پاکستان میں بھی طلاق ثلاثہ نافذ، مسلم پرسنل لاء میں مداخلت انٹرنیشنل کونویشن میں کیے گئے وعدہ کی خلاف ورزی ہوگی
نئی دہلی(ملت ٹائمز)
سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ پرجاری بحث کے پانچویں دن آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وکیل اعجاز مقبول نے کہا “کہ اسلام میں نکاح محض فریقین کے درمیان ایک عقد ہے اور عورت کو حق ہے کہ وہ اپنی شرائط کے ساتھ یہ عقد کرے”۔ انھوں نے کہا کہ “عورت کے پاس چار راستے ہیں، وہ اسپیشل میرج ایکٹ کے تحت نکاح کرے، اس صورت میں زبانی طلاق واقع ہی نہیں ہوگی، دوسرا اختیار یہ ہے کہ عورت نکاح نامے میں یہ شرط لگا سکتی ہے کہ مرد اس کو 3 طلاق نہیں دے گا۔ تیسرا راستہ طلاق تفویض کا ہے عورت خود بھی 3 طلاق دینے کا اختیار حاصل کر لے اور چوتھی بات یہ ہے کہ وہ یہ شرط لگا سکتی ہے کہ طلاق ثلاثہ دیے جانے کی صورت میں مہر کی رقم بطور جرمانہ کے بڑھ جائے گی”۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل یوسف ہاشم مچھالا نے عدالت میں بورڈ کی منظور کردہ قرارداد بھی پیش کی جس کے مطابق “طلاق ثلاثہ ایک گناہ ہے اور جو اس کا ارتکاب کرے اس کا سماجی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے”۔
بورڈ کے وکلا کے بعد جمعیت علمائے ہند کے وکیل رام چندرن نے عدالت کے سامنے ایک مضبوط دلیل پیش کی کہ ہندوستانی مسلمانوں کی اکثریت کے مسلک کے مطابق تین طلاق کے بعد شوہر بیوی کا ساتھ رہنا درحقیقت زنا ہے جو کہ ایک سنگین گناہ ہے۔ عدالت طلاق ثلاثہ کو کالعدم قرار دے کر ایک مسلمان کو گناہ پر مجبور نہیں کرسکتی۔ ایک سیکولر کورٹ مسلمان کو یہ حکم بھی نہیں دے سکتی کہ وہ دوسرا مسلک اختیار کرلے
سینئر وکیل ایڈوکیٹ وی گری ، شکیل احمد سید، نیاز احمد فاروقی ، مجیب الدین خاں، عظمی اورمحمدپرویز عدالت کی آئینی بنچ کے روبر و ہوئے اور انھوں نے جمعےۃ علماء ہند کا موقف تحریری طور سے پیش کیا۔جمعےۃ علماء ہند نے اپنے موقف میں واضح طور سے کہا ہے تین طلاق قرآن وحدیث دونوں حوالوں سے ثابت ہے جس کی تشریح و نفاذ معتبر اور مستند علماء کے ذریعے کافی تحقیق کے بعدہو اہے ۔جمعےۃ کے وکلاء نے اس بات کو مضبوطی سے پیش کیا کہ عدالت اس سلسلے میں نہ تو ترمیم کرسکتی ہے او رنہ تشریح ۔کیوں کہ شریعت ایپلی کیشن ایکٹ 1937 section-2 کے مطابق اگر دونوں پارٹیاں ( زوجین ) مسلمان ہوں تو نکاح و طلاق وغیرہ کے کسی مسئلے میں اختلاف کی صورت میں وہ مسلم پرسنل لاء کے مطابق ہی فیصلہ حاصل کرنے کے مجاز ہوں گی۔ مذکورہ ایکٹ میں یہ مطلق لکھا ہے کہ فیصلہ شریعت کے مطابق ہو گا ،تاہم تفصیل سے کسی قانون کا ذکر نہیں ہے، ایسی صورت میں عدالت کوکسی طرح کی تبدیلی و تشریح کا کوئی حق نہیں ہے ، ہاں جہاں باضابطہ قانون ہو وہاں عدالت کے لیے مداخلت کی گنجائش رہتی ہے ، مثلاوقف ایکٹ وغیرہ میں باضابطہ قانون بنا ہوا ہے اور اس کاکلاز وائز ذکر بھی ہے۔جمعےۃ کے وکلاء نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ حدیث میں ہونا بھی کسی مسئلے کے ثبوت کے لیے کافی ہے ، کیوں کہ قرآن وحدیث دونوں شریعت اسلامی کے اصل مراجع ہیں ۔ تاہم جمعےۃ علماء ہند یہ بات آن ریکارڈ پیش کرتی ہے کہ طلاق ثلاثہ ( طلاق بدعت ) کاذکر براہ راست قرآن میں بھی موجو د ہے، قرآن میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 230 بطو ر حوالہ پیش کیا جاتا ہے ۔ گوکہ شارحین قرآن نے اس کی تشریح میں اختلاف کیا ہو لیکن عدالت کسی خاص شارح کی شرح کے مطابق فیصلہ کرتی رہی ہے ۔ لہذا جمعےۃ علما ء ہند، آئینی بنچ کے سامنے اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے یہ بات پیش کرتی ہے کہ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہے اور یہ کہنا غلط ہوگا کہ قرآن اس کے ذکر سے خالی ہے۔جمعےۃ علماء ہند کے موقف کے سلسلے میں بات کرتے ہوئے ایڈوکیٹ شکیل احمد سید اور نیاز احمد فاروقی نے کہا کہ آج مسلم پرسنل لاء کے حق میں دلائل پیش کرنے کا آخری دن تھا۔دوسری طرف اٹارنی جنرل ودیگر وکلاء جواب الجواب پیش کرنا شروع کرچکے ہیں ، جس کی شنوائی کل بھی جاری رہے گی ۔ شکیل احمد سید نے کہا کہ ہم نے جج صاحبان کے کہنے پر زبانی گفتگو کے بجائے تحریری موقف پیش کیاہے ، جمعےۃ کے وکلاء پچھلے پانچ دنوں سے یہاں سپریم کورٹ میں مسلسل حاضر ہورہے ہیں اور پورے معاملے پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ۔ادھر جمعےۃ کی طرف سے موقف پیش کیے جانے پر مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند نے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جمعےۃ علماء ہند سپریم کورٹ پر اعتماد کرتی ہے اور امید کرتی ہے کہ کسی خارجی دباؤ میں آکر مسلم پرسنل لاء میں مداخلت نہیں کی جائے گی ۔ مولانا مدنی نے کہا جمعےۃ علماء ہند یہ مانتی ہے کہ نکاح اور طلاق کے سلسلے میں ہمارے اندر ا یسی رسومات داخل ہو گئی ہیں جو شریعت اسلامی کے احکام کے بالکل خلاف ہیں ۔ ہم ان رسومات کے خلاف جد وجہد کررہے ہیں ، ہم یہ مانتے ہیں کہ عورتوں کی عزت نفس کا بہتر بہتر طریقے سے اسلامی قوانین میں خیال رکھا گیا ہے ، اس لیے کسی اضافی قانون کی ضرورت نہیں ہے ۔
جمعیۃ علما ہندء کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجو رام چندرن نے بحث کی اور پانچ رکنی بینچ کو بتایا کہ ہندوستان میں حنفی مسلک کے ماننے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور حنفی مسلک کے مطابق ایک بار میں دی گئی تین طلاق قابل عمل ہے اور اسے تین طلاق مانا جاتا ہے حالانکہ اسے علماء نے معیوب قراردیا ہے اور علماء اور دانشور ہمیشہ اس عمل سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں ۔نیز یہ ایک قانونی پالیسی ہے جسے عدالت کے دائرۂ اختیار سے باہر تسلیم کیا جانا چاہئے ،کیونکہ اس سے قبل کئی عدالتیں اس پر نظر ثانی کر چکی ہیں اورمسلم پرسنل لاء آئین ہند سے مختلف ہے ۔ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کوقرآن کریم ، کئی مستند احادیث اور متعدد فقہی جزئیات کا حوالہ دیتے ہوئے طلاق ثلاثہ کو جائز قرار دیا اور کہا کہ یہ کہنا درست ہیکہ قرآن شریف میں طلاق ثلاثہ کے مطابق کچھ لکھا نہیں ہے لیکن مستند احادیث سے یہ ثابت ہے کہ طلاق ثلاثہ کا وجود ہے اور احادیث سے اس کا ثبوت ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کوضروری ہے۔ایڈوکیٹ راجو رام چندر نے چیف جسٹس آف انڈیا جگدیش سنگھ کہر کی سربراہی والی پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس کورین جوزف، جسٹس روہنتن فالی نریمان، جسٹس ادئے امیش للت اور جسٹس عبدالنظیر شامل ہیں کو بتایا کہ مسلم پرسنل لاء کوقانونی حیثیت حاصل ہے نیز ’’ریفارم‘‘ کے نام پر شریعت میں ترمیم نہیں کی جاسکتی ہے نیز انہوں نے عدالت کو مزید بتایا کہ طلاق ثلاثہ کی مخالفت کرنے والے گروپ نے عدالت میں ایسا کوئی بھی جواز پیش نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ یہ عمل غیر اسلامی اور غیر شرعی ہے بلکہ انہوں نے بس مسلم خواتین پر ظلم ہورہا ہے کا ہوا کھڑا کیا ہے ۔ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے عدالت کو بتایا کہ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل کے اس دلیل سے اتفاق کرتے ہیں کہ ۱۴؍ سو سالوں سے زائد عرصہ جاری اس پریکٹس کو یوں ہی ختم نہیں کیا جاسکتا نیز آج حکومت کو مسلمانوں کو درپیش دیگر مسائل دیکھائی نہیں دیتے بس انہیں طلاق ثلاثہ ہی ستائے جارہا ہے ۔ ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے کہا کہ عدالت کا کام صرف یہ دیکھنا ہے کہ مذہب کے نام پر کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی جارہی ہے نا کہ کسی مخصوص مذہبی عقائید پرپابندی عائد کرنا ، اگر عدالت ایسا کرنے لگی تو ہندوستان میں بسنے والی دیگر قوموں کی ایسی مذہبی رسومات کو ختم کرنا ہوگا جس سے کسی نہ کسی کی دل آزاری ہوتی ہو ۔دوران بحث ایڈوکیٹ راجو رام چندرن نے ہائی کورٹ کے مختلف حکمناموں کے ساتھ پڑوسی ملک پاکستان سپریم کورٹ کے طلاق ثلاثہ پر دیئے گئے فیصلوں کی نقول کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کے رائٹروں کے آرٹیکلس بھی پیش کیئے جس میں انہوں نے طلاق ثلاثہ کو جائز قرار دیا ہے ۔انہوں نے کہاکہ انٹرنیشنل کونویشن میں ہندوستان نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ کسی بھی کمیونٹی کی مرضی کی بجائے خواتین اور دیگر لوگوں کے حق میں فیصلہ نہیں کیا جائے لہٰذا اس معاملے میں ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں حنفی مسلک کے ماننے والوں کا یہ یقین ہے کہ ایک مرتبہ میں دی گئی تین طلاق تین طلاق ہوجاتی ہے اور اس کے بعد اس میں کوئی گنجائش نہیں بچتی ۔معاملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے مزید کہا کہ سال ۰۱۵ ۲ میں سپریم کورٹ آف انڈیا نے اس معاملے میں از خود ’’سو موٹو‘‘ پٹیشن کی سماعت کرنے کے احکاما ت جاری کیئے تھے جس کے بعد صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر صدر جمعیۃ علماء مہاراشٹر مولانا مستقیم احسن اعظمی نے طلاق ثلاثہ ،حلالہ اور تعدد ازدواج کی حمایت میں سب سے پہلے فروری ۲۰۱۶ میں عدالت عظمی سے رجوع کیا تھا جس کے بعد دیگر مسلم تنظیمیں بشمول مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر نام نہاد مسلم خواتین کے حقوق کا دعوی کرنے والی تنظیمیں بھی آگے آئیں تھیں ۔