سعودی ۔قطر میں سفارتی بحران اورہماری بحث

خبر درخبر(517)
شمس تبریز قاسمی
ہندوستان میں بی جے پی حکومت آنے کے بعد حب الوطنی کا پیمانہ حکومت کی تعریف کو سمجھاجاتاہے ،اگر کوئی بی جے پی حکومت کی تعریف کرنے کے بجائے اس کی پالیسی پر تنقید کرتاہے تو اس کو ملک مخالف گردانا جاتاہے ،کچھ ایسی ہی صورت حال سعودی عرب اور قطر کے درمیان جاری سفارتی بحران کے بعد ہندوستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے ،قطر کی حمایت سعودی عرب کی دشمنی سمجھی جارہی ہے ،سعودی عر ب کی تنقید ایک مسلک کی تنقید محمول کی جارہی ہے جو سعودی عرب کی حمایت کررہے ہیں انہیں ریال خور اور ایک مسلک سے جوڑ کردیکھاجارہاہے یہ صورت حال ایک صحت مند معاشرہ اور کامیاب مسلم سماج کیلئے زہر قاتل ہے ۔
سعودی عرب خلیج کی سب سے بڑی طاقتور ریاست ہے ،وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز اور عقیدتوں کا محور ہے ،وہاں سے ہر ایک کا ایمانی ،مذہبی اور قلبی لگاؤہے ،سعودی عر ب کو قوت بخشنے میں آل سعود کا کردار ناقابل فراموش ہے اور دنیابھر میں مذہب اسلام کی نشرواشاعت کے حوالے سے سعودی حکومت کا کردار قابل فخر ہے ،ایسے میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی سعودی عرب سے یہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں کہ وہ مسلم امت کی قیادت کرے ،تمام مسلمانوں کو متحد رکھے ،اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا ذریعہ بنے ،اسلام کے ازلی دشمن یہودی ونصاری کے سامنے مسلمانوں کو ذلیل ہونے سے بچائے ،ان کی سازشوں اور یلغار کا مقابلہ کرے ،عالم اسلام میں غیروں کو مداخلت کا موقع نہ دے ، پوری دنیا کے مسلمانوں کے ساتھ بھائی چارہ کا معاملہ کرے ، دیار رسول میں ہونے کی حیثیت سے ملت اسلامیہ کی رہبری کا فریضہ انجام دے ۔
سعودی عرب کے تئیں تقریبا دنیا کا ہر مسلمان یہ جذبہ رکھتاہے ، ایسے میں جب سعودی عرب کی جانب سے ان جذبات کو ٹھیس پہونچائے جائیں گے تو یقیناان کا ردعمل اچھا نہیں ہوگا بالخصوص جب فلسطینیوں پر ہورہے مظالم کے خلاف آواز بلندکرنے اور ان کا مقابلہ کرنے والی تنظیم حماس کو دہشت گرد کہاجائے گا تو مسلمانان عالم کو قلبی افسوس ہوگا کیوں کہ فلسطین سے دنیا بھر کے مسلمان قلبی لگاؤ رکھتے ہیں،ان کے تئیں ہمدری وغخواری کا جذبہ موجزن ہوتاہے، حماس ان کے حقوق کی جنگ لڑتی ہے ،اسی طرح اخوان المسلمین ایک اسلام پسند جماعت ہے ،اس کا نظریہ اسلام کے سیاسی نظام کا نفاذ اور اللہ کی سرزمین پر اللہ کے قانون کو نافذ کرناہے ،جمہوریت میں یہ جماعت یقین رکھتی ہے ،علامہ یوسف القرضاوی عالم اسلام کی معتبر ،مستنداور عظیم شخصیت ہیں ،لہذاان سب کو جب دہشت گردکہاجائے گاتو یقیناًعالمی سطح پر مسلمانوں کا ردعمل سعودی عرب کے خلا ف ہوگا ،ان کی ہمدر دی فلسطینیوں کے ساتھ ہوگی،اخوانیوں کے ساتھ ہوگی اور جو ان کی اخلاقی مدد کرے گا وہ اس کی حمایت کریں گے ،اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہوتاہے کہ ایسا شخص سعودی عرب سے بغض وعداوت رکھتاہے ،نفرت کرتاہے،در اصل ان تمام اختلافات کے بین السطور کی عبارت یہ ہوتی ہے کہ سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا سربراہ ہے ،وہ خادم الحرمین الشرفین ہے لہذا وہ اپنی ذمہ داری نبھائے ،تمام مسلمانوں کو متحدرکھے ،دوسروں کے اشارے پر خارجہ پالیسی طے نہ کرے ،مسلم ممالک کے ساتھ دشمنوں جیسا رویہ نہ اپنائے ،اپنے اختلافات میں دوسروں کو دخل انداز ی نہ کرنے دے ۔
