سی پی ای سی ۔ تنازع کا ذمہ دار کون؟

مکرر عرض ہے کہ چین پاکستان اکنامک کاریڈور کا منصوبہ خطے کے مستقبل کے لئے گیم چینجر ، پاکستان کی معیشت کی بہتری کے لئے کلید اور اس کےدفاع کے لئے ناقابل تسخیر تزویراتی ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے والا پاکستان کو کامیاب بنانے والا ہے اور اس کو ناکام بنانے والا ، پاکستان کا دشمن نمبرون تصور ہوگا۔ مکرر عرض ہے کہ وہ شخص پاکستانی نہیں کہلا سکتا جو جان بوجھ کر یا پھر ذاتی اور سیاسی مفاد کی خاطر اس منصوبے کو متنازع بنانا چاہتا ہو۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اسے متنازع کون بنارہا ہے یا پھر اسے متنازع بنانے والوں کو مواد کون فراہم کررہا ہے ۔ان سوالوں کا جواب درج ذیل چندمزید حقائق کو ملاحظہ کرنے سے بخوبی حاصل کیا جاسکتا ہے۔

٭ چین کی حکومت کے ساتھ چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کے بنیادی منصوبوں کو حتمی شکل 2014ء میں ہی دے دی گئی تھی۔ چینی صدر نے اس سال کے آخر میں پاکستان تشریف لانا تھا لیکن دھرنوں کی وجہ سے ان کا دورہ ملتوی ہوا۔ ظاہر ہے اس دورے میںسی پی ای سی کے منصوبوں پر دستخط ہونے تھے اور سب تفصیلات دورے سے پہلے تیار تھیں۔ لیکن تب تک اس منصوبے کو قومی اسمبلی یاسینیٹ تو کیا، وفاقی کابینہ کے سامنے بھی نہیں لایا گیا تھا۔ روٹ مشرقی ہو، وسطی یا مغربی ، اسے تین یا چار صوبوں میں سے گزرنا ہے۔ اسی طرح چھوٹے صوبوں کو کم ملیں گے لیکن بہر حال اکنامک زونز بھی بقول وزیراعظم کے تمام صوبوں میں بننے ہیں۔ اسی طرح چین گلگت بلتستان کے راستے سے پاکستان میں داخل ہوگا۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ان تمام صوبوں اور گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلیوں سے منظوری لی جاتی لیکن چینی صدر کے دورے تک پنجاب کے سوا کسی وزیراعلیٰ کو اس حوالے سے کچھ نہیں بتایا گیا۔ چینی صدر کا دورہ ملتوی ہوا اور حکومت کو مزید کئی ماہ مل گئے لیکن اس عرصے میں بھی ایسی کوئی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جے یو آئی، اے این پی ، جماعت اسلامی اورسول سوسائٹی کی تنظیموں نے احتجاج کیا اور میڈیا میں طوفان کھڑا ہوا تو پارلیمنٹ یا سی سی آئی جیسے آئینی فورمز پر جانے کی بجائے اے پی سی بلائی گئی لیکن آج تک اے پی سی کے فیصلوں پر بھی عمل نہیں ہوا یا پھر ان فیصلوں کی روح قبض کرکے ان پر نمائشی عمل کیا گیا۔
٭مجھ جیسے غیرتکنیکی اور غیرکاروباری ذہن والے لوگ بھی جانتے ہیں کہ پروجیکٹ خواہ کسی سڑک کا ہویا اتفاق جیسی کسی فیکٹری کا تو پہلے اس کا نقشہ بنتا ہے اور سائٹ کا تعین کیا جاتا ہے۔

