مفتی محمد اللہ قیصر قاسمی
سحر کا وقت تھا،نماز کی تیاری ہورہی تھی بس مؤذن کی اذان کے انتظار میں بیٹھا تھا کہ اچانک موبائل بجنے لگا اسکرین پر مولانا عامر ظفر صاحب قاسمی کا نام دیکھ کر بے وقت کی کال پر کچھ حیرت ہوئی، جلدی سے ریسیو کیا اور علیک سلیک کے بغیر ہی کسی حد تک تشویشناک لہجہ میں پوچھا٬ خیریت ہے؟ جواب میں انہوں نے انتہائ اندوہناک حادثہ کی خبر دیکر مجھے اگلے دس منٹ تک تقریباً بے زبان کر دیا، چاہ کر بھی انا للہ و انا الیہ راجعون کے علاوہ کچھ بھی بول نہیں پایا۔
جی! حضرت مولانا صلاح الدین صاحب اس دار فانی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الوداع کہہ کر اپنے رب رحیم و کریم کی رحمت کے جوار میں جا چکے تھے اور جاتے ہوئے اپنے پیچھے نہ جانے کتنے شاگردوں اور چاہنے والوں کو روتا بلکتا چھوڑ گئے، کبھی خیال آتا کہ کیا بگڑ جاتا جو حضرت رحمہ اللہ مزید چند برس اور رہ لیتے لیکن فورا رب کریم کا فرمان یاد آیا إذا جاء أجلهم لا يستأخرون ساعة ولا يستقدمون پہر یہ کہہ کر خود کو تسلی دینے لگا کہ ان کے مقدر میں اتنی ہی عمر لکھی تھی،
آج اس کا بڑا احساس ہو رہا تھا کہ واقعی میرا رب کتنا کریم اور رحیم ہے کہ اس نے ہم پر ایمان بالتقدیر کو لازم کردیا ورنہ ایسے حادثات نہ جانے کتنے اور حادثات کا باعث بنتے،کوئ اندازہ نہیں بلکہ ایسا لگتا ہے ہمارے خالق نے ایمان بالتقدیر کو فطرت کا حصہ بنا دیا ہے یہی وجہ ہے کہ کافر اللہ وحدہ لا شریک لہ کے منکر ہونے کے باوجود تقدیر کو مانتے ہیں،جبکہ ان کے مذہبی پیشواؤں نے تقدیر پر اعتقاد رکھنے کی تلقین بھی نہیں کی ہے دوسری طرف تقدیر کے منکر ملحدین اکثر ذہنی انتشار کے شکار رہتے ہیں،
حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ میرے استاذ نہیں تھے چونکہ گاؤں کے ماحول میں اکثر بچے اپنے بڑوں کے قریب نہیں ہوتے اسلئے دور طالب علمی میں ایک عرصہ تک بچپنے کی وجہ سے ان سے کوئی زیادہ اور خاص تعلق بھی نہیں رہا ، بس دیکھتا تھا کہ ،سانولا رنگ، میانہ قد، چہرے پر عینک، گول ٹوپی،انتہائی صاف ستھرا لباس ایک ہاتھ میں دستی دوسرے بغل میں کتاب دبائے، منہ میں پان لیکن سلیقہ کی اعلی مثال، ایک نستعلیقی شخصیت، مکمل عالمانہ وقار کے ساتھ ہلکے ہلکے قدم بڑھائے مدرسہ کی طرف جارہے ہیں، سلام کے جواب میں ایک ہلکی مسکان بکھیرتے ہوئے دھیمے سے کہتے “وعلیکم السلام” پھر دورہ حدیث شریف کے بعد ایک دن دس منٹ کی ملاقات ہوئی اس دس منٹ نے میرے لئے حسرت و یاس کا ایک باب کھول دیا اور اپنی بدقسمتی پر افسوس کرنے لگا کہ گاؤں میں رہ کر میں ان سے کوئی استفادہ نہ کر سکا، پہر جتنی ملاقاتیں ہوئیں ان کی زندگی کے نئے نئے ابواب کھل کھل کے سامنے آتے گئے ، حضرت مولانا گفتگو فرماتے تو اندازہ ہوتا کہ اللہ ! قوم کے فرزندوں کیلئے اتنی تڑپ، طلبہ مدارس کیلئے اتنی فکر، اتنی بے قراری، بہت کم لوگوں میں نظر آئی، مدارس میں تعلیمی انحطاط سے ہمیشہ ملول خاطر نظر آتے، طلبہ کی تعلیمی ترقی کیلئے اکثر نئے نئے طریقے تلاش، ایک مرتبہ مدرسہ کے نوجوان اساتذہ سے فرمانے لگے کہ آپ کے اندر نیا جوش اور نیا حوصلہ ہے فکر بھی نئی ہے اگر آپ سمجھتے ہیں کہ موجودہ طریقہء تدریس میں تبدیلی کی ضرورت