مشرّف عالم ذوقی
پرچی والوں کو کون پوچھتا ہے – حقیقت یہ کہ اس کو بھی کسی نے نہیں پوچها … اس کواس بات کا ملال بھی نہیں ہے .وہ اپنی پرانی حیثیت کو وقت کے خوفناک بہاؤ کے ساتھ بھول چکا ہے .اور حالات نے جو کچھ دیا اسے قبول کر چکا ہے … اس کے باوجود وہ ایک ایسی جنگ لڑتا رہا ،جہاں اس کے پاس کھونے کے لئے کچھ نہیں تھا . اور پانے کے لئے بھی کچھ نہیں تھا .اس کی بپتا سن کر مجھے نکو لایی گوگول کی ڈیڈ سول یعنی مردہ روحوں کی یاد تازہ ہو جاتی ہے .گوگول کی ڈیڈ سول میں مرے ہوئے باشندے حکومت کے بہی کھاتوں میں زندہ تھے .اور زندہ لوگ ان مرے ہوؤں کی پنشن سے عیش کر رہے تھے ..ہندوستانی نظام میں زندہ ہی کون ہے ..یہاں سب اس پرچی والے کی طرح مرے ہوئے ہیں جو اپنی پندرہ سو کی پنشن کے لئے مسلسل سرکاری دفاتر کے دھکے کھاتا رہا اور ہر بار اسے ایک ہی جواب ملتا ..
آپ مر چکے ہیں ..
لیکن میں تو زندہ ہوں اور آپکے سامنے ہوں ..
لیکن اس کے باوجود آپ مر چکے ہیں ..کیونکہ سرکاری بہی کھاتوں نے آپکو مردہ قرار دے دیا ہے ..
پرچی والے کو امید تھی کہ ایک دن سرکاری بہی کھاتوں کا جھوٹ سامنے آ جائے گا .اور وہ پھر سے زندہ قرار دیا جائے گا ..
پرچی والا بھول گیا تھا کہ حکومت کے بہی کھاتوں میں اقلیتیں مردہ قرار دے دی گیی ہیں پھر اس کی جنگ کون لڑتا ..؟
اتنی فرصت کس کے پاس تھی ..
— اسی سال کی عمرکا عمر کا بیشتر حصّہ مایوسی اور تنگ دستی میں گزرا ..میں سب سے پہلے پرچی والے کے نام سے اس وقت واقف ہوا جب میری عمر سترہ برس کی تھی .میرے چچا ابّا کے گھر مشاعرے ہوا کرتے تھے ..ایک مشاعرے میں پرچی والا بھی آیا .سارا مشاعرہ لوٹ کر لے گیا ..مجھے بتایا گیا کہ عظیم آباد کے دولتمند لوگوں میں شمار ہوتے ہیں .بہت بڑی جائیداد کے مالک ہیں .میں ١٩٨٥ میں دلی آیا تو برابر ملاقاتیں ہوتی رہیں …
خدا معلوم یہ جائداد کہاں کھو گئی لیکن ایک بڑی جائداد ان کے پاس تھی ..ادب کی جائداد ..انکے مزاحیہ کلام رضا نقوی واہی جیسے شاعروں کی یاد تازہ کر دیتے تھے … پھر وہ سیمیناروں میں نظر آنے لگے …انکی جیب پرچیوں سے بھری ہوتی ..کویی جاننے والا ملتا تو ایک پرچی بڑھا دیتے ..
میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ کاغذ کی معمولی پرچیاں نہیں تھیں ..ان میں اشعار ہوتے .رباعیاں ہوتیں ..وقت اور حالات کی ستم ظریفی پر طنز ہوتا …لیکن یہ رنگ جو پرچیوں تک سمٹ آیا تھا ،ان کا اوریجنل رنگ نہیں تھا .یہ رنگ دلی میں آ کر پھیکا پڑ گیا .. ..افسوس اس بات کا کہ دلی نے پرچی والے کا قلم بھی چھین لیا …صرف پرچیاں رہ گیی تھیں اور میں نے ان پرچیوں کے خوف سے لوگوں کو فاصلہ بناتے ہوئے بھی دیکھا ہے ….
— اسرار جا معی ….وقت نے ان سے یہ نام چھین کر انھیں پرچی والا بنا دیا .
..یہ قیمتی پرچیاں ہیں ..کل ممکن ہے ،پرنٹ میڈیا نہ ہو …ممکن ہے اردو والوں کو تلاش کرنے کی ضرورت ہو تو ایسی پرچیاں ہمارے پاس بھی ملیںگی …ہم کسی جاننے والے کی طرف چپکے سے پرچی بڑھا دینگے ..ممکن ہے پرچی لینے والا یہ سوال بھی داغ دے …آپ تو مرے ہوئے ہیں …آپ اس ہندوستانی نقشے میں کہیں نہیں ہیں …آپ ڈیڈ سول ہیں …
مجھے شدّت سے احساس ہے کہ اسرار بھایی کی قدر کسی نے نہیں کی ..ہم ایک ایسے فنکار کو بھول رہے ہیں جو اپنا سارا اثاثہ لٹا کر دلی صرف ادب کی خدمت کے لئے آیا ..اس نے اپنی زندگی اردو کے نام کر دی …اب وہ ایک ایسی زندگی گزارنے پر مجبورہیں ،جسکا تصور محال ہے ..اردو والوں اور قومی اردو کونسل کو انکی مدد کے لئے سامنے آنا چاہیے ..