أمیر سندھی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “و ما ارسلنک الا رحمةً للعالمين” ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ختم الرسل، امام الانبیاء، سیدالبشر قرادیا۔ آپ ﷺ کی ذاتِ مقدس کو تمام انس و جن کے لیے مثالی نمونہ اور آئیڈیل بناکر اعلان فرمایا: “اے دنیا میں بسنے والو! گر تم کامیاب ہونا چاہتے ہو، اپنی زندگی کو الجھنوں سے بچاکر عین فطرت کے مطابق گزارنے کےمتمنی ہو، زندگی میں سکون اور سُکھ کے متلاشی ہو؟ تو آؤ! کامل بشر کی مکمل سیرت کی بہاروں میں گم ہوجاؤ۔ تم کو ہر گز ہرگز مایوسی نہیں ہوگی۔ زندگی کے ہر موڑ اور حیات کے ہر ایک شعبے کے متعلق بہترین نمونہ، عمدہ، مثالی اور نایاب اسوہ دستیاب ہوگا۔
تمام انسانوں کی راہنمائی وہی شخصیت سر انجام دے سکتی ہے جس کو خود رب العلمین نے ہدایت کے لیے چنا ہو۔ باری تعالی فرماتے ہیں:”لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة.” تم لوگوں کے لیے رسول اللہ ﷺ (کی ذات) میں ایک عمدہ نمونہ تھا اور ہمیشہ رہے گا۔
(بیان القرآن) آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے نبوت ورسالت کے ساتھ ساتھ اور بھی اہم مناصب عطا فرمائے تھے۔ آپ بیک وقت کامیاب حکمران، عظیم سپہ سالار، قاضی القضاة، ماہرِ معلم، بکریوں کے چرواہے، عظیم سیاست دان، مثالی شوہر، مخلص یار، عظیم فاتح، رحم دل مشفق باپ اور لاجواب تاجر بھی تھے۔ غرض یہ کہ تمام خوبیاں آپ ﷺ کی ذات اقدس میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔
آپ ﷺ حیاتِ انسانی کے ہر ہر شعبے میں حرف آخر تھے۔آں حضرت ﷺ عرب کے مشہور قبیلے قریش میں پیدا ہوئے۔ سر زمین عرب تجارتی نقطہ نظر سے اہم محل وقوع پر ہے۔ قریش کو تمام عرب عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ بیت اللہ کے مجاور ہونے کی وجہ سے وہ اور ان کے قافلے لوٹ کھسوٹ سے محفوظ رہتے۔ وہ تجارت پیشہ تھے، اور تجارت کو شرف و عزت کا پیشہ سمجھتے تھے۔
آپ ﷺ کے جد امجد ہاشم نے تمام قبائل عرب سے معاہدے کرکے اس خاندانی پیشے کو ترقی اور استحکام بخشا۔ آپ کے کفیل چچا ابو طالب تاجر تھے۔ آپ ﷺ کی عمر بارہ سال تھی۔ چچا تجارتی سفر پر ملک شام جارہے تھے۔ آپ ﷺ جاتے وقت چچا سے لپٹ گئے اور ساتھ چلنے پر اصرار کرنے لگے، دل جوئی کے لیے چچا نے ساتھ لے لیا۔ بصرہ میں بحیرہ راہب کے مشورے سے واپس بھیج دیا۔ آپ ﷺ نے بڑے ہوکر کسب معاش کی لیے تجارت کو ہی منتخب فرمایا۔
سائب ابن قیس مخزومی کے مال سے کچھ عرصہ تجارت فرمائی۔ انھوں نے آپ کو صادق الأمین کا لقب دیا۔ راست بازی، دیانت داری، صدق و امانت نے آپ ﷺ کی تجارت کوچار چاند لگا دئیے۔ ہر سو آپ کے کمال آپ کی مہارت کے چرچے ہونے لگے۔ آپ اپنی بے مثال شخصیت، اوصاف حمیدہ، اخلاق عظیمہ کی بدولت مکہ کے چوٹی کے تجار میں شامل ہوگئے۔ صادق الأمین کی صلاحیت کی دھاک ہر فردِ بشر کے دل پر بیٹھ گئی۔ مکہ مکرمہ کے بڑے بڑے رئیس اور مال دار تمنا کرنے لگے کہ محمد ﷺ اُن کی تجارت کو اپنے دست مبارک میں لےکر چمکائیں اور ترقی دیں۔
