ثناءاللہ صادق تیمی
یہ کم نہیں ہے کہ رمضان المبارک کے آتے ہی مسلمانوں کے اندر اللہ سے قریب ہونے کا داعیہ مضبوط ہو جاتا ہے ۔ نماز کی کثرت ہوتی ہے ۔ روزے کا تو خیر سے یہ مہینہ ہی ہے ۔ نوافل اور عام خیرات و صدقات میں بھی مسلمان بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے ۔ اس مہینے میں قرآن کریم کی تلاوت بھی خوب ہوتی ہے ۔ بلکہ تراویح کو تو قرآن کریم کے سننے کا ذریعہ ہی سمجھ کر پانچ دن اور سات دن ہی نہیں تین دن تک کی تراویح ہوتی ہے ۔ یہ ساری چیزیں اچھی ہو سکتی ہیں اور زیادہ مفید بھی اگر وہ سنت رسول کے مطابق ہو ۔ ہمارے اندر اگر نیکی کمانے کا جذبہ واقعی پایا جاتا ہے تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ خلوص نیت اور طریقہ رسول کے بغیر کوئی بھی عمل قابل قبول نہیں ہوتا ۔اس لیے خاص طور سے قرآن حکیم اور رمضان المبارک کے آپسی رشتے سے متعلق یہ سطور قلمبند کیے جاتے ہیں ۔
یوں تو قرآن کریم کی کبھی بھی تلاوت کرنا ایک عبادت ہے ۔ لیکن رمضان میں ایسا کرنا اپنی خاص معنویت رکھتا ہے ۔
1۔ رمضان کے مبارک مہینے ہی میں قرآن حکیم نازل کیا گیا ۔ جیسا کہ اللہ نے سورہ بقرہ کے اندر ارشاد فرمایا ہے کہ رمضان ہی کے مہینے میں قرآن کریم نازل کیا گیا. شهر رمضان الذي أنزل فيه القرآن(البقرۃ:185) ۔ اس کی مزید وضاحت قرآن کریم کی آیت کہ’ ہم نے اس (قرآن ) کو لیلۃ القدر میں نازل کیا ہے’ إنا أنزلناه في ليلة القدر(القدر:1 )، سے ہوتی ہے ۔ بعض لوگوں کو مغالطہ ہوا ہے اس آیت کو سمجھنے میں کہ’ ہم نے اسے ایک بابرکت رات میں اتارا ہے’ إنا أنزلناه في ليلة مباركة(الدخان:3 )۔ انہوں نے غلطی سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سے مراد شب برات ہے ۔ جب کہ قرآن کا نزول رمضان میں ہوا اور شب قدر بھی رمضان میں ہے تو پھر لیلہ مبارکہ سے مراد شعبان کی پندرہویں شب کیسے ہو جائیگی ؟ رمضان اور قرآن مقدس کا پہلا رشتہ تو یہ بنتا ہے کہ اسی مقدس مہینے میں اس عظیم کلام الہی کا نزول ہوا جس نے کائنات کے رفتار کو بدل دیا اور ایک نئی دنیا کی تشکیل عمل میں آ گئی ۔
2۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی مہینے میں جبریل امین کے ساتھ قرآن کریم کا مذاکرہ کیا کرتے تھے ۔ یہ اس مہینے کے ساتھ خاص طور سے ہوتا تھا ۔ جب آپ کی وفات کا سال آیا تو جبریل دو مرتبہ آئے اور آپ نے اس سے سمجھ لیا کہ آپ کی وفات کا وقت قریب آگیا ہے ۔ حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ رمضان کے پورا ہونے تک جبریل امین علیہ السلام ہر رات آپ کے پاس آتے اور آپ ان کے اوپر قرآن کریم پیش کرتے تھے ۔(البخاری :1902 )۔ بخاری شریف کی ہی دوسری حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضي اللہ عنھا سے رازدارانہ انداز میں بتلایا کہ ہر سال جبریل ایک مرتبہ میرے ساتھ قرآن کریم کا مذاکرہ کیا کرتے تھے اور اس مرتبہ انہوں نے دو مرتبہ ایسا کیا ۔ مجھے لگتا ہے کہ میری موت کا وقت آگیا ہے ۔(البخاری :3624 )
3۔ قرآن کریم کا مقصد بھی انسان کو نیک مسلمان اور تقوی شعار بندہ بنانا ہے اور اسی کام کے لیے روزے بھی فرض کیے گئے ۔ اللہ نے قرآن کریم کے بارے میں بتلایا کہ یہ سب سے اچھے راستے کی رہنمائی کرتا ہے ۔ يهدي للتي هي أقوم (بنی اسرائیل :9)۔ اور یہ کہ یہ متقیوں کے لیے ذریعہ ہدایت ہے ۔ هدى للمتقين(البقرۃ: 2 )۔ قرآن میں اللہ نے اپنے مومن بندوں کو یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ ہمیں متقیوں کا امام بنا ۔ و اجعلنا للمتقين إماما (الفرقان :74 ) اور رمضان کے روزے فرض کرتے ہوے ارشاد فرمایا کہ تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئیے تاکہ تم متقی بن سکو ۔ كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون(البقرۃ: 183 ) اسی طرح آپ نے فرمایا کہ جو آدمی جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس بات کی ضرورت نہیں کہ وہ کھانا پینا چھوڑے ۔(البخاری : 5750) اور ایک حدیث کے مطابق آپ نے روزہ دار کو یہ مشورہ دیا کہ اگر کوئی اس سے جھگڑے اور گالی دے تو وہ کہ دے کہ وہ روزہ سے ہے ۔ (البخاری :1805 ) اور ظاہر ہے کہ یہ ساری چیزیں انسان کو صفت تقوی سے متصف کرتی ہیں ۔
