طلاق پر مسلمانوں کوسیاست نہ کرنے کی نصیحت کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی خود اس پر مسلسل سیاست کر رہے ہیں :مولانا ارشد مدنی

گؤ کشی روکنے کے لئے حکومت گائے کو ’ نیشنل اینیمل‘قرار دے

تین طلا ق کا مسئلہ علما ء سے ہی حل کرایا جائے

آسام شہریت تنازعہ میں 1971کو بنیاد بنایا جائے

گؤ رکشکوں کی غنڈہ گری پر قابو پایا جائیڈ
پریس کانفرنس کے دوران میڈیا سے مولانا ارشد مدنی کا خطاب
نئی دہلی (نسیم اختر؍ملت ٹائمز)
ملک بھر میں گائے کے تحفظ اور گؤ کشی روکنے کے لئے حکومت گائے کو ’ نیشنل اینیمل‘قرار دے اور ایک قانون بنا کر پورے ملک میں گائے کی ذبیحہ پر پابندی عاید کی جائے ،تین طلاق کا ایشو مسلمانوں کا مذہبی معاملہ ہے لہذا عدالت کو چاہئے کہ وہ اس مسئلہ کا حل علما ئے کرام پر چھوڑ دے، آسام میں شہریت کا تنازعہ ختم کرنے کے لئے 1971کو ہی بنیادبنایا جائے ،پنچایت سرٹیفکیٹ کو تسلیم کیا جائے اور ملک بھر میں فرقہ پرست قوتوں کے نکیل ڈالنے اورامن و امان قائم کرنے کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں ۔ یہ بات آج جمعیۃ علما ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی نے کانسٹی ٹیوشن کلب میں منعقد پریس کانفرنس کے دوران کہی ۔اس موقع پر جمعیۃ علما ہند کی آسام یونٹ کے صدر مولانا مشتاق احمد عنفراور معروف صحافی کلدیپ نیر بھی موجود تھے۔
مولانا سید ارشد مدنی نے کہا کہ گائے کی اسمگلنگ اور گؤکشی روکنے کی آڑمیں غنڈہ عناصر ملک کی کئی ریاستوں میں کھلے عام امن و امان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تباہ کر رہے ہیں۔ دودھ اور کاشتکاری کے لئے گائے بیل خریدنے والوں کو اسمگلر کہہ کر لوٹا جا رہا ہے ، ان سے مارپیٹ ہو رہی ہے اور اب تک سر عام کئی قتل ہو چکے ہیں لیکن ریاستی اور مرکزی حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ برادران وطن اپنے مذہبی عقائد کی بنیاد پر گائے کااحترام کرتے ہیں ۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم بھی ان کے مذہبی جِذبات کا احترام کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک بھر کہیں بھی گائے کا ذبیحہ نہ ہو ۔ ا سلئے حکومت کوچاہئے کہ جس طرح مور کو قومی پرندہ قرار دیا گیا ہے گائے کو قومی اینیمل قرار دیا جائے اور ایک قانون بنا کر پورے ملک میں گائے کی ذبیحہ پر پابندی عاید کی جائے تاکہ گؤ کشی کے نام پر بے قصور لوگوں کو زدو کوب کئے جانے کا سلسلہ ختم ہواور لوگوں کا جان و مال اور آبرو محفوظ رہ سکے۔ قانون میں یہ بھی واضح ہو کہ دودھ دینا بند کر دینے پر کوئی بھی گائے کی خرید و فروخت نہیں کر سکے گا ۔ نہ تو اسے کھایا جائے گا اور نہ ہی کسی اور مقصد کے لئے استعمال کیا جائے گا۔حکومت اس معاملے میں قانون بنائے ہم اس کے ساتھ ہیں لیکن اگر حکومت گؤکشی روکنے کے لئے ملک بھر کے لئے ایک قانون نہیں بناتی تو یہی سمجھا جائے گا وہ گائے کا احترام نہیں کرتی بلکہ گائے کی سیاست کر رہی ہے ۔ اس سلسلے میں ایک صحافی کے یہ کہنے پر ’’گائے کو قومی جانور قرار دینے کے لئے کافی وقت لگ سکتا ہے ‘‘، مولانا مدنی نے کہا کہ جب مودی جی رات کو آٹھ بجے ٹی وی پر آ کریہ اعلان کر سکتے ہیں کہ رات 12بجے کے بعد پانچ سو اور ہزار کا نوٹ بند ہو جائے گا اور وہ ہو جاتا ہے ، تو حکومت کے لئے قومی اینیمل قرار دینے میں کیا دقت ہے ؟حکومت چاہے تو کر سکتی ہے اور نہ کرنا ہو تو بہانے کتنے ہی کئے جا سکتے ہیں ۔
