبھا کی جنرل سکریٹری نے طلاق کے خلاف بیان دیتے ہوئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قائدین کو وارننگ دی تھی کہ وہ طلاق کے سلسلہ میں اپنا موقف تبدیل کریں۔ اسی طرح ملک کے مختلف حصوں میں براہ میڈیا یہ خبر بار بار آرہی ہے کہ مسلم مطلقہ خواتین کے صبر کا باندھ اب ٹوٹ رہا ہے، وہ انصاف چاہتی ہیں۔ میڈیا میں پیہم رپورٹوں سے ایسا محسوس کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ سارا دیش طلاق زدہ ہے اور ہر شہر میں عورتیں کراہ رہی ہیں جن کو انصاف دلانے کے لیے کچھ طاقتیں پرعزم ہیں۔
تین طلاق اور مطلقہ خواتین کے مسئلہ کو اس زوروشور سے اٹھایا جارہا ہے کہ جیسے یہ ایک سیاسی مسئلہ ہو۔ بحث کو دراز ہوتا دیکھ کر وزیراعظم نریندر مودی کو بھی اپنی زبان کھولنی پڑی اور انہوں نے 29اپریل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ طلاق کے مسئلہ کو سیاسی مسئلہ نہ بنائیں، ان کے اس خیال کاخیرمقدم لیکن ان کا یہ بیان کافی دیر سے اس وقت آیا جب اس مسئلہ کو سیاسی بنایا جاچکا تھا۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ تین طلاق کے مسئلہ کو عدالت بھی غیرمعمولی اہمیت دے رہی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بابری مسجد مسئلہ کی سماعت روزبروز تو نہیں ہوپارہی ہے، لیکن تین طلاق کے مسئلہ پر گزشتہ دنوں اس وقت سماعت ہوئی جب عدالتوں میں تعطیل چل رہی تھی۔ راقم الحروف کا ماننا ہے کہ چاہے مطلقہ خواتین کے مسائل ومشکلات ہوں یا تین طلاق کی ناروا روش، دونوں ہی سنگین مسئلہ ہیں اور دونوں مسئلوں پر ہمیں سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تین طلاق کے مسئلہ کو کس پلیٹ فارم پر حل کیا جائے؟ ظاہر ہے یہ مسئلہ مسلم پرسنل لاء سے متعلق ہے جس کے بارے میں آئین کی گائڈلائن ہے کہ مسلم پرسنل لاء میں نہ حکومتیں مداخلت کرسکتی ہیں اور نہ عدلیہ کو یہ حق ہے کہ وہ شریعت کے اصولوں کو تبدیل کرے، جس کا صاف مطلب ہے کہ سیاسی افراد یا جماعتیں اس کی اہل قطعاً نہیں کہ وہ مسلم پرسنل لاء کی تبدیلی کی بات کریں۔ اس لیے میری رائے ہے کہ مسلم پرسنل لاء کے جملہ امور کی تشریح وتوضیح کے لیے علما یا دارالقضا کو ہمیں اتھارٹی مان لینا چاہیے، البتہ مطلقہ خواتین کے مسائل اور ان کے دکھ درد میں شریک ہونے سے نہ وزیراعظم نریندر مودی کو کسی نے روکا ہے اور نہ وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو، ان کے لیے کرنے کا کام یہ ہے کہ وہ ہندوستان بھر کی مطلقہ عورتوں کی بازآبادکاری کے لیے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں۔ مطلقہ عورتوں کے لیے ماہانہ پنشن کی اسکیم بنائی جاسکتی ہے، پڑھی لکھی مطلقہ عورتوں کو امپاور کرنے کے لیے ملازمتوں میں ترجیح دی جاسکتی ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کو مطلقہ عورتوں کی ملازمت کے لیے کسی ضابطہ کا پابند بنایا جاسکتا ہے۔
جہاں تک تین طلاق کا معاملہ ہے اس پر قدغن لگنا چاہیے اور اس کے لیے جو بھی اخلاقی وقانونی ضابطہ بندی ہوسکتی ہے، اس کے لیے کوئی لائحہ عمل کی شدید ضرورت ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ اس کام کو منتخب علما کی جماعت یا مسلم پرسنل لاء بورڈ انجام دے۔ میرا ماننا ہے کہ جب اسلام میں سب سے برا اور ناپسندیدہ عمل طلاق ہے اور اس سے بھی زیادہ ناپسندیدہ بلکہ قابل نفرت عمل ایک مجلس میں تین طلاق ہے تو کیوں نہ اس مذموم عمل کو قابل مواخذہ بنایا جائے؟ جب تین طلاق کی سنگینی کے پیش نظر حضرت عمرؓ طلاق دینے والے کی پیٹھ پر کوڑے برسا سکتے ہیں تو آج کیوں نہیں ایسے لوگوں کا سماجی بائیکاٹ کیا جاسکتا ہے؟ کیوں نہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایک مجلس میں تین طلاق دینے والے لوگوں کے لیے کسی سزا کی تجویز پیش کرنی چاہیے؟ ان جیسے بہت سے سوالات ہیں جو وسیع تناظر میں بحث و تمحیص چاہتے ہیں اور ایک پائیدار حل کی جانب بڑھنے کا تقاضا کرتے ہیں۔
میرا سوال مسلم پرسنل لاء بورڈ یا سماج کی بااثر تنظیموں سے یہ بھی ہے کہ کوئی ایسی ونگ کیوں تشکیل نہیں دی جاتی جو مطلقہ خواتین کا راست جائزہ لے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش سماجی سطح پر کی جائے، ظاہر ہے جب مسلم سماج کے سر بر آوردہ افراد مطلقہ عورتوں کے تئیں ہمدردی کا اظہار نہیں کریں گے تو پھر یہ فطری ہے کہ وہ مودی یا یوگی کے پاس جاکر اسلام کی جگ ہنسائی کا سبب بنیں گی۔
(کالم نگار معروف اسلامی اسکالر اور ملت ٹائمز کے مستقل کالم نگار ہیں)