تبسم فاطمہ
مسلمان جذباتی اور مشتعل ہونے سے پہلے یہ خیال ضرور کریں کہ ان کے ساتھ اس وقت جو سلوک کیا جارہا ہے، کیا وہ کانگریس کے دور حکومت میں نہیں ہوا ؟ ابھی حال میں ایک امریکی ایجنسی کی تازہ رپورٹ میں بھی یہ تسلیم کیاگیا ہے کہ سماجی، معاشی، اور اقتصادی ترقی کے لیے مودی حکومت جو روڈمیپ تیار کررہی ہے، وہ کانگریس کے ترقی یافتہ پروگراموں کی ہی اک کڑی ہے— بی جے پی نے کانگریس کی حکومت میں جی ایس ٹی کی بھی مخالفت کی تھی— اب یہی جی ایس ٹی ملک کی ترقی کے لیے بی جے پی کو ناگزیر لگنے لگا ہے۔ مسلم پرنسل لا بورڈ، یکساں سول کوڈ جیسے معاملے بھی کانگریس کی حکومت میں کئی بار اٹھائے گئے۔ فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ دیکھئے تو آزادی کے ستر برسوں میں کانگریس اپنے دامن میں لگے ہوئے داغوں سے انکارنہیں کرسکتی۔ بابری مسجد کا تالا کھلوانے والی کانگریس تھی۔ مسجد میں مورتی رکھنے کا عمل بھی کانگریس کی حکومت میں پیش آیا۔بابری مسجد کے فیصلے کے وقت بھی کانگریس کا کردار مشتبہ رہا۔ میں یہ نہیں کہتی کہ ابھی جو کچھ ہورہا ہے، وہ ٹھیک ہے۔ دراصل اس وقت ملک جن حالات سے دور چار ہے، اس کی بنیاد کانگریس نے ہی رکھی۔ جذباتی ہونے سے اگر کسی کا نقصان ہوگا تو وہ مسلمان ہوںگے۔ مسلمانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ وقت ہوش کھونے کا نہیں ہے بلکہ ہوش سے کام لینے کا ہے۔ اس وقت سوشل ویب سائٹ پر مسلمانوں کی طرف سے جو باغیانہ بیانات دیکھنے کو مل رہے ہیں، اس سے کوئی حل نہیں نکلے گا بلکہ آپسی تعلقات میں تلخی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ میرا تعلق میڈیا سے ہے۔ جنید کے قتل کو لے کر میڈیا کے کئی دوستوں نے مجھ سے پوچھا کہ مسلمان اس قدر شور کیوں مچا رہے ہیں۔؟ ٹرین میں سیٹ کو لے کرقتل ہوا۔ کیا ایسے حادثات کانگریس کے وقت میں نہیں ہوئے—؟ دادری حادثہ اور پہلو خان کے قتل کو لے کربھی یہ خیال ظاہر کیا گیا کہ ملک کے لیے یہ واقعات کوئی نئے نہیں ہیں۔ مسلمان چونکہ بی جے پی سے فاصلہ رکھتے ہیں اورمودی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں، اس لیے کچھ زیادہ ہی شور مچا کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔
میں اس طرح کے خیالات کی حمایت یا تائید نہیں کرتی۔ لیکن سوچنا یہ بھی ہے کہ اس وقت یہاں ملک کے مسلمان اپنا سکون غارت کررہے ہیں، وہیں دوسری طرف میڈیا اور ملک کی اکثریت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخرایسے کچھ حادثوں پر اس قدر شور کیوں مچایا جارہا ہے—؟ یہی وہ لمحہ فکریہ ہے، جس کی طرف میں آپ کا دھیان کھینچنا چاہتی ہوں۔ یہ شور ہنگامہ مسلمانوں کو ملک کی مین اسٹریم سے کاٹ دیتا ہے۔ میڈیا میں مسلمانوں کا مذاق بنتا ہے۔ اور اکثریتی طبقے تک آسانی سے یہ پیغام پہنچ جاتا ہے کہ مسلمانوں کا رہن سہن، عام زندگی اور مسلمانوں کے خیالات ملک میں رہنے والے دوسرے طبقے کے عام خیالات سے مختلف ہیں۔ اور اس طرح بیکارکے شور ہنگامے میں نہ صرف مسلمانوں کی آواز دب کر رہ جاتی ہے بلکہ ایک طرح سے کہا جائے تو وہ آرام سے حاشیے پر ڈال دیئے جاتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تین برسوں میں ایسے بے شمار حادثے ہوچکے ہیں جس نے مسلمانوں کے صبر کا امتحان لیا ہے۔ لیکن ایک سوال اوربھی ہے کہ کیامسلمانوں کے کسی قائد نے مسلمانوں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی کوشش کی؟ ایک سوال اوربھی ہے، جس کا جواب ہندوستان کے پچیس سے تیس کروڑ مسلمانوں کو دینا ہے۔ اور وہ سوال ہے کہ کیا مسلمان اپنے مسائل کے حل کے لیے کانگریس، سماج وادی، بی ایس پی یا کمیونسٹ پارٹی کے پاس جائیں گے؟ ظاہرہے، یہ پارٹیاں خود اپنی سیاسی شناخت کے لیے پریشان ہیں تویہ پارٹیاں مسلمانوں کے مسائل کاحل کہاں تلاش کریں گی؟ اب دیکھنایہ ہے کہ مسلمانوں کے مسائل کا حل کس کے پاس ہے؟ ظاہر ہے جو پارٹی اس وقت حکومت میں ہے، مسلمانوں کے مسائل کا حل بھی وہی پارٹی تلاش کرسکتی ہے۔ اب اگرحکومت بی جے پی یا آرایس ایس کی ہے تو مسلمان ناراضگی مول لے کر اپنی کوئی بھی بات نہیں منوا سکتے۔ مسلمانوں کو اپنے ہر طرح کے مسائل کے حل کے لیے بی جے پی اور آر ایس ایس کا رخ ہی کرنا ہوگا۔ ایک چھوٹا سا واقعہ سناتی ہوں۔ ایک شخص نے گھرکے ملازم پر چوری کا الزام لگایا۔ مارا پیٹا، گالیاں دیں۔ وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ وہ چپ اس لیے نہیں تھا کہ اس نے چوری کی تھی۔ وہ اپنے ضمیر سے مطمئن تھا اوراس کا پہلا کام یہ تھا کہ وہ مالک کے لگائے گئے الزامات کو غلط ثابت کرے۔