تین طلاق کے ایشو پر مولانا مدنی نے کہا کہ یہ مسلمانو ں کا اپنا مذہبی معاملہ ہے ۔ اگر کہیں کوئی خامی آ گئی ہے تو مسلم علما ء اور مسلم سماج اسے حل کرنے کے اہل ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے بابری مسجد کا مسئلہ حل کرنے کے لئے بات چیت کرنے کا مشودہ دیا اسی طرح وہ تین طلاق کے معاملہ میں بھی مسلم علما ء کو یہ مشورہ دے سکتا ہے کہ وہ خود اپنے طور پر ان چیزوں کوختم کریں جو ناقابل قبول ہیں ۔ایک اور سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں مسلمانوں کوسیاست نہ کرنے کی نصیحت کرنے والے وزیر اعظم نریندر مودی خود اس پر مسلسل سیاست کر رہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے دباؤ میں ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جیسے ہر مسلمان طلاق دیتا ہے اور ہر مسلمان عورت کوطلاق دی جا رہی ہے اور ہر مسلمان مرد چار شادیاں کرتا ہے ۔ جبکہ خود حکومت ہند کی2011کی مردم شماری کی رپورٹ اس بات کی گواہ ہے کہ ملک میں طلاق کا اوسط مسلمانوں میں سب سے کم ہے اور ہندوؤں میں مسلمانوں کے مقابلے طلاق کے معاملے کہیں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ دراصل مسئلہ تین طلاق کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ جس طرح ہندو اور عیسائی مرد طلاق دینے کے لئے عدالت کے مرہون منت ہیں، مسلمانوں کو بھی اسی دائرے میں لانے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ مسلم علماء اس معاملے میں سنجیدہ غور و خوض کر رہے ہیں اور اس پر قابو پانے کے لئے کوئی معقول حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
آسام ایشو پر بات کرتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ آسام میں شہریت کا تنازعہ 1985میں آْسام معاہدہ کے بعد ختم ہو گیا تھا لیکن اب بی جے پی نے اقتدار میں آتے ہی اسے آسام میں پھر ہوا دے دی اور عدالت نے پٹیشن درج کراکے مطالبہ کیا گیا کہ شہریت کی بنیاد 1951کو بنایا جائے ،جو قطعی نا مناسب ہے۔ جمعیۃ علما ہند کا واضح موقف ہے کہ شہریت کا تنازعہ 25مارچ1971کی بنیاد پر ہی کیا جائے ۔ انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت کے دباؤمیں ہی عدالت میں معاملے کو اس طرح سے پیش کیا گیا کہ ہائی کورٹ نے پنچایت سرٹیفکیٹ کو خواتین کی شہریت کا ثبوت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ۔اس کے علاوہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے کام کو 90فی صد مکمل ہوجانے کے باوجود روک دیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ آسام میں مسلمانوں کے ساتھ مسلسل نا انصافیاں کی جا رہی ہیں اور ان کے ساتھ متعصبانہ رویہ اختیار کیا جا رہا ہے ۔مولانا مدنی نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چونکہ گاؤوں میں پہلے لڑکیاں اسکول نہیں جاتی تھیں اس لئے ان کے پاس پیدائش کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ہوتا تھا ۔ اس لئے شادی ہونے پر انہیں گاؤں کا پردھان یہ سرٹیفکیٹ دیتا تھا کہ وہ فلاں شخص کی بیٹی ہے اور وہ جس گاؤں میں شادی ہو کر جاتی تھی وہاں کا پردھان اس کی تصدیق کر دیتا تھا اور یہ سلسلہ دہائیوں سے چلتا آ رہا ہے جسے اب بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ختم کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے 48لاکھ خواتین کے سر پر شہریت کی تلوار لٹک گئی ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 1971کی ووٹر فہرستوں کی بنیاد پر اب تک لوک سبھا اور ریاستی اسمبلی کے کئی الیکشن ہوچکے اور حکومتیں بن چکی ہیں ۔ موجودہ حکومت بھی اسی ووٹر فہرست کی بنیاد پر بنی ہے لیکن جن لوگوں نے اسے ووٹ دے کر اقتدار سونپا اب ان ہی لوگوں کو ملک بدر کرنے کی سازش کی جا رہی ہے۔ واضح ہو کہ ان 48لاکھ خواتین میں 20لاکھ ہندو بنگالی ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نہ بی جے پی کو ووٹ دئے ہیں۔ مولانا مدنی نے کہا کہ میڈیا کوچاہئے کہ اس ایشوکو صحیح تناظر میں ملک کے سامنے رکھے تاکہ آسام کے لوگوں کو انصاف مل سکے۔
