یوں سینہ گیتی پر روشن، اسلاف کا یہ کردار رہے-میرے استاذ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ

یاسر ندیم الواجدی

آج سے چار دہائیوں پہلے جب حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری نور اللہ مرقدہ نے اپنے اساتذہ اور اساتذہ کے اساتذہ کے لیے یہ شعر کہا تھا تو شاید انھیں یہ اندازہ نہیں ہوگا کہ آگے چل کر وہ خود ان اکابر کی صف میں شامل ہوجائیں گے جنھوں نے اپنے کردار وعمل سے نسلوں کو متاثر کیا ہے۔ آج جب مجھے حضرت کے انتقال کی خبر ملی تو ذہن کے پردے پر ان کا یہ تاریخی شعر خود نمودار ہوگیا۔ ابھی دارالعلوم دیوبند کے روحانی فرزندان شیخ عبد الحق رحمہ اللہ کے حادثہ وفات سے ابھرے نہیں تھے کہ اس خبر نے انھیں ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اسے بھی عجیب اتفاق کہیے کہ جس وقت مجھے حضرت کی وفات کی اطلاع ملی اس سے چند لمحے پہلے ہی میں نے معہد تعلیم الاسلام شکاگو کے دورہ حدیث کے طلبہ کو ان کی درخواست پر اجازت حدیث دی تھی۔ اپنے اساتذہ کا فخر سے نام لیتے ہوے میں نے کہا تھا کہ میں نے ابن ماجہ پڑھی ہے اپنے استاذ حضرت مولانا ریاست علی حفظہ اللہ سے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ جس وقت میں ان کا نام نامی لے رہا تھا وہ جوار رحمت میں جا چکے تھے۔ تصور کیجیے کہ حضرت کی روحانی اولاد در اولاد دنیا میں کہاں کہاں پھیلی ہوئی ہے۔چند ماہ پہلے جب میں دیوبند گیا تو پڑوس میں واقع حضرت کے مکان پر بھی حضرت کی عیادت کے لیے جانا ہوا تو فرمانے لگے کہ “بس بیٹے چل چلاؤ کا وقت ہے”۔ دو مہینے بھی نہیں گزرے اور حضرت منہ موڑ کر چل دیے۔

آج جب میں حضرت کے ساتھ بتائے ہوئے لمحات کو کریدنے بیٹھا تو واقعات ذہن میں آتے چلے گئے۔ مجھے یقین ہے کہ شفقتوں کے اس پہاڑ نے مجھے ہی گراں بار نہیں کیا تھا بلکہ مجھ جیسے ہزاروں لوگ اپنے اوپر ناز کرتے ہوں گے کہ انھیں بھی اپنے استاذ کی شفقت ومحبت کا بڑا حصہ ملا ہے۔ مجھے یاد ہے تکمیل ادب کے سال میں طلبہ دارالعلوم میں کسی واقعے کو لیکر زبردست انتشار ہوا، کوئی درسگاہ جانے کو تیار نہیں تھا اور نہی اساتذہ پڑھانے آئے۔ اچانک دیکھا کہ حضرت مولانا ریاست علی درسگاہ کی طرف چلے آرہے ہیں۔ ہم چھ سات طلبہ ہی رہے ہوں گے، انھوں نے اس طرح پڑھایا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو، پھر فرمایا کہ شیخ الادب مولانا اعزاز علی فرمایا کرتے تھے کہ اگر طلبہ میں انتشار ہو تو اس کو ختم کرنے کا سب سے آسان طریقہ ہے کہ پڑھانا شروع کردو۔ یہی ہوا کہ تین چار گھنٹوں کے بعد حالات معمول پر آگئے۔ 
2003 میں، جب میری پہلی کتاب گلوبلائزیشن اور اسلام آئی تو حضرت کی خوشی دیدنی تھی۔ مجھے دارالحدیث کی راہداری میں مولانا سلمان بجنوری صاحب ملے تو کہنے لگے کہ “مولانا ریاست صاحب نے انھیں فون کرکے اس کتاب کے بارے میں بتلایا ہے، حضرت نے تمہیں بڑی دعائیں دی ہیں”۔

حضرت مولانا کا ہمارے خاندان سے بہت پرانا تعلق تھا۔ ایک دن درس میں کہنے لگے کہ “تمہارے پردادا حضرت مولانا احمد حسن نے مجھے نگاہ کے لیے ایک دعا بتلائی تھی، میرا اس دن سے معمول ہے میں ہر نماز کے بعد وہ دعا پڑھتا ہوں”۔ حضرت نے ہمیں بھی وہ دعا بتائی جو میں نے اپنی کسی کاپی میں لکھ لی تھی۔حضرت مولانا میرے دادا حضرت مولانا واجد حسین رحمہ اللہ کے دوستوں میں سے تھے۔ دو ماہ پہلے جب والد محترم مولانا ندیم الواجدی نے دادا کی سوانح حیات لکھی، تو اس کی تقریب اجرا کے لیے انھوں نے اپنے والد کے دوست مولانا ریاست علی رحمہ اللہ کو زحمت دی۔ حضرت آئے اور اپنے ضعف ونقاہت کے باوجود دیر تک گفتگو کی اور اپنے مرحوم دوست کو خراج عقیدت پیش کیا۔

حضرت صرف میرے دادا کے ہی دوستوں میں سے نہیں تھے، میرے نانا حضرت مولانا قاری عبداللہ سلیم صاحب کے درسی ساتھی بھی تھے۔ انھوں نے خود مجھے بتایا کہ “میں اور تمہارے نانا، حضرت مولانا وحید الزماں کیرانوی رحمہ اللہ کے کمرے میں عربی ادب پڑھنے جاتے تھے، حضرت مولانا وحید الزماں اس وقت علیا درجات میں پڑھتے تھے اور ہم نچلے درجات میں زیر تعلیم تھے”

گزشتہ چند سالوں کے درمیان، ہماری نسل نے اسلاف کے جن جانشینوں کو چلتے پھرتے دیکھا تھا وہ آہستہ آہستہ اس سینہ گیتی سے اٹھتے چلے جارہے ہیں، اب ہمارے پاس ان کا فیض حاصل کرنے کے لیے صرف ان کا روشن کردار ہی بچا ہے۔ ان نفوس قدسیہ کو بہترین خراج عقیدت یہی ہوگا کہ ہم نے ان سے جو کچھ سیکھا ہے ہم اسے سینے سے لگائے رکھیں اور علم وعمل نیز کردار وأخلاق میں ان جیسا بننے کی کوشش کریں اور اسی شعر کے دوسرے مصرعے کو اپنی دعاؤں میں شامل کرلیں۔ 
“آنکھوں میں رہیں انوار حرم، سینے میں دل بیدار رہے”


(مضمون نگار معروف اسلامی اسکالر اور دارالعلوم آن لائن شکاگو کے استاذحدیث ہیں)