اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے: آہ! استاذ محترم حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ

 

محمد انعام الحق قاسمی

قابلِ احترام مادر ِعلمی دارالعلوم دیوبند اور مدارسِ اسلامیہ ھند کے فضلائے کرام!

 السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،،،

واٹس ایپ اور ایمیل کے ذریعہ آپ حضرات کو اس بات کا علم ہو چکا ہے کہ آج کی اِس مجلس کے انعقاد کا مقصدازہر ہند دارالعلوم دیوبند کے مایۂ ناز استاذ اور ہم سب کے مشفق و مربی حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ کے انتقال پر ملال پراُن کے لئے دعائے مغفرت ا ور ہم سب کو اپنی آنے والی زندگی کی یاد دہانی کرانا مقصود ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے اور ہم سب کو اِس دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کی توفیق نصیب فرمائے جو کہ ہمارا اصل مقصدِ تخلیق ہے۔

برادرانِ محترم ! آپ سبھی حضرات کو اس بات کا علم ہے کہ حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ چار روز قبل بتاریخ24 شعبان 1438 ھ بمطابق 20 مئی 2017ء  بروز سنیچر اپنے تمام محبین ، متعلقین اور متوسلین کو روتا بلکتا چھوڑ کر اپنے معبود حقیقی سے جا ملے۔إنا للہ وإنا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے قبر کی منزلوں کو آسان فرمائے اور آپ کے درجات کو بلند فرمائے۔

حضرات! آدمی روز مرتے ہیں مگر انسانِ کامل کی موت کبھی کبھار ہوتی ہے اور جب ہوتی ہے تو دونوں جہان کے سردار نے شہادت دی ہے کہ اس کے مرنے سے ایک دنیا اجڑ جاتی ہے ۔ فرماتے ہیں” موتُ العالِم موتُ العالَم” ۔ نیز فرمایا کہ قیامت قریب ہوگی  تو علما ءکو اٹھا کر اسلام اٹھا لیا جائے گا۔ یہ ہے اسلام میں مردِ کامل کا مقام بلند۔ بایں ہمہ بعض ایسے لوگ اس جہانِ فانی سے کوچ کر جاتے ہیں  اور  اپنے پیچھے اپنی یادیں اور اپنے انمٹ نقوش وکردار چھوڑ جاتے ہیں ، جن کے چلے جانے سے اس جہانِ ہستی میں ایک خلا نظر آتا ہے ، جو اپنے کارناموں ، اپنی اخلاق وکردار سے صدیوں یاد کئے جاتے ہیں ، جو تاریخ کے صفحات پر اپنے گہرے نقوش چھوڑ جاتے ہیں ، وہ تو اس دنیائے فانی سے کوچ کرجاتے ہیں ، لیکن ان کام نام ان کے کارناموں اور ان کی عظیم ملی ودینی خدمات کی وجہ سے باقی وبرقرار رہ جاتا ہے ، اُنہیں ہمہ جہت اور ہمہ سمت شخصیات میں حضرت الاستاذ مولانا ریاست علی بجنوری رحمہ اللہ کی شخصیتِ گرامی ہے ، حضرت الاستاذ نہ صرف عالم ، محدث، ادیب   بلکہ جمعیتہ علماء ہند کے اسٹیج سے ملت کے قائد بھی تھے، عربی زبان وادب کے شناور، اردو کے بہترین کہنہ مشق ادیب وصاحبِ دیوان شاعر ، کئی ایک کتابوں کے مصنف ،ماہنامہ دار العلوم کے مدیر ، دار العلوم دیوبند کے ہر دلعزیز اور مشفق ومہربان استاذ، آپ کے درسُ وتدریس کا دل آویز اور پر مغز اور پر اثر انداز طلباء کے دلوں کو چھو جاتا .  دورانِ درس طلباء کو ترغیبی انداز میں ’’بیٹے ‘‘ سے خطاب کر کے درس اور سبق کے مزے کو دوبالا کردیتے ، طلباء کے ساتھ نہایت مشفقانہ لب ولہجہ استعمال فرماتے۔

یہ مجلس چونکہ مولانا مرحوم کے لئے ایک تعزیتی نشست کی حیثیت سے منعقد کی گئی ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتاہے کہ حضرت مولاناکی زندگی کا ایک مختصر خاکہ ایک بار دہرا لیا جائے تاکہ آپ کے وہ اخلاقِ جمیلہ ایک بار پھر ہماری نظروں کے سامنے حاضرہو جائیں اور آپ کی قدر و منزلت کا احساس دوبارہ ہمارے دلوں میں جا گزیں ہو جائے۔