ہے تو مجھے بتائیں، اگر آپ یہاں طلبہ کیلئے کچھ الگ کرنا چاہتے ہیں اور خوف ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ آپ کے آڑے آجائے گی تو مت ڈرئے، میں اس بات کی پوری ذمہ داری لیتا ہوں کہ آپ کے قدم کوئی نہیں روکے گا، آگے بڑھئے اور اپنے حوصلے کو مرجھانے مت دیجئے، ہمیشہ ترو تازہ رکھئے، وہ جب بھی ملتے مسلسل مطالعہ اور پڑھنے پڑھانے کو اپنا نصب العین بنانے کی تلقین کرتے کہتے میرے عزیز زندگی ہے تو مسائل آئیں گے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مسائل کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں من جانب اللہ مواقع کی ایک ٹمٹماتی روشنی ضرور ہوتی ہے تم پختہ ایمان و یقین کے ساتھ مسائل سے سہمے بغیر خدا کے عطا کردہ موقع کی اسی روشنی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنا ،وہ طلبہ کی اس طرح حوصلہ افزائی کرتے کہ حالات کے زخم سے چور لنگڑاتے ہوئے طالب علم میں دوڑنے کی قوت پیدا ہو جاتی، طلبہ کو خود سے قریب کرنے کیلئے ان کے ساتھ ہنستے بھی ہنساتے بھی کھیلتے بھی کھلاتے بھی، حضرت نے گاؤں کے ایک چھوٹےطالب علم سے کہا جاؤ تم اپنے پیسہ سے پان لاؤ اور ہاں گھر سے پیسہ مت لینا اپنے خرچ کیلئے ملے پیسہ سے لاؤ پھر پان لانے کے بعد اس کو پیسہ دیا ،وہ بچہ جو آج بڑا ہو چکا ہے ہمیشہ کیلئے اپنے اس بے لوث استاذ سے قریب اور بہت قریب ہو گیا، وہ آج تک اپنی خوش نصیبی پر عش عش کرتا ہے، اور بچوں کو خود سے قریب کرنے اور ان سے استاذ کے بیجا خوف کو دور کرنے کیلئے حضرت کے اس خوبصورت انداز تربیت پر سر دھنتا ہے، وہ طلبہ و طالبات میں خود اعتمادی پیدا کرنے کیلئے نت نئے طریقے اپناتے وہ کہتے کہ اگر طالب علم میرے نزدیک اپنی بات مکمل اعتماد کے ساتھ نہیں کہہ سکتا ہے تو آئندہ عملی زندگی میں جہاں بالکل نئی دنیا ہوگی نئے لوگ ہونگے وہاں جا کر یا تو بالکل خاموش ہوجائے گا یا تکلفا خود اعتمادی ظاہر کرتے کرتے حد سے زیادہ خود اعتماد (over confident) ہوجائے گا جس کے اندر عموماً آداب مجلس کی تمیز تقریباً معدوم ہوتی ہے، طلبہ کے ساتھ خوب کھل کے گفتگو کرتے انہیں سوال کیلئے ابھارتے۔
ان کی زندگی کا نمایاں ترین پہلو یہ تھا کہ گاؤں کے کسی شخص نے ان کو کسی سے الجھتے نہیں دیکھا، یہ بظاہر ایک انہونی بات لگتی ہے کہ جب انسان سماج میں رہتا ہے، تو کہیں نہ کہیں اٹھا پٹخ کی نوبت آہی جاتی ہے لیکن میں نے اس انہونی کو کو ہونی میں بدلتے حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ کی زندگی میں دیکھا ہے، تلخ زبانی تو دور لوگوں کو کسی ناپسندیدہ عمل پر ڈانٹتے ہوئے بھی نہیں سنا،جلدی ناراض نہیں ہوتے اور ہوتے تو اتنی جلدی مان جاتے کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ ہوتی، گاؤں میں ان کے ہم نشینوں کا کوئی مخصوص حلقہ نہ تھا امیر، غریب، تعلیم یافتہ، اور ان پڑھ مزدور سب کے ساتھ ان کا تقریبا یکساں برتاؤ ان کی طبیعت کی سادگی کا غماز تھا، کٹھیلا ان کا سسرال تھا اسلئے گاؤں کے بچوں سے ہلکا پھلکا مذاق بھی کرلیتے، لیکن ساتھ ہی وہ بے جا اور لایعنی گفتگو، سطحی مذاق سے کوسوں دور تھے، وہ بہت بڑے صوفی نہیں تھے جن کا زمانے میں شہرہ ہو جن کی ہر نشست و