4۔ روزہ بھی اور قرآن حکیم بھی نیک بندوں کے لیے شفارش کرینگے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث کے مطابق اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قرآن پڑھو ، قیامت کے دن وہ اپنے پڑھنے والوں کے لیے شافع بن کر آئیگا۔ (مسلم:804 ) اسی طرح آپ نے ایک صحیح حدیث کے اندر فرمایا کہ روزہ اللہ کے حضور شفارش کرےگا کہ ہم نے اس بندے کو کھانے پینے سے روکے رکھا ، اس کے حق میں میری شفارش قبول کریں اور قرآن کریم اللہ کے حضور شفارش کرےگا کہ ہم نے اس بندے کو سونے سے روکے رکھا ، اس لیے اس کے حق میں میری شفارش قبول کریں اور ان دونوں کی شفارش قبول کی جائیگی ۔(صحیح الجامع: 3776 )۔ اس لیے رمضان المبارک کے اس مہینے میں خاص طور سے قرآن کریم سے شغف بڑھنا چاہیے اور زیادہ سے زیادہ اس کا اہتمام کیا جانا چاہیے ۔ یہی وجہ تھی کہ صحابہ کرام اور تابعین عظام اور محدثین اس مہینے میں خاص طور سے قرآن کریم سے اپنا رشتہ مضبوط سے مضبوط تر کرلیتے تھے ۔ مشہور تابعی ابن شھاب زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب رمضان آجائے تو در اصل کرنے کام یہ ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت ہو اور زیادہ سے زیادہ اللہ کے بندوں کو کھانا کھلایا جائے ۔( التمھید لابن عبد البر : 6|111 ) اور امام مالک رحمہ اللہ تو رمضان کے آتے ہی ساری سرگرمیوں کو تج کر قرآن کریم کی تلاوت میں لگ جاتے تھے ۔( لطائف المعارف لابن رجب :183 )۔
آج عام طور سے یہ بات مشہور ہے کہ ایک آدمی قرآن نہیں سمجھ سکتا ۔ در اصل یہ ایک قسم کا فریب اور اللہ پر بہتان ہے ۔ جب اللہ نے یہ دستور حیات دیا ہے تو نہ سمجھ میں آنے کا کیا مطلب ؟ نعوذ باللہ کیا اللہ اپنے بندوں سے ایسے کام کا مطالبہ کریگا جو ان کے بس میں ہے ہی نہیں ۔ اللہ فرماتا ہے کہ وہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ کا مکلف نہیں کرتا ۔ لا يكلف الله نفسا إلا وسعها (البقرۃ: 286 ) اور قرآن کریم کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ یہ ایک بابرکت کتا ب ہے جسے ہم نے آپ پر اتارا ہے کہ تاکہ وہ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل والے نصیحت پکڑیں ۔ كتاب أنزلناه إليك مبارك ليدبروا آياته و ليتذكر إولو الألباب( ص: 29 ) اسی طرح اللہ نے فرمایا کہ تو وہ قرآن پرکیوں غور نہیں کرتے یا کیا ان کے دلوں پر تالے پڑ گئے ہیں ؟ أ فلا يتدبرون القرآن أم على قلوب أقفالها (محمد : 24 ) ابن حجر فرماتے ہیں کہ تلاوت سے مقصود حضور اور فہم و فراست ہے ۔ (فتح الباری : 1|42 )۔ اور مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی آیت جس میں کہا گیا ہے کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی کما حقہ تلاوت کرتے ہیں۔ (البقرۃ: 121 ) سے مراد یہ ہے کہ وہ اس کی کما حقہ پیروی کرتے ہیں ۔ پتہ چلا کہ اصل مقصود قرآن کریم کے نزول کا یہ ہے کہ اس کی تلاوت کی جائے اور اس کے احکام و اوامر اور نواہی پر عمل کیا جائے اب اگر بغیر سمجھے اس کی تلاوت ہو تو ثواب تو ملے گا کہ اس کی تلاوت بھی عبادت ہے لیکن اصل قرآن کا حق یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے اور اس کے سرمدی ربانی ہدایات کو اپنا کر اپنی دنیا اور آخرت سنوار لی جائے ۔ اللہ ہمیں اس کی بہتر توفیق عطا کرے ۔ آمین۔