سعودی عرب اور قطر دوالگ الگ ملک ہیں،دونوں کی خارجہ پالیسی علاحدہ ہے ،اس لئے سفارتی تعلقات میں نشیب وفراز ہونا کوئی تعجب خیزبات نہیں ہے ،لمحہ فکریہ ہے کہ سعودی عرب نے حماس جیسی تنظیم کو دہشت گرد قراردیکر اسرائیل اور امریکہ کے نظریات کی تائید کی ہے ،اخوان المسلمین کو دہشت گرد نامزد کرکے اسلام پسندوں کوتکلیف پہونچایاہے ،علامہ القرضاوی اور دیگر علماء کو دہشت گرد قراردیکر اسلام دشمن عناصر کی پالیسی اپنائی ہے ،کیوں کہ دہشت گردی کی لعنت مسلمانوں پر ایک سازش کے تحت تھوپی گئی ہے ،یہ اصطلاح جہاں بھی اور جس کسی کی جانب سے بھی مسلمانوں پر تھوپی جائے گی عام مسلمانوں کو صدمہ ہوگا خواہ امریکہ کسی کو دہشت گرد قراردیکر تختہ دار پرلٹکائے ،ہندوستان کسی کو دہشت گرد قراردیکر اسے پھانسی دینے کی کوشش کرے یاکوئی مسلم ریاست کسی عالم دین کے خلاف ایسے اقدامات کرے ۔
مشرق وسطی میں امریکی پالیسی مکمل طور پر واضح ہوچکی ہے ،مسلمانوں کو آپس میں لڑاکر اپنا مفاد حاصل کرنا امریکہ کی پرانی عادت ہے ،القاعدہ کو کبھی مجاہدین اسلام قراردینا اور کبھی دہشت گردتنظیم نامزد کرنا دنیا کے سامنے ہے ،افغانستان ،عراق ،لیبیا ،شام اور یمن کی بربادی کانقشہ ہم خون کے آنسوؤں سے دیکھ رہے ہیں،ان حقائق کے ہوتے ہوئے ہم امریکہ کو مزید مداخلت کا موقع دیتے ہیں،اس کی باتوں پر یقین کرکے اپنے مسلم بھائیوں کا بائیکاٹ کرتے ہیں،مسلم ممالک کو دشمن تصور کرکے ان سے دوستی ختم کرلیتے ہیں تو انجام پہلے سے زیادہ خطرناک ہوگا ،چودہویں صدی عیسوی میں دو عظیم مسلم حکمرانوں کی آپسی لڑائی نے یورپ کی جانب مسلمانوں کے بڑھتے قدم کو روک دیاتھا اور اب مسلمانوں کی آپسی لڑائی مشرق وسطی میں امریکہ ویورپ کے قدم جمانے کا ذریعہ بنتی جارہی ہے ۔
سعودی عرب اور ایران مشرق وسطی کے دو اہم ملک ہیں، خطے میں برتری کیلئے دونوں آپس میں ایک دوسرے کے خلاف رہتے ہیں،مسلکی نظریہ بھی لڑائی کی ایک اہم وجہ ہے لیکن اس بنیاد پر کسی تیسرے ملک کو اپنے حریف سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر اس طرح سزا دیئے جانے کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے ،ہندوستان ۔پاکستان روایتی حریف ہیں ،افغانستان پاکستان کا پڑوسی ہے ،مذہبی اعتبار سے بھی وہ پاکستان سے قربت رکھنے کا حقدار ہے لیکن اس کے تعلقات ہندوستان سے گہرے ہیں ،پاکستان کے خلاف اس کے استعمال کرنے کیلئے ہندوستان کی عنایات بھی بہت ہوتی ہیں لیکن اس کے باوجود پاکستان نے کبھی افغانستان کے ساتھ ایسا نہیں کیاہے بلکہ بلوچستان میں افغان مہاجرین کو پناہ دیا گیاہے ، دوسری جانب سے چین کا پاکستان سے گہرا تعلق ہے لیکن ہندوستان چین سے اپنا رشتہ ختم نہیں کرسکتاہے ۔قطر پہلے بچہ تھا اب بڑا ہوگیاہے ،خارجہ پالیسی میں پہلے سعودی عرب کے ماتحت تھا اب خود مختار ہوگیا ہے ،وہ تمام ممالک سے دوستی کا خواہاں ہے ،وہ اسلام پسندوں اور فلسطینیوں کی مدد کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتاہے ،اس لئے اپنے ہی کسی برادر ملک کے خلاف اس انداز کی پابندی بہر حال غیر مناسب ہے۔
ایک مرتبہ پھر ہم اپنے دوستوں سے یہ گزارش کریں گے کہ آپ معتدل رویہ اپنائیں،اپنی سوچ میں آفاقیت پیدا کریں ،تمام مسلمانوں اور مسلم جماعتوں کو ایک نظر سے دیکھیں،ملت اسلامیہ کے ایک فرد ہونے کی حیثیت سے نظریہ قائم کریں، کسی ایک جماعت میں حق اور اسلام کو منحصر نہ کریں،اپنے اصل دشمن کی شناخت کریں،اتحادو اتفاق کا عملی مظاہر ہ کریں،دہشت گردی کی تعریف میں کوئی تفریق نہ برتیں ، جن جماعتوں اور تنظیموں کا سعودی عرب سے گہرا تعلق ہے و ہ میمورنڈم پیش کرکے اس کے مضراثرات سے سعودی عرب کو آگاہ کرائیں، ہوسکے تو حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا وہ جواب بھی نقل کردیں جو انہوں نے قیصر روم کو حضرت 
علی سے ان کی آپسی لڑائی میں مداخلت کرنے پر دیاتھا ،آپس میں لڑنے اور ایک دوسرے کی تنقید کرنے کے بجائے دونوں کو ملانے اور اس تنازع کو ختم کرنے کی کوشش کریں ۔دونوں ہمارے اپنے ہیں،ہم دونوں کے ساتھ ہیں ،دونوں کو متحد دیکھنا چاہتے ہیں۔