برخاست میں ایک خاص تکلف کا امتزاج صاف جھلکتا ہو یا کسی مجلس میں ان کے ورود پر ہٹو اور بچو کی صدا گونجنے لگے، وہ شریعت کے پابند ایسے مولوی تھے جنہوں نے ایک طرف درس گاہ میں بیٹھ کر اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات سے ہزاروں طلبہ و طالبات کے قلوب کو منور کیا تو دوسری طرف اپنے ہر عمل سے عوام کو بتایا کہ شریعت کیا ہے، بڑی ذمہ داری کے ساتھ کہہ رہا ہوں کے عبادات کی پابندی کرنے والے آپ کو لاتعداد مل جائیں گے لیکن وہی لوگ معاملات اور اخلاقیات میں دین سے کوسوں دور نظر آئیں گے حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا امتیاز تھا کہ عبادات میں فرائض و واجبات اور سنن کی پابندی کرتے لیکن معاملات اور اخلاقیات میں دور اول کی یاد تازہ کر دیتے، اخلاقی زوال کے اس تاریک ترین عہد میں جہاں مادیت کے پہلو بہ پہلو آنے والی خود غرضی کے تلاطم خیز تھپیڑوں نے بڑے بڑے شرفا کے اخلاق کی نیا غرق کردی ہے اتنی پختہ اور با اصول و با اخلاق سماجی زندگی گذارنے والے نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں، حالات کی پریشانیاں اچھے اچھوں کی پیشانی کے نقشے بگاڑ دیتی ہیں لیکن اس عظیم المرتبت انسان کے حوصلے کو صدہا سلام کہ برے سے برے وقت میں بھی اپنی خندہ پیشانی اور ہونٹوں کی مسکراہٹ کو خود سے الگ نہ ہونے دیا، اس کے علاوہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ گاؤں میں رہنے والے علماء گاؤں اور علاقہ کے مالدار اورصاحب حیثیت افراد اور سیاسی بازی گروں کی جی حضوری کو اپنی مجبوری اور اہل مدارس کا نصیبہ سمجھ کر اپنی زندگی کا لازمی جز بنا لیتے ہیں جس نے ماضی قریب میں علماء کے وقار کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے ان دبنگوں کے ذہن میں بھی یہ بات گھر کر گئی ہے کہ اگر کوئی گاؤں کی مسجد کا امام یا مدرسہ کا مدرس ہے تو مالداروں کی کاسہ لیسی اور جی حضوری اس کے فرائض منصبی کا لازمی رکن ہے بصورت دیگر اسے “شرفاء” کے عتاب کیلئے تیار رہنا چاہئے، ہم نے جس قدر حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق سنا یا ان کو دیکھا انہوں نے کبھی کسی کی جی حضوری کا بار اپنے ضمیر پر نہیں ڈالا ہاں ہمیشہ أنزلوا الناس منازلهم پر عمل کرتے رہے ، اور یہی وجہ ہے کہ آج اس علاقہ کا ہر شخص اشکبار ہے، ہر شخص کی زبان پر ان کے شریفانہ برتاؤ کریمانہ اخلاق اور کردار کی پاکیزگی کا تذکرہ ہے۔
مدرسہ محمود العلوم دملہ کے بعد مولانا رحمة اللہ علیہ مدرسہ فیضان القرآن کٹھیلا میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے یہاں مدرسہ محمود العلوم کے برعکس درجات علیاء میں صرف لڑکیاں تھیں ایک نیا تجربہ ہو رہا تھا ظاہر ہے لڑکوں کے مزاج کے ساتھ ان کی ضروریات اور ان کا میدان عمل لڑکیوں سے مختلف ہوتا ہے، دوران تعلیم جن کا خیال رکھنا طلبہ و طالبات کی ذہنی ترقی کیلئے نہایت مفید اور بے حد ضروری ہے، مولانا رحمۃ اللہ علیہ لڑکیوں کی تعلیم میں مسائل کی باریکیوں اور نکتہ آفرینی سے زیادہ ان کی تربیت پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینے کے قائل تھے ، وہ لڑکیوں کو لڑکوں کے برعکس سرداً پوری کتاب کے بجائے خواتین