دو سال قبل سرکاری دستاویزات میں کچھ نقشے دئیے گئے تھے ۔ پھر حکومتی ترجمان ان سے انکاری ہوگئے۔ آج سے ایک سال قبل جب احسن اقبال صاحب کو میرے ٹی وی پروگرام ’’جرگہ‘‘ میں وہ نقشے دکھائے گئے تو انہوں نے فرمایا کہ یہ اصل نقشہ نہیں ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اصل نقشہ کل فراہم کردیں گے اور قوم کے سامنے بھی رکھ دیں گے ۔ اس دن سے لے کر آج تک میں پلاننگ کمیشن آف پاکستان اور این ایچ اے کی ویب سائٹ وزٹ کر رہا ہوں لیکن سی پی ای سی کامستند نقشہ نظر نہیں آیا۔ اس کالم کو تحریر کرتے وقت ایک بار پھر میں نے این ایچ اے اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹس سے رجوع کیا لیکن نقشہ آج بھی موجود نہیں ۔ اسی طرح اکنامک زونز کے بارے میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ وہ صوبائی حکومتوں کے مشورے سے بنائے جائیں گے ۔

جہاں روٹ کا نقشہ موجود نہیں ، وہاں اکنامک زونز کا نقشہ دیا گیا ہے ۔ اس نقشے کی رو سے گوادر، کوئٹہ،پشاور،خنجراب، اسلام آباد،لاہور، سکھراور کراچی میں اکنامک زونز بننے ہیں۔ میں نے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا پرویز خٹک سے استفسار کیا کہ کیا اس حوالے سے ان کی حکومت سے کوئی بات ہوئی ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔اس طرح کے منصوبوں کے فیصلوں کا آئینی فورم مشترکہ مفادات کونسل ہے جس کا اجلاس آئین کی رو سے ہر تین ماہ میں ایک بار بلانا ضروری ہے۔ ابھی تک اس منصوبے کو وہاں نہیں لایا جارہا ہے ۔ اس حوالے سے خیبرپختونخوا اور سندھ کی حکومتوں نے بھی غفلت کا مظاہرہ کیا ہے کیونکہ آئین کی رو سے کوئی صوبہ بھی ضرورت محسوس کرنے پر مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے لئے درخواست دے سکتا ہے لیکن ان صوبوں نے ایسا نہیں کیا تاہم اب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے بیس دن قبل تحریری خط لکھا ہے لیکن اس کے باوجود حکومت مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کرنے اور اس میں اس منصوبے کو زیربحث لانے سے گریز کرکے خفیہ میٹنگوں کے ذریعے معترضین کو الگ الگ رام کرنے کی کوشش کررہی ہے ۔

٭آل پارٹیز کانفرنس میں فیصلہ ہوا تھا کہ پلاننگ کمیشن ایک ویب سائٹ بنا کر سی پی ای سی سے متعلق تمام تفصیلات اور اپ ڈیٹس اس پر فراہم کرے گی لیکن ایک سال کا عرصہ پورے ہونے کو ہے اور وہ ویب سائٹ جو زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کا کام ہے ، آج تک بن نہیں سکی۔ پلاننگ کمیشن کی ویب سائٹ پر ایکحصہ سی پی ای سی کے لئے مختص کیا گیا ہے ، اس پر ایک بڑی تصویر لگی ہوئی ہے جس میں وزیراعلیٰ پنجاب (وزیراعظم پاکستان نہیں) اور احسن اقبال صاحب چین میں وہاں کے حکام کے ساتھ سی پی ای سی کی تفصیلات پر بات چیت کررہے ہیں ۔ علاوہ ازیں یہاں پر احسن اقبال صاحب کی مصروفیات کی خبریں ہیں اور بس ۔

٭وزیراعظم صاحب نے گزشتہ سال آل پارٹیز کانفرنس کے موقع پر پوری قوم کے سامنے یہ وعدہ کیا تھا کہ مغربی روٹ پہلے بنے گا (واضح رہے کہ یہ نہیں فرمایا تھا کہ اس پر کام کا آغازپہلے ہوگا بلکہ یہ فرمایا تھا کہ پہلے تعمیر ہوگا) ۔ اب مشرقی روٹ پر نہ صرف کام ہورہا ہے بلکہ الحمد للہ تکمیل کے مراحل میں ہے ۔ دوسری طرف مغربی روٹ کی کئی ماہ گزرنے کے بعد بھی نہ تو فیزیبیلٹی بنائی گئی ، نہ اس کے لئے فنڈز کا انتظام کیا گیا اور نہ اس کا افتتاح ہوا۔ ایک بار پھر عوامی اور سیاسی دبائو بڑھا تو بلوچستان اور پختونخوا کے عوام کے ساتھ ساتھ وہاں کے سیاسی لیڈروں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونک دی گئی (وہ الگ بات کہ کچھ لیڈر دانستہ اپنے مفادات کی خاطر جان بوجھ کر خود اپنی آنکھوں میں دھول جھونک رہے ہیں) ۔ افتتاح این 50 اور این 70 کے نام سے دو سڑکوں کے ایک حصے کا کیا گیا لیکن ڈھول پیٹا گیا کہ مغربی روٹ کا افتتاح کیا گیا ۔

جو رہنما وہاں پر وزیراعظم کے ہمراہ ژوب جاکر اپنے چہرے پر کالک مل چکے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وزیراعظم نے ان سے زبانی وعدہ کیا ہے کہ دوسرے مرحلے میں اس کو چھ رویہ بنایا جائے گا ۔ اب اس حوالے سے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائٹ پر جو نقشہ موجود ہے ، اس نے جھوٹ تو آشکار کردیا لیکن اب یہ آشکار ہونا باقی ہے کہ یہ لیڈران جھوٹ بول رہے ہیں ، وزیراعظم نے ان سے جھوٹ بولا ہے یا کہ پھر وزیراعظم سے جھوٹ بولا گیا ہے ۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی کی ویب سائٹ پر پاکستان کی تمام سڑکوں کا ایک نقشہ دیا گیا ہے ۔ اس میں موٹرویز کو بلو رنگ میں ظاہر کیا گیا ہے ۔ اسی طرح زیرتعمیر موٹرویز کو الگ قسم کی لکیر کے ساتھ جبکہ وہ موٹرویز جو کبھی مستقبل میں بنیں گی کو الگ قسم کی لکیر کے ساتھ بلو رنگ سےواضح کیا گیا ہے ۔ اسی طرح نیشنل ہائی وے اور ایکسپریس ویز کی لکیر اورلال رنگ الگ ہے۔ وزیراعظم نے جس روٹ پر سڑک کے ایک حصے کا افتتاح کیا ہے وہ ان کے نیشنل ہائی وے کے نقشے میں لال رنگ (ہائی ویز) کے ساتھ ظاہر کیا گیا ہے۔

اگر تو واقعی مستقبل میں اسے چھ رویہ موٹروے میں بدلنے کا منصوبہ ذہن میں ہو تو پھر اس نقشے میں اسے کم ازکم مستقبل میں بننے والے موٹرویز والے بلو رنگ کے اس ڈاٹس والی لکیر کے ساتھ دکھانا چاہئے تھا۔ واضح رہے کہ این ایچ اے جس کے غیراعلانیہ وزیر ، وزیراعظم صاحب کے داماد کیپٹن صفدر صاحب ہیں ، کے چیئرمین گزشتہ کئی عرصے سے سیکرٹری کا چارج بھی سنبھالے ہوئے ہیں ۔

یہ محکمہ خود وزیراعظم صاحب کے پاس ہے اور یوں بیچ میں سیکرٹری کی صورت میں چوتھے آدمی کوبھی نہیں لایا جاتا ۔ اس غرض سے کہ جو بھی فیصلہ کرنا ہو، گھر کے اندر ہی ہوتا رہے ۔

٭مسلم لیگیوں کے ساتھ اب کچھ قوم پرست مسلم لیگی (یہ قوم پرستوں کی ایک نئی قسم ہے ۔ جو وزیراعظم کی وکالت مسلم لیگیوں کی طرح کرتے ہیں اور گالیاں تحریک انصاف کے کارکنوں کی طرح دیتے ہیں ) بھی ہم جیسوں کو الزام دیتے ہیں کہ ہم جیسے لوگ اس پر وجیکٹ کو متنازع بنارہے ہیں لیکن یہ قوم اب اتنی سادہ اور بے خبر نہیں جو مذکورہ حقائق کے ہوتے ہوئے یہ نہ سمجھ پائے کہ اس پروجیکٹ کو متنازع بنانے کا ذمہ دار کون ہے۔

SHARE