اجودھیا تنازعہ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کا کوجواب دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ اس ایشو پر سات مرتبہ بات چیت ہو چکی ہے اور نتیجہ ہمیشہ صفر نکلا ہے کیونکہ فریقین اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو قطعی تیار نہیں ہیں ۔ ا نہوں نے کہا کہ یہ ملکیت کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ عدالت ہی کر سکتی ہے ۔ہمیں امید ہے کہ سپریم کورٹ آئین و قانون کے وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا فیصلہ سنائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ کرے گا ہمیں قبول ہوگا۔اتر پردیش کی موجودہ صورتحال پر مولانا نے کہا کہ سہارنپور میں حال ہی میں جو واقعہ پیش آیا وہ بہت افسوسناک ہے ۔ ایک طبقہ کے لوگوں کے مکانات کو پھونک دیا گیا ۔ دراصل کچھ قوتوں کے دماغ میں یہ بات ہے کہ ان کی حکومت ہے اس لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں ۔ مولانا نے کہا کہ گائے اسمگلنگ کرنے کے الزام میں پیٹ پیٹ کر بے قصور لوگوں کو مار ڈالنے کے واردات سے لوگوں میں زبردست خوف و ہرا س کا ماحول ہے۔ حکومت کوچاہئے کہ وہ غنڈہ عناصر پر قابو پانے اور امن و امان کے قیام کے لئے سخت اقدامات کرے۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ شریعت کی تشریح صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جو عالم ہوں ۔ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ آپ کسی بھی داڑھی والے کو ٹوپی پہنا کر چینل پر بیٹھا دیں اور وہ شریعت بیان کرنے لگے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ سیاسی شخض نہیں ہوں اور نہ ہی کسی وزیر اعظم سے ملنے جاتا ہوں البتہ اگر وزیر اعظم چاہیں اور بلائیں تو جانے میں کوئی پرہیز نہیں ہے لیکن بلا وجہ خود جا کر ملنے کے حق میں نہیں ہوں۔ کشمیر کے ایشو پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے مولانا مدنی نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ بات چیت سے ہی حل کیا جا سکتا ہے ۔ ہمیں صرف کشمیر کو ہی نہیں بلکہ کشمیریوں کو بھی ملک کا اٹوٹ حصہ سمجھنا ہوگا ۔ کشمیریوں کا دل جیت کر ہی وادی میں امن قائم کیا جا سکتا ہے ۔طاقت یا بندوق کی نوک پر قیام امن ممکن نہیں ۔یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے جو بات چیت سے ہی حل ہوگا اور ا سکے لئے تمام کشمیری گروپوں سے مذاکرات کرنے ہوں گے۔انہوں نے کہاکہ جونوجوان گمراہ ہیں انہیں راہ پر لانے کے لئے ان کے مسائل کو حل کرناہوگا اور انکے درد کوبھی سمجھنا ہوگا۔
سپریم کورٹ میں اجودھیا تنازعہ اور تین طلاق کے ایشو پر روزانہ سماعت جاری رکھنے کے فیصلے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت کو رام مندر اور تین طلاق کی ہی زیادہ فکر ہے جبکہ دہشت گردی کے فرضی الزامات میں متعدد مسلم نوجوان برسوں سے جیلوں میں بند ہیں اور ان کے مقدمات تک شروع نہیں ہوئے ہیں ، آخر ان کے مقدمات کی بھی روزانہ سماعت کراکے فیصلے کیوں نہیں کئے جاتے ۔ ملک میں اور بھی بہت سے سنگین مسائل ہیں جو رام رام مندر اور تین طلاق سے زیادہ اہم ہیں ۔ سپریم کورٹ کو ان معاملات میں بھی سو موٹو لینا چاہئے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حکومت اور بی جے پی کے لوگوں کی دیش بھکتی اسی وقت کیوں جاگتی ہے جو کشمیر میں کوئی جوان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہوتا ہے ،اس وقت یہ دیش بھکتی کہاں چلی جاتی ہے جب نکسلی سی آر پی ایف کی پوری کی پوری ٹکڑی کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں؟ ان شہادت پر معاوضہ کا علان کیوں نہیں کیا جاتا ؟ ایسا کر کے کیا حکومت سیکورٹی اہلکاروں میں بھی تفریق نہیں برت رہی ہے ؟۔ ہمارا نظریہ بہت کھلا ہوا ہے کہ ہم ہر ظلم و تشدد اور بد امنی کے خلاف ہیں اور اس کو ملک کے لئے انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں ، چاہے اس کا محرک نکسلی نظریہ ہو یا کشمیری ۔ مولانا مدنی نے کہا کہ حکومت کوچاہئے کہ ملک میں اقلیتوں کے دل میں موجود خوف و ہراس کو دور کرنے کے لئے عملی اقدامات کرے اورہندو شدت پسند تنظیموں کے کارکنان کے خلاف سخت کارروائی جائے تاکہ فرقہ وارانہ منافرت کوپھیلنے سے روکا جا سکے ۔