کی زندگی سے متعلق حصوں پر خصوصی توجہ دیتے، دوره حدیث کی طالبات سے سال کے نصف آخر میں ہفتہ میں ایک دن شادی کے بعد سسرال میں پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل پر خصوصی گفتگو فرماتے، بعض طالبات ان نصیحتوں کو ڈائری میں نوٹ کرلیتیں ایسی ہی ایک ڈائری پڑھنے کا اتفاق ہوا اور حیرت ہوئی کہ چھوٹے چھوٹے گھریلو مسائل پر ان کی کتنی گہری نظر تھی اور ان کو حل کرنے کےلئے ان کو کتنے گن آتے تھے اس ڈائری میں وہ لڑکیوں کو اکثر اس بات کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ بیٹا اگر تم سسرال میں صرف دو سال ہر طرح کی پسندیدہ اور نا پسندیدہ باتوں پر خاموش رہ کر اپنے حقوق پر اصرار کئے بغیر ساس خسر اور شوہر کی خدمت کر لو تو تیسرے سال کی پہلی تاریخ سے ساری زندگی کیلئے تم سسرال والوں کے آنکھوں کا تارا بن جاؤ گی اس کے برعکس اگر تم پہلے دن سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرنے لگیں تو ہو سکتا ہے کہ تم گھر کی مالکن تو بن جاؤ لیکن اس گھر کی بیٹی کبھی نہ بن پاؤگی، تمہیں اس گھر کی بیٹی بننے کیلئے زندگی کے ابتدائی ایام میں حقوق پر اصرار سے بچنا ہوگا اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ظلم کو اپنا نصیبہ سمجھ لو بس یہ خیال رہے کہ بعض ضروریات پوری نہ ہو تو اصرار کے بجائے چشم پوشی کا راستہ اپنا لینا، اس کے علاوہ حضرت مولانا رحمة اللہ علیہ لڑکیوں کو اپنے شوہر سے توقعات کا دائرہ وسیع کرنے سے ایسے ڈراتے جیسے کسی خطرناک راستہ کے مسافر کو اس راستہ کے سب سے سنگین خطرہ سے بچنے کی بار بار تلقین کی جاتی ہے فرماتے کہ فطری طور پر ہر لڑکی کے دل میں اپنے شوہر سے کچھ توقعات وابستہ ہوتی ہیں بس یہ ذہن میں رہے کہ اس کا دائرہ وسیع نہ ہونے پائے کیوں کہ توقعات ٹوٹتے ہیں تو زندگی ایسے بکھرتی ہے جیسے ایک ہلکے سے جھٹکے سے تسبیح کے دانے، حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کی تمام نصائح کو جمع کیا جائے تو ایک خواتین انسائیکلو پیڈیا تیار ہو سکتا ہے، وہ جگہ جگہ ایسے نصیحت کرتے نظر آتے ہیں جیسے باپ اپنی بیٹی کو رخصتی کے وقت نصیحت کرتا ہے۔
ان کی کن کن خوبیوں کو شمار کیا جائے، کن کن صفات کا تذکرہ کریں وہ ایک انتہائی کامیاب استاذ ہونے کے ساتھ ایک بہترین مصلح اور مربی بھی تھے، زندگی میں انہوں نے بہت زیادہ مال و دولت جمع نہیں کیا؛ ہاں وہ صبرو قناعت اور بے نیازی کی دولت سے مالا مال تھے ،آج ان کے جانے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ انہوں نے عزت و وقار کے سرمایہ کا انبار اکٹھا کر لیا تھا، یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کی زبان پر ان کی خوبیوں کے قصے ہیں ان کے اخلاق اور دین داری کا تذکرہ ہے اور چونکہ زبان خلق نقارہ خدا ہوتی ہے یہی امید ہے کہ بارگاہ ایزدی میں بھی ان کے درجات بلند اور اور بہت بلند ہونگے ، اللہ سے دعا ہے کہ ان کے درجات مزید بلند کرے اور ان کے پسماندگان کے ساتھ شاگردوں اور دیگر متعلقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین ۔
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
ورنہ دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے