اسرارِ حج

ارشاد احمد قاسمی
صیقلِ باطن اور قوائے روحانی کی شستگی کیلئے اللہ رب العزت نے رنگا رنگ طریقے مشروع فرمائے۔ نماز ، روزہ ، زکوٰۃ ، وضوء وغیرہ جملہ عبادات روحانی ترقی اور باطنی صفائی کا کتنا بڑا کردار ادا کررہے ہیں ؟!! گویا اس ذات بے رنگ اور بے مثل کی بارگاہ میں نیازمندی اور اظہارِ عبودیت کیلئے ، طرح طرح کی عابدانہ تصویریں بندے کے اعضاء کی دن و رات کی حرکات و سکنات اور چہل پہل میں دیکھی جاسکتی ہیں ۔ ’’ حجِ بیت الٰہی ‘‘ اس کا ایک کامل و مکمل اور امتیازی نمونہ ہے جس میں بندہ عاشقانہ انداز میں جسمانی و مالی تکالیف کا تحمل کرکے ایسا مقام کی جانب سفر کرتا ہے جو اللہ کی قربت اور تجلیات کا گھر ہے ۔ جہاں انبیاء ، صلحاء و اتقیاء کی پیشانیاں اللہ کی نیازمندی میں جھکی ہیں۔ جو صالحین اور اللہ والوں کا منزلِ سفرہے جو اپنے پروردگار کی توجہات و عنایات کو حاصل کرنے کیلئے ، دوڈتے لپکتے ، سر کے عمامے و ٹوپی سے بے خبر ، مانوس لباس سے بے پروا ، زینت کی چیزوں سے الگ دیوانہ وار ،ایک لبیک کے ساتھ سر بسجود ہوتے ہیں ۔
حج بڑی حکمتوں اور اسرار پر مشتمل ہے جن میں مسلمان کے ہر طرح کے ظاہری و باطنی مصالح پھیلے ہوئے ہیں۔جیسا کہ قرآنِ کریم نے اس کی جانب اشارہ کیا ہے :(( لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ )) [[ الحج: ۲۸]] ’’ تاکہ اپنے فائدوں کیلئے آموجود ہوں‘‘۔
حج کے احکام و اعمال انسانی طبیعت و فطرت میں روحانی گداز پیدا کرتے ہیں ۔ جو دورانِ حج انسان کے صبر ، سادگی ، تواضع ، ہمدردی ، تعاون کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ اسرارِ حج پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’نفس کی طہارت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ آدمی کسی ایسے مقام میں قیام پذیر ہو ، صالحین جسے قابلِ تعظیم سمجھتے ہوں ، اسمیں زیادہ رہتے ہوں اور ذکرِ الٰہی سے اسکو آباد کرتے ہوں ۔ اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ انسانی طبیعتوں پر بھی اس کا عکس نظر آتا ہے ‘‘ ( حجۃ اللّٰہ البالغۃ: ۱؍۲۶۱ ط: حجاز)۔ گویا حج پرہیزگاری کا ایک عظیم ذریعہ اور تربیتی و اصلاحی مشق ہے ۔بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ یہی اصل اور بنیادی مقصد ہے ۔سورۂ بقرہ میں ہے :
(( اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمَاتٌ، فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ. وَمَاتَفْعَلُوْا مِنُ خَیْر یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَتَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَاتَّقُوْنِ یَا اُولِی الْاَلْبَابِ.: ۱۹۷)) ترجمہ: ’’ حج کے چند مہینے معلوم ہیں ۔ جو کوئی ان میں اپنے اوپر حج مقرر کرے تو نہ اس کے لئے فحش بات جائز ہے اور نہ کوئی بے حکمی درست ہے نہ کسی قسم کا نزاع و تکرار زیبا ہے ( بلکہ نیک کاموں میں مشغول رہنا ہی حج ہے)۔ اور جو نیک کام کرو گے خدا تعالیٰ کو اس کی اطلاع ہوتی ہے ۔ اور زادِ راہ لیا کرو اور بہترین زادِ راہ تقوی ہے ۔اور اے ذی عقل لوگو ! مجھ سے ڈرتے رہو ‘‘۔
