قاسم سید
جب کوئی ذات کے حصار میں قید ہوجائے تو پھر صرف اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ خودغرضیوں کے سارے پرندے ان کی منڈیر پر آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ انانیت کا سیلاب انکساری و عاجزی کے تمام باندھ توڑکر دوسروں کی کھیتیاں تہ و بالا کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا اور خدانخواستہ انانیت اعلیٰ ترین مسند پر فائز ہوجائے تو تکبر اور گھمنڈ کے لات و منات تقدس مآب بن جانے میں خجالت محسوس نہیں کرتے، جس پر عقیدت مندان جانثاری و وفاداری کے گلہائے دیوانگی چڑھاتے ہیں۔ یہ دیگر انسانوں سے ہر لحاظ سے ممیز، ان کی عادات و اطوار معصوم عن الخطا، ان کے فیصلے پاک صاف، ان کے بیانات زم زم کی طرح شفاف، ان کے اقوال پتھر کی لکیر، ان کے پرستاروں، وفاداروں اور عقیدت مندوں کی فوج ایسے تمام عناصر کی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہے جن کی گردن کی رگیں بقول مولانا ابوالکلام آزاد زیادہ سخت ہوتی ہیں اور اطاعت و فرماں برداری کو ذہنی غلام سے دور رکھتے ہیں۔ اختلاف کے ساتھ لب کشائی کرنے والوں کی حرکات و سکنات کی نگرانی کے ساتھ ان کا منھ توڑ جواب دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رکھا جاتا ہے، خاص طور سے سوشل میڈیا پر ایسے تربیت یافتہ رنگروٹ تعینات کئے جاتے ہیں جنھیں گالی گلوچ سے بھی گریز نہیں ہوتا۔ ہر وہ مہذب گالی جو کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ ہو دینے میں حددرجہ فراخ دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ وہ فاسق، فاجر، منافق، زندیق، قوم و ملت کا غدار، سرکاری ایجنٹ اور حکمراں جماعت کا دلال تک بنادیا جاتا ہے اور یہ تمام حرکتیں دین کے تحفظ اور ملک و ملت کی فلاح کی خاطر کی جاتی ہیں تاکہ ایسے لوگوں سے معصوم ملت کو باخبر رکھا جاسکے، ان کا کوئی ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔ سوشل میڈیا کے تمام سیاروں کی سیر کرلیجئے، اختلاف رکھنے والوں کو جس زبان و بیان سے نوازا جاتا ہے یقین نہیں ہوتا کہ یہ اس امت کا حصہ ہیں جس کے نبیؐ نے اخلاق کریمہ پر سب سے زیادہ توجہ دی۔ دلآزاری سے بچنے اور دشمنوں کا بھی احترام کرنے کی تلقین کی۔ آسمان کی رفعتوں کو چھولینے والی یہ بلند و بالا شخصیات اپنے اردگرد تقدس، عظمت و سطوت اور شہنشاہیت کا ایسا پاکیزہ ہالہ بنالیتی ہیں کہ اس کے آس پاس جانے والا اپنے پروں کو جلا بیٹھتا ہے۔ یہ دیواریں اتنی اونچی ہوتی ہیں ان سے سر ٹکرانے والے کو اس کی سنگین غلطی کا ’اچھے انداز‘ میں احساس کرادیا جاتا ہے۔ اور ظاہر ہے جب کوئی اپنی بلند بالا معصوم عن الخطا ذات کے حصار میں قید ہو تو وہ دوسروں کے بارے میں بھلا کیسے سوچ سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ اکابرپرستی کی بھیانک ترین مہلک بیماری میں مبتلا ہے اور اس کا دائرہ لگاتار پھیلتا جارہا ہے اس کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ یہ جراثیم شہد کی مکھیوں کی طرح پالے جارہے ہیں۔ مریدوں کے حلقے عدم برداشت کی صلاحیت سے مالامال ہیں۔ اس حلقہ بندی نے گروہ بندی کی شکل لے لی ہے۔ ہر چار قدم پر موجود یہ گروہ بند حلقےمسلمانوں کی اجتماعی طاقت کا گھن بن گئے۔ بالادستی کے زعم میں شریعت کو پیچھے ڈال دیا ہے اور یہ خوف بڑھتا جارہا ہے کہ مسلکی بنیاد پر افرادی قوت بڑھانے کی دیوانگی شریعت کو بازیچہ اطفال نہ بنادے، گالیاں ذہنی افلاس اور دلائل کے دیوالیہ پن کی علامت ہوتی ہیں جن کے پاس کوئی کام نہیں وہ بغیرمحنتانہ اس میں لگادیے جاتے ہیں، اس سے ذات کے حصار میں قید شخصیات کی ذہنی تسکین کا سامان ہوتا ہے۔ لایعنی مباحث اور فقہی دلائل سے ایک دوسرے کے سر پھوڑنے کے رجحان میں اضافہ نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہمارے پاس وقت کی کمی نہیں ہے اور اچھے کام کرنے و مثبت تعمیری سوچ کے لئے وقت نہیں۔ اکابرپرستی کے مرض اور مسلکی انتہاپسندی نے صحیح و غلط کی لکیر مٹادی ہے۔ کوئی طبقہ، کوئی فرقہ کوئی مسلک اس بیماری سے الگ نہیں۔ تعریف و توصیف کے وقت معقولیت، اعتدال و توازن کی ہوائوں کا گزر نہیں ہوتا، یہاں صرف اندھی عقیدت کی ہوائیں چلتی ہیں۔ ذہنی ساخت اس قدر تنگ اور خودپسندی کا جال ایسا کہ قوت برداشت کی برف ذرا سی نکتہ چینی کی گرمی سے سیال بن جاتی ہے۔ یہ تصور محال ہے کہ جو ہمارا محبوب ہے، جس سے بے پناہ عقیدت ہے جن کی تحریریں حوالوں کے لئے چن لی ہیں اور زندگی کی کتاب معتبر بنالیا ہے۔ نعوذباللہ اس میں بشری کمزوری بھی ہوسکتی ہے وہ کوئی غلطی کرسکتا ہے، اس کے فیصلے نقصان دہ بھی ہوسکتے ہیں۔ اس کا تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ مخالفت یا حمایت کی بنیاد دلائل و حقائق اور منطقی نتائج پر کم اور ذاتی پسند و ناپسند پر زیادہ ہوتی ہے۔ اگر کسی کے تعلق سے بدگمانیاں ہیں وہ فرد یا جماعت ہر قسم کی معقولیت سے محروم ہے، اس کی ہر بات غلط اور گمراہ کن، وہ سماجی بائیکاٹ کے لائق، اس کا آب و دانہ بند ہوجانا چاہئے، اس کی ہر صحیح بات بھی جھوٹ، جبکہ ہر پسندیدہ شخصیت کا ہر کلمہ کلمہ حق لگتا ہے، اس کی خامیوں کے لئے معقول عذر تلاش کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں ہوتی۔ اس افراط و تفریط نے ہمارے ضمیر کو لہولہان کردیا ہے اور اجتماعیت کو دیمک کی طرح چاٹ لیا ہے۔ ایسے لوگ جس ادارے سے وابستہ ہوجائیں وہ بھی اسی تقدس اور احترام کا طالب بنادیا جاتا ہے اور وہ شخصیات و ادارے مقدس گائے کی طرح تمام جملہ حقوق اپنے نام محفوظ کرالیتے ہیں۔ گائے کی دم پر مارنے والے کو بھی جس طرح گھیرکر مارا جاتا ہے اور کہیں کہیں اس کی جان بھی لے لی جاتی ہے اسی طرح کا احترام ان لوگوں کے لئے لازمی ہوگیا ہے، یعنی یہ جو کچھ بھی کرتے ہیں وہ خالص ملک و ملت کی فلاح کے لئے کرتے ہیں، اس لئے ان کے ہر قدم اور ہر فیصلہ پر آنکھیں بند کرکے صرف آمنا و صدقنا کہنا لازمی ہے، منھ پر تالا لگانا ضرورت کا عین تقاضہ ہے۔ اگر آپ نے انگلی اٹھائی یا کوئی حرف سوال نکالا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ملت کے دشمن ہیں اور دوسروں کے ہاتھوں کا کھلونا بنے ہوئے ہیں۔ جو ان پاکیزہ روحوں اور مقدس ہستیوں کے تئیں کچھ کہنے کی جسارت کے سنگین جرم کا ارتکاب کررہے ہیں۔ اندھوں کی طرح انگلی ان کے ہاتھ میں دے دیں اور چپ چاپ بھیڑ بکریوں کی طرح ریوڑ کا حصہ بن جائیں۔ سوالات و جوابات جیسی بے وقوفیاں نہ کریں، ان کے خودکش فیصلوں پر بھی تالیاں بجائیں، بازار حسن میں یوسف کے بھائیوں کی حرکتوں کو نظرانداز کردیں، مسلمانوں کے باوقار اور نمائندہ اداروں کو یرغمال بنانے پر لب سی لیں، سیاسی طالع آزمائوں کی سرگرمیوں سے آنکھیں بند کرلیں، منصب کے نام پر جذبات کو مشتعل اور ان کا احساس کرنے والوں کی خبر نہ لیں، احتساب کی روح کو معاشرہ سے نکال دیں تو آپ بہت اچھے اور ملک و ملت کے خیرخواہ ورنہ آپ سے بڑا دشمن کوئی نہیں۔
یہ ہٹلر اور جارج بش جیسی سفاکانہ ذہنیت کیسے در آئی کہ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ ہمارا دشمن ہے، جو ہمارا مخالف وہ ملک و ملت کا مخالف ہے۔ جس طرح راشٹر بھکتی اور دیش بھکتی کی اصطلاحوں کے معانی و مفاہیم بدل گئے ہیں اسی طرح مسلم سماج کے اندر بھی قیادت کا ایسا گروہ حاوی ہوگیا ہے جو آمرانہ طرز عمل کے ساتھ سب کچھ اپنی مٹھی میں کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت میڈیا بھی دوطرفہ دبائو میں ہے۔ ایک طرف موجودہ سرکار اپنی مرضی و خواہش کے مطابق سب کچھ دیکھنا اور سننا چاہتی ہے جو مایاوتی، لالو یادو، ممتا بنرجی، سونیا گاندھی جیسی سیاسی شخصیات کے ساتھ قانونی ضابطوں کے حوالے سے ہورہا ہے دائیں بائیں چلنے کی صورت میں میڈیا کا گلا دبانے کے لئے کئی قانونی ذرائع ہیں اور ان کا مختلف حیلوں سے استعمال کیا جاتا ہے۔ معاملہ صرف کارپوریٹ کی ضرورتوں اور مجبوریوں کا نہیں ہے ان کا ایجنڈا الگ ہے۔ عام میڈیا بھی اس دبائو سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ وہیں ہتک عزت کے نام پر اخبارات کو نوٹس تھمانے کی نئی روایت شروع کردی گئی ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جو تنقید برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ جو خود کو ہر طرح کی تنقید و نکتہ چینی سے بالاتر سمجھتا ہے، جو صرف گردن مروڑ دینے پر ایمان رکھتا ہے، جو مقدس گائے بنا ہوا ہے، اگر اس کی حرمت پر ذرا سا بھی حرف آیا تو پھر آپ کی خیر نہیں ہے۔ یہ گلا گھونٹو ذہنیت ان ہوائوں پر بھی پہرہ لگانا چاہتی ہے جو اپنے ساتھ اختلاف رائے کی خوشبو لے کر چلتی ہیں۔ یہ تعلیم یافتہ نئی نسل کے رجحانات سے ناواقف ہیں۔ یہ اپنی تعمیرکردہ جنت میں خوش ہیں اور ایک دوزخ بنارکھی ہے جس میں اپنے مخالفین کو ہاتھ پیر پکڑکر پھینک دیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں ہارنے پر بھی فتح کا جشن مناتے ہیں۔ یہ قانونی شکستوں کو کامیابی کا جامہ پہنادیتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ اختلاف رائے رکھنے والے مہذب گالیوں کی ڈکشنری سے نابلد ہیں مگر وہ اس سطح تک گرنا نہیں چاہتے ہیں، جہاں انسانیت خود کو برہنہ دیکھ کر شرمانے لگے اور نہ ہی وہ خوف زدہ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر نکلتے ہیں۔ انھیں یہ سبق یاد ہے کہ جسے ہو جان و دل عزیز وہ اس گلی میں جائے کیوں۔ وہ صرف اس لئے صبر و ضبط اور صبر و تحمل سے کام لیتے ہیں کہ شیرازہ بکھیرنے والوں میں ان کا نام شامل نہ ہو۔ جب اسپیڈ بریکر ختم کردیے جائیں، بیریکیڈ نہ لگے ہوں تو حادثات کے خدشات بڑھ جاتے ہیں۔(ملت ٹائمز)
qasimsyed2008@gmail.com