مکہ مکرمہ کی ایک معزز خاتون خدیجہ بنت خویلد نے درخواست کی کہ اوروں کے مقابل دوگنے منافع پر آپ ﷺ میرا سامانِ تجارت سر زمین شام لے جائیں۔ آپ نے چچا کے مشورے سے یہ پیش کش قبول کی۔ خدیجہ کے غلام میسرہ کے ساتھ 23 یا 24 برس کی عمر میں شام کی طرف دوسری مرتبہ سفر فرمایا۔ اس سفر میں دوگنا، چوگنا منافع ہوا۔ امام حاکم نے مستدرک میں نقل کیاہے کہ: آپ نے یمن کی طرف دو تجارتی سفر فرمائے۔ جرش نامی مقام پر تشریف لے گئے تھے۔ اور بھی اسفار فرمائے تھے۔ بحرین کے سفر کا اشارہ کتب احادیث میں ملتا ہے۔
آپ ﷺ کی خدمت اقدس میں جب دور دراز سے وفد آنے لگے، تب بحرین سے عبدالقیس کا وفد آیا۔ آپ ﷺ نے بحرین کے بہت سے مقامات کے متعلق استفسار فرمایا تو انھوں نے تعجب سے پوچھا: “اے اللہ کے نبی! آپ ﷺ ہمارے علاقے کو ہم سے زیادہ کیسے جانتے ہیں؟” آپ نے فرمایا: “میں نے تمہارے علاقے کی سیر کر رکھی ہے۔”
عرب کے مشہور تجارتی میلوں میں آپ ﷺ سامانِ تجارت لے جاتے تھے۔ صداقت، امانت، دیانت اور راست بازی کی بنا پر آپ ﷺ کا سامان ہاتھوں ہاتھ بک جایا کرتا تھا۔
آپ ﷺ کی یہ تجارتی زندگی تجار کے لیے مشعل راہ ہے۔
۱_ تاجر صداقت پسند ہو، عارضی نفع کے لیے جھوٹ نہ بولے۔
۲_ امین ہو، خیانت کا تصور بھی نہ کرے، خیانت برکت کو کھا جاتی ہے۔
۳_ وعدہ کا سچا و پکا ہو، مؤمنین کو ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے۔
۴_ خریدتے وقت چیز کی اہمیت کم کرنے کی لیے اسکی برائی، مذمت نہ کرے۔ بیچتے وقت شئ کی حدسے زیادہ تعریف نہ کرے۔
۵_ اگر خود کے ذمے کسی کا کچھ ہو تو ٹال مٹول نہ کرے، کسی اور کے ذمے اپنا کچھ ہوتو تنگ نہ کرے۔ معاملات میں صاف گوئی کا معاملہ کرے۔
۴_ ناپ تول میں انصاف و ایثار کا دامن چھوٹنے نہ پائے۔
۷_ بھاؤ بڑھانے کے چکر میں مارکیٹ سے نہ غلہ غائب کرے، نہ ذخیرہ اندوزی کرے۔
۸_ عیب دار چیز گاہک کو بتائے بغیر نہ بیچے۔
۹_ ملاوٹ نہ کرے، نہ ہی ایسا سامان فروخت کرے۔
۱۰_ خرید و فروخت میں قسمیں نہ کھائے۔
شیخ الحدیث نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
“میں پہلے ہی لکھ چکاہوں کہ میرے نزدیک تجارت افضل ہے۔ وہ بحیثیت پیشہ کے ہے، اس لیے کہ تجارت میں آدمی اپنے اوقات کا مالک ہوتا ہے۔ تعلیم و تعلم، تبلیغ افتاء وغیرہ کی خدمت بھی کرسکتا ہے”
ترمذی شریف کی روایت ہے کہ: “سچا، امانت دار تاجر بروز قیامت انبیاء، صدیقین و شہدا کے ساتھ ہوگا۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ: “میں تمھیں تاجروں کے ساتھ خیر کے برتاؤ کی وصیت کرتاہوں، کیوں کہ یہ لوگ ڈاکیے اور زمین میں اللہ کے امین ہیں۔
آج کے اس دور میں بین الاقوامی، ملکی، اور بلدیاتی تجارت آں حضرت ﷺ کی سنت اور طریق پر آجائے۔ بزنس مین آپ ﷺ کی ہدایات اور فرمودات کو حرزِ جاں بنالیں تو چند مہینوں میں معاشی بحران اپنی موت مرجائےگا۔ دنیا میں بھوک، افلاس نہ ملے گی۔ آج معاشی بحران کی اصل وجہ غیر فطری تجارت اور سودی لین دین ہے۔