نئی دہلی (ملت ٹائمز)
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ جناب کپل سبل صاحب اطمینان بخش طریقہ پر تین طلاق اور مسلم پرسنل لا کے کیس کو سپریم کورٹ میں پیش کررہے ہیں ، کورٹ یہ جاننا چاہتا تھا کہ کیا تین طلاق کا مسئلہ مذہب کا ایسا بنیادی حصہ ہے جو مذہبی آزادی کے دائرے میں آتا ہو اور جو مسلمانوں کے یقین کا حصہ ہو؟ اس پس منظر میں انہوں نے کہا کہ جب کسی عورت پر تین طلاق واقع ہوجاتی ہے تو شرعا وہ مرد پر حرام ہوجاتی ہے، اورحرام کو حرام سمجھنا مسلمانوں کے اعتقاد اور یقین کا حصہ ہے، کیوں کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ حرام وحلال کرنا اللہ تعالی ہی کا حق ہے، اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو کوئی انسان حلال نہیں کرسکتا، اسی ضمن میں انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ جیسے ہندو شری رام جی پر یقین رکھتے ہیں اور ان کا یقین ہے کہ وہ ایودھیا شہر میں پیدا ہوئے تھے، اسی طرح اس مسئلہ کو بھی سمجھا جاسکتا ہے ، انہوں نے بابری مسجد کی جگہ پررام جی کے پیدا ہونے کا ذکر نہیں کیا، بلکہ صرف ایودھیا شہر کا ذکر کیا، اس سے نہ ہمارے موقف کی خلاف ورزی ہوتی ہے اور نہ اس بات کا اظہار ہوتا ہے ہے کہ بابری مسجد کو رام جنم بھومی تسلیم کرلیا جائے، کسی کا ایودھیا شہر کو رام کی جائے پیدائش ماننا الگ بات ہے اور بابری مسجد کی جگہ کو جائے پیدائش قرار دینا دوسری بات ہے، بورڈ کا موقف واضح ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ حق ملکیت کا مسئلہ ہے نہ کہ عقیدہ کا، جب معاملہ دو الگ مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان نزاع کا ہو تو فیصلہ قانون کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ عقیدہ اورآستھا کی بنیاد پر، مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل نے یہ بات نہیں کہی ہے کہ قرآن مجید میں تیسری طلاق کا ذکر نہیں ہے ، بورڈ نے اپنے حلف نامہ میں بھی لکھا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت (۰۳۲)میں تیسری طلاق کا ذکر موجود ہے، البتہ ایک ساتھ تین طلاقوں کا صراحتا تذکرہ قرآن میں نہیں ہے، لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قرآن مجید کی شرح اور شریعت کا دوسرا اہم ترین ماخذہے، اور متعدد حدیثوں میں صراحتا ایک ساتھ تین طلاق دینے اور اس کے واقع ہوجانے کا ذکر موجود ہے، بورڈ اس مقدمہ کے سلسلے میں کس قدر سنجیدہ ہے اور اسے اہمیت دیتا ہے؟ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس وقت بورڈ کے جنرل سکریٹری حضرت مولانا سید محمد ولی رحمانی اپنے دوسکریٹریز راقم الحروف اور مولانا فضل الرحیم مجددی نیز لیگل کمیٹی کے کنوینر سپریم کورٹ کے سینئرایڈوکیٹ جناب یوسف حاتم مچھالا کے ساتھ دہلی میں قیام کئے ہوئے ہیں، سپریم کورٹ کے وکلا اور علماء کا ایک پینل بنا دیا گیا ہے جو روز عدالتی کاروائی کو سامنے رکھ کر مشورہ کرتا ہے اور بحث کرنے والے وکلاء کو قانونی اور شرعی نقطہ نظر سے مواد فراہم کرتا ہے،نیز اس نے شروع سے جمعیۃ علماء ہند کے مقرر کئے ہوئے وکلاء سے بھی رابطہ رکھا ہے، تاکہ مسلمانوں کا متفقہ موقف کورٹ کے سامنے پیش کیا جائے ، اس بات کی بھی وضاحت مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بورڈ نے عدالت میں یہ موقف حنفی نقط نظر سے اور احناف کیلئے پیش کیا ہے، اہل حدیث اور شیعہ حضرات کے نزدیک ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی ہے، بورڈ نے ان پر فقہ حنفی کو نافذ کرنے کی بات نہیں کہی ہے، بورڈ کا شروع ہی سے یہ موقف رہا ہے کہ اس مسئلہ میں جن حضرات کا جو موقف ہو، ان کے موقف کے مطابق مقدمات فیصل کئے جائیں۔
اس لئے مسلم قائدین اور برادران اسلام سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں اور اس وقت امت میں اتحاد کی جو فضا پیدا ہوئی ہے، اس کو نقصان پہنچانے کا سبب نہ بنیں۔