حضرت مولانا ریاست علی صاحب بجنوری رحمہ اللہ آج سے تقریبا 77 سال قبل 9 مارچ 1940 ء ۔29 محرم 1359ھ  میں حکیم سرائے علی گڑھ کے ایک دیندار گھرانہ میں پیدا ہوئے۔ آ پ کا وطنِ اصلی حبیب والا ضلع بجنور ہے۔ آپ کے والد محترم کا اسمِ گرامی منشی علی تھا جو اُس وقت بسلسلۂ ملازمت علی گڑھ میں مقیم ہوا کرتے تھے۔ آپنے ابتدائی تعلیم کے بعد عربی چہارم تک کی تعلیم علیگڑھ میں ہی حاصل کی۔اس کے بعد مزید تعلیم کے لئے اپنے پھوپھا حضرت مولانا سلطان الحق صاحب بجنوری کی ایماء پر اُن ہی کی معیت میں دارالعلوم دیوبند کے لئے رختِ سفر باندھا۔ مولانا سلطان صاحب بڑے طرح دار انسان تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی لائبریری کے ناظم اور علمی نششتوں کے رَسیا تھے۔ جب تک آپ زندہ رہے اساتذۂ دارالعلوم کے لئے آپ کی مجلس پرکشش بنی رہی۔حضرت الاستاذ نے اپنے پھوپھا کی سر پرستی میں 1951ء میں دار العلوم دیوبندمیں داخلہ لیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب شیخُ الہند رحمہ اللہ کے اجلہ تلامذہ دارالعلوم کی مسندِ تدریس پر جلوہ افروز ہوا کرتے تھے۔ حضرت مولانا اعزازعلی امروہویؒ، حضرت علامہ ابراہیم بلیاویؒ اور حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادیؒ وغیرہم۔ حضرت نے اِن جلیل القدر شخصیات کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر خوب خوب خوشہ چینی کی اور اپنی صلاحیت و صالحیت کو خوب سے خوب تر بنانے کی کوشش کی اور پھر 1958ء میں سندِ فراغت سے سرفراز ہو کر علمِ دین کے حصول کی رسمی تکمیل کی۔