غور کریں تو یہی راستہ ہے، جس سے مسلمانوں کو گزرنا ابھی باقی ہے— آزادی کے ستر برسوں میں مسلمان ہمیشہ شک وشبہات کے گھیرے میں رہے ہیں۔ بی جے پی اسی شک کا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ مسلمانوں کے لیے سب سے پہلا کام ہے کہ وہ شک اور الزام کا طوق اپنے گلے سے اتار پھینکیں۔ یہ کام مشکل نہیں ہے۔ یہ کام بہت آسانی سے کیا جاسکتا ہے۔ بی جے پی حکومت بننے کے ساتھ ہی مودی حکومت نے ایک نعرہ دیا۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس۔ مسلمان پیار سے وکاس کے مہم میںاپنے حصے کی مانگ کریں۔ متنازعہ ایشو کو کنارے رکھتے ہوئے مسلمان تعلیم کی شمع روشن کریں۔ مسلم بچوں کی ترقی اور تعلیم کو لے کر روڈ میپ تیار کریں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے اعلان کا مسلمان بھی سواگت کریں۔ مسلم لیڈران کے بیانات ملک کے وکاس کو مد نظر رکھتے ہوئے سامنے آئیں۔ ہم غیرمسلموں سے، محبت اور رواداری کی رسم کو پہلے سے زیادہ مضبوطی سے نبھانے کی کوشش کریں۔ ایک ماہ بعد ہی جشن آزادی کا دن آنے والا ہے— ہندوستان کے تمام مسلمان اس موقع پر اپنے گھر ترنگا لہرائیں۔ جشن آزادی کے ایک ہفتہ قبل سے ہی اخباروں اورسوشل میڈیا کے ذریعہ مسلمان آزادی کی تقریبات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا اعلان کریں۔ اس اعلان میں نمائش نہ ہو کیونکہ اب عملی طور پر بھی یہ دکھانے کا وقت آگیا ہے کہ مسلمان محب وطن ہیں۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ مسلم جانبازوں کے بغیرادھوری کہی جائے گی۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی، جہنم بھی
جو ہو ذوق یقیں پیدا توکٹ جاتی ہیں زنجیریں
مسلمانوں کو شدت سے اس بات کا احساس ہوجانا چاہیے کہ اب وہ اکیلے نہیں ہیں۔ بھیڑ کے ہاتھوں ہونے والی ہلاکتوں، اجتماعی قتل وغارت گری اورنفرت کے خلاف احتجاج میں اس وقت پورا ملک ان کے ساتھ ہے۔ اس احتجاج کی گونج عالمی پیمانے پر ہوئی ہے۔ ملک کے قلمکار اور دانشور طبقہ کی ناراضگی میں اضافہ ہوا ہے۔ یہی ہمارا جمہوری اور سیکولر کرداررہا ہے کہ جب بھی مسلمانوں پر کوئی مصیبت آئی ہے، سہارا دینے والوں کی کہیں کوئی کمی نہیں رہی ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کا قتل آسان نہیں۔ ہندو مسلم بھائی چارگی اور اس تہذیب کی سلامتی کے لیے اس وقت پورا ملک مسلمانوں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس لیے مسلمان اپنی طرف سے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جو ملک میں تیزی سے پھیلتی ہوئی نفرت کو ہوا دینے کے کام آئے۔
مسلمانوں کویہ قطعی نہیں بھولنا چاہیے کہ تاریخ میں اس سے بھی کہیں زیادہ پر خطر اورصبر آزما موڑ آچکے ہیں۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ محبت ہرموقع پر ہرشمشیر پرحاوی رہی ہے۔ اچھے اوربرے لوگ ہرقوم میں ہیں۔ مسلمانوں پرجب بھی مصیبت کے بادل منڈرائے ہیں، سہارا دینے والے غیرمسلمانوں کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ یہ وقت اشتعال انگیزی کا نہیں ہے۔ مسلمانوں کو یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ حق مانگنے کا بھی ایک طریقہ ہوتاہے۔ مسلم نوجوانوں کو بھی یہ بات سمجھ میں آنی چاہیے کہ سوشل ویب سائٹس پر ان کے ہر پوسٹ پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اشتعال میں آکر وہ کوئی ایسا بیان نہ دیں جو دشمنوں کے منصوبوں کو کامیاب کرسکیں۔ مسلمان نام نہاد سیکولر سیاسی پارٹیوں کے بہکاوے میں نہ آئیں۔ یہ نہ بھولیں کہ سیاسی پارٹیاں شروع سے مسلمانوں کا سیاسی استحصال کرتی رہی ہیں اور آج بھی کررہی ہیں۔ اب ہرقدم پھونک پھونک کررکھنے کا ہے۔ آپ اس بات پر یقین رکھیں کہ ایک دن نفرت کے بادل گزر جائیں گے اور آسمان صاف ہوجائے گا۔
tabassumfatima2020@gmail.com