زمانۂ طالبِ علمی کے حصار سے نکلنے کے بعد دینِ اسلام کی تبلیغ اور اس کی اشاعت کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ لیکن اس کے لئے ضرورت تھی کسی ایسے مردِ مجاہد اور فنا فی اللہ شخصیت کی جو آپ کی خوابیدہ اور چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اُجاگر کر زندگی کی گاڑی کو مہمیز لگا سکے۔ چانچہ ایک بارپھر آپ نے اپنے استاذِ محترم حضرت مولانا فخرالدین صاحب مرادآبادیؒ کو اپنا ہادی و رہبر تسلیم کر تیرہ سال کا طویل عرصہ آپ کی تربیت میں گذار دیا اور اس طویل مدت کے لیل و نہار میں مسلسل اپنی شخصیت کی تعمیر میں لگے رہے۔ چنانچہ ایک وقت ایسا   آتا ہے جب دارالعلوم دیوبند کے اربابِ حل و عقد کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ اس نوجوان کو ایک عظیم کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے، اس لئے اس کو دارالعلوم دیوبند آنا چاہئے چنانچہ 1972ء  – 1391ھ میںآپ دارالعلوم کے مدرس بناد ئیے گئے۔ اس کے بعد درسُ و تدریس کا یہ سلسلہ جوچلا تو مسلسل پینتالیس (45) سال تک دراز ہوتا چلا گیا۔ اس طویل مدت میں تقریباً ہر علمُ و فن کی کتابیں آپ نے پڑھائیں لیکن فنِ حدیث سے آپ کو خصوصی شغف تھا۔ تعارضِ اقوال یا متعارض احادیث پر اطمینان بخش،خوبصورت کلام اور تطبیق آپ کے درس کی عام بات تھی۔ وقت کی پابندی کے ساتھ ساتھ آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ نہایت سادہ، مختصر اور دلکش جملوں میں مشکل مقامات اور مضامین کو حل کر دینے کی صلاحیت آپ میں بدرجۂ اتم موجود تھی۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ربِ کائنات نے زندگی کے ہر شعبہ کی مطلوبہ صلاحیتیں آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی۔اور آپ نے ان تمام شعبوں میں اپنی ریاست قائم کر کے اسم با مسمیٰ ہونے کا ثبوت پیش کر دیا۔ چنانچہ انتظامی امور کی صلاحیتوں میں بھی آپ اپنی مثال آپ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف آپ دارالعلوم میں معاون مہتمم کے عہدہ پر فائز رہے تو دوسری طرف ناظمِ مجلس تعلیمی اور تعلیمات کا عہدہ بھی آپ سے سرفراز رہا۔ طلبہ اور اساتذہ دونوں کے حق میں بہترین فیصلوں سے آپ نے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی حضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب مرحوم سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند کے دورِ اہتمام کے بعد جن شخصیات کے نام سامنے آئے ان میں حضرت الاستاذ کا نام نامی بھی شامل تھا۔ درسُ و تدریس کے علاوہ آپ ایک بہترین انشا پرداز اور صاحبِ طرز ادیب بھی تھے۔ چنانچہ دارالعلوم کی نشأۃ ثانیہ کے بعد آپ نے وہاں کے ماہانہ مجلہ رسالۂ دارالعلوم کے ادارت کی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں۔ آپ کی تحریریں انتہائی شستہ اور سلیس ہوا کرتی تھیں لیکن دیگر علمی مشغولیات کی وجہ سے جلد ہی آپ کو اس ذمہ داری سے سبکدوش ہونا پڑا۔ نثر نگاری کے ساتھ ساتھ نظم نگاری میں بھی آپ کمال کی حد تک مہارت رکھتے تھے۔ چنانچہ آپ کا مجموعۂ کلام” نغمۂ سحر” طبع ہو کر علم و ادب کی دنیا میں داد و تحسین حاصل کر چکا ہے۔، علم وعمل میں آپ بلند مقام پر فائز ہونے کے ساتھ شعر وادب میں بھی اعلی ذوق کے حامل تھے ، جس کا جیتا جاگتا نمونہ اور زندہ وجاوید ثبوت’’دار العلوم دیوبند کا شہرہ آفاق ترانہ یہ علم وہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہہ پارہ ہے ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ، ہر سرو یہاں مینارہ ہے جو ایک لازوال ادبی شہہ پارے کی حیثیت رکھتا ہے ، جو زبان زدِ عام وخاص ہے ، جس کو اِسی قدر شہرت حاصل ہے جس قدر دار العلوم دیوبند کو شہرت اور عزت حاصل ہے۔اس کے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیں اور دیکھیں کہ یہ کس پایہ کے اشعار ہیں۔

یہ علم و ہنر کا گہوارہ تاریخ کا وہ شہ پارا ہے ہر پھول یہاں اک شعلہ ہے ہر سرو یہاں مینارہ ہے
خود ساقئ کوثر نے رکھی میخانے کی بنیاد یہاں تاریخ مرتب کرتی ہے دیوانوں کی روداد یہاں
جو وادئ فاراں سے اٹھی گونجی ہے وہی تکبیر یہاں ہستی کے صنم خانوں کے لئے ہوتا ہے حرم تعمیر یہاں
کہسار یہاں دب جاتے ہیں طوفان یہاں رک جاتے ہیں اس کاخِ فقیری کے آگے شاہوں کے محل جھک جاتے ہیں
رو می کی غزل رازی کی نظر غزالی کی تلقین یہاں روشن ہے جمالِ انورسے پیمانۂ فخرالدین یہاں
امداد و  رشید و  اشرف  کا یہ قلزمِ عرفاں پھیلے گا یہ شجرہ  طیب  پھیلا  ہے تا وسعتِ  امکاں پھیلے گا
یوں سینہٰ گیتی پر روشن ، اسلاف کا یہ کردار رہے آنکھوں میں رہیں انوارِ حرم ،  سینہ میں دلِ بیدار  رہے

اگر آپ موازنہ کرنے بیٹھ جائیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ دیگر جامعات کے ترانوں کی حیثیت اِس ترانے کے سامنے وہی ہے جو تاروں کی حیثیت چاند کے سامنے ہوتی ہے۔

اسی طرح جمعیہ علماء ہند کا مشہورِ زمانہ ترانہ ’’یہ اہلِ یقیں کی جمعیۃ ‘‘ بھی آپ کی ایجاد اور آپ ہی کے قلمِ درمند کا عظیم شاہکار ہے۔۔ آپ نے جمعیہ علماء ہند کی نائب صدر کی حیثیت سے بھی ذمہ داری نبھائی۔

دارالعلوم میں شیخ الہند اکیڈمی کے قیام کے بعد آپ ہی کو اس کا نگراں اور سرپرست مقرر کیا گیا۔آپ کی نگرانی کا دور اکیڈمی کا نہایت تاباں اور درخشاں دور رہا ۔ درجنوں علمی و تحقیقی کتابیں اکیڈمی سے وجود میں آئیں۔ خود آپ کی معتدد کتابیں منطرِعام پر آ چکی ہیں۔ جن میں شوریٰ کی شرعی حیثیت اور ایضاح البخاری شہرتِ دوام حاصل کر چکی ہیں۔ بات جب یہاں تک پہنچ گئی تو آپ کے ایک اور فن کا ذکر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ آپ اعلی درجہ کے خطاط اور کاتب بھی تھے۔ چنانچہ اقتصادی تنگی کے زمانہ میں آپ نے اپنے اس فن سے خوب خوب کام لیااور اپنی معاشی صورتِ حال سے پنجہ آزمائی و نبرد آزمائی کی۔

کس کس ادا پہ جان دوں توہی بتا اے چشم یار جس ادا کو دیکھتا ہوں حسن کی تصویر ہےعلم و فضل اور زبان و ادب میں اس حد تک تفوق کے باجود آپ مکارمِ اخلاق کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز تھے۔ کیا بڑے کیا چھوٹے، آپ سے ملاقات کر ایسا محسوس ہوتا کہ ایک فرمانبردار بیٹے کی ملاقات ایک مشفق والد سے ہو گئی ہے اور وہ اس کے اوپر شفقت و محبت کے پھول نچھاور کر رہا ہے۔

حضرات ! مرنا جینا روز مرہ کا کام ہے لیکن قدرت ایسے افراد کم پیدا کرتی ہے جن کی زندگی زمانہ میں ہلچل پیدا کر دیتی ہے اور جن کی رحلت موتُ العالِم موتُ العالَم کا مصداق ہوتی ہے۔ ان کے اٹھ جانے سے دنیا سونی لگنے لگتی ہے۔  دار العلوم دیوبند کے عظیم سپوت اور مایہ ناز استاذ حدیث ، اور مشفق ومربی استاذ گرامی، جن کی شفقت بھری باتوں اور اندازِ تدریس وتخاطب سے نہ جانے کتنی ہزاروں لاکھوں طلباء نے اپنی علمی تشنگی بجھائی، یہ عظیم ہستی مورخہ 24؍ شعبان،1438ھ  بروز ہفتہ بوقت سحر اپنے پسماندگان اور علمی وارثوں کو سوگوار اور غم زدہ چھوڑ کر راہِ عالم بقا ہوگئی اور جوار رحمتِ رب العالمین میں اپنا مستقل اور دائمی ٹھکانابنایا۔

فکرِ عجم ، زبانِ عرب، روحِ دیوبند

تنہا گیا تھا، اس کے ساتھ مگر کارواں گیا

حضرت الاستاذ سے اپنے خاص رشتہ کی بنیاد پر آئیے ہم سب مل کر رب غفور کی ذاتِ کریمی سے دعا کریں کہ اے اللہ تو اپنے پیارے حبیب جناب محمد رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے صدقۂ و طفیل میں استاذ ِمحترم کی مغفرت فرما۔آپ کی قبر پر اپنی رحمت کے پھول نچھاور فرما۔ آپ کو کروٹ کروٹ چین و سکون نصیب فرما ۔آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمااور کل بروزِ محشر جب وہ اٹھیں تو انہیں اپنا قربِ خاص نصیب فرما کہ ایک مومن کی زندگی کا یہی ماحصل ہے۔

ربنا تقبل منا إنک انت السمیع العلیم وتب علینا إنک التواب الرحیم ۔صلیٰ اللہ تعالیٰ علی خیر خلقه محمد و آلہ و صحبہ اجمعین برحمتک یا أرحم الراحمين .

ریاض، سعودی عرب