پرورگار سے رشتہ محض قانون کا نہیں ، جو فرائض و واجبات کے دائرہ تک محدود ہو ۔ بلکہ قانون کے ساتھ ساتھ محبت و عشق کا رشتہ مضبوط کرنا بھی ایک مومن کے لئے ناگزیر ہے ۔سورۂ بقرہ میں ہے : (( وَالَّذِیْنَ آمَنُوْا أَشَدُّ حُبًّا لِلّٰہِ )) [البقرۃ: ۱۶۵] ’’اور ایمان والے اللہ سے مضبوط محبت رکھتے ہیں ‘‘۔ حج بیت اللہ، عشقِ الٰہی کے تجدید کا عظیم محرک ہے۔ جہاں صرف آنسو ہیں جو عشق کی آنکھوں سے بہتے ہیں ۔ محبت کے شعلے ہیں جو سچے دل سے اُٹھتے ہیں ۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ جو اسرار شریعت اور حکمتوں کی جانکاری میں یکتائے روزگار ہیں ، انہوں نے اس نکتے کو خوب واضح کیا ہے، لکھتے ہیں : وربما یشتاق الانسان الی ربہ أشد شوق ؛ فیحتاج الی شیء یقضی بہ شوقہ فلا یجدہ الا فی الحج.( حجۃ اللہ البالغہ: ۱؍۱۴۲ ) ’’ کبھی عاشق انسان کو اپنے محبوب پروردگار کی حد درجہ اشتیاق ہوتا ہے ، تو وہ عشق و محبت کی تپش اور بے قراری کے لئے دوا کی تلاش میں رہتا ہے ۔ تو اس وارفتگی کی تسکین اسے صرف حج میں دستیاب ہوسکتی ہے‘‘ ۔
حج مسلمانوں کا عالمی دینی اجتماع ہے ۔ حج وحدت کا ایک عظیم نمونہ ہے ۔ اس موقع پر اطراف عالم کے کروڑہا مسلمان ، الگ الگ شکلیں رکھنے والے ، مختلف زبانوں کے بولنے سمجھنے والے ، مختلف مزاجوں کے مالک ، ایک ہی لباس کے ساتھ ایک ہی مرکز میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ اور اتحاد کا ایک ہی نعرہ انکی زبانوں پے رواں ہوتا ہے: لبیک اللھم لبیک لا شریک لک لبیک ….. یہ ایک ایسی یک جہتی اور ہم اہنگی ہے جو دلوں پر اپنا اثر چھوڑے بغیر نہیں رہتی۔ قرآن کریم کی آیات کو ملاحظہ کیجیے :
(( وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا)) [[ البقرۃ: ۱۲۵]]’’ ہم نے بیت اللہ کو رجوع اور امن کا مقام بنا دیا‘‘۔
(( جَعَلَ اللّٰہُ الْکَعْبَۃَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ قِیَاماً لِّلنَّاسِ )) [[ المائدۃ: ۹۷ ]]’’ اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے مقدس گھر کو لوگوں کے لئے قیام کا سبب بنایا‘‘۔
(( اِنَّ اَوَّلَ بَیْت وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبَارَکًا وَھُدًی لِّلْعَالَمِیْنَ )) [[ آل عمران: ۹۶]] ’’بلا شبہ سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لئے بنایا گیا وہ گھر مکہ میں ہے ، برکتوں والا ہے اور سارے جہانوں کیلئے ہدایت کا ذریعہ ‘‘۔
ان آیات سے ظاہر ہے کہ حجِ بیت اللہ اہل توحید کیلئے عالمی اتحادی مرکز اور بین قومی اجتماع گاہ ہے ۔ چناچہ ا للہ تعالی نے حضرتِ ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا تھا جب انہوں نے کعبہ کی تعمیر مکمل فرمائی : (( وَاَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّعَلٰی کُلِّ ضَامِر یّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجّ عَمِیْق )) [[ الحج : ۲۷]]. ترجمہ: اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو ، لوگ تمہارے پاس پید ل چل کر اور دبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں گے دور دراز جگہوں سے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم نے کہا : اے میرے رب! لوگوں تک کیسے پہنچاؤں ، میری آواز ان تک نہیں پہنچے گی۔ تو اللہ نے فرمایا : (( نَادِ وعَلَیْنَا الْبَلاغُ)) تم آواز لگاؤ اور پہنچانا ہمارے ذمے ہے ۔چناچہ ابراہیم علیہ السلام ’’جبلِ ابی قبیس ‘‘پر کھڑے ہوئے اور کہا : (( یا اَیُّھَا النَّاسُ! اِنَّ اللّٰہَ قَدْ أَمَرَکُمْ بِحَجّ ھٰذَا الْبیتِ لِیُثِیْبَکُمْ بِہِ الْجَنَّۃَ وَیُجِیْرَکُمْ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، فَحَجُّوا )) ’’تمہارے رب نے اس گھر کے حج کا حکم کیا ہے تاکہ جنت کا انعام دے اور جہنم سے مامون رکھے، تم اسکا حج کرو ‘‘۔ تو پہاڑ جھک گئے یہاں تک کہ آواز زمین کے کناروں تک پہنچی اور انہوں نے بھی سن لیا جو رحم میں تھے اور جو ابھی صلب میں تھے ۔ اور اس نے بھی سن لیا جس پر اللہ نے مقدر کیا تھا کہ وہ حج کرے (قرطبی: ۱۴؍۳۶۰، ابن کثیر: ۱۰؍ ۴۲ )۔گویابیت اللہ، اللہ تعالیٰ کی جانب سے مسلمانوں کا عالمی اجتماع و اتحاد گاہ ہے ۔ اسکو مرکزیت حج کی وجہ سے حاصل ہے۔اور مسلمانانِ عالم کا اس مبارک مقام پر اکٹھا ہونا ، اسکے ساتھ یکساں طرز کا سادہ لباس پہننا ، نعرہ میں یک زبان ہونا اور اکٹھے اکٹھے مناسک ادا کرنا وحدت کا عظیم تصور پیش کررہا ہے ۔
حج امن قائم رکھنے کی ایک بے مثال بڑی تحریک ہے ۔اسلام نے جنگی جنون کو اشہر حرم یعنی ذو القعدہ ، ذو الحجہ ، محرم اور رجب ( جن میں تین مہینے حج ہی کے ہیں ) کے ذریعے ہی توڑا ۔ اسی کی وجہ سے راستے پرامن ہوئے ۔ لوگوں نے راحت کی سانس لی ۔ اور قیام امن کے لئے حج ایک معاون ثابت ہوا ۔ اسی حج کی وجہ سے مکہ مکرمہ محترم قرار پایا جو رہتی دنیا تک امن کاشہر ہے ((حَرَمًا اٰمِنًا )) [القصص: ۵۷]] ۔ اس میں کنارۂ دنیا سے آنے والے کیلئے بھی وہی امن ہے جو ایک مکی باشندے کا ہے۔ انسان تو کیا حیوانات و نباتات کو عیش و آرام اور امن کا مضبوط حق دیا گیاہے۔
حج مساوات کا عظیم پیغام دیتا ہے ۔ اسمیں نسلی ، وطنی ، رنگ و بو کا کوئی امتیاز نہیں ۔ حقوق سب کے برابر ہیں ۔ مقام عشقِ الٰہی کے مظاہرہ کا ہے ، تو مادی و نسلی یعنی دنیاوی امتیازات کو ایسے مقام پر کیسے پناہ مل سکتی ؟؟!!!۔ نیاز مندی بھی ایسے رب کے حضور جس نے ان جیسے امتیازات پر ابدی پابندی لگادی ہے۔ چناچہ مکہ کی سرزمیں جس طرح وہاں کے باشدوں کے لئے ہے ایسے ہی دنیا کے آخری حد سے آنے والے کے لئے ہے ۔کوئی حرم کی زمیں میں ملکیت کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ جو شخص جس جگہ بیٹھا ، کسی کو ہٹانے کا کسی کو حق نہیں ۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: (( مَکَّۃُ مُنَاخٌ لِمَنْ سَبَقَ )) ’’ جو جس مقام پر اُتر جائے وہ اسی کی ہے ‘‘ ۔قرآن نے اس کی جانب اشارہ کیا : (( سَوَاءَ نِ الْعَاکِفُ فِیْہِ وَالْبَادِ. الحج: ۲۵ )) ’’ دور سے آنے والا اور وہاں کا رہنے والا دونوں برابر ہیں ‘‘۔
اخلاق کی بلندی ایک مسلمان کی باطنی روح ہے ۔ احادیث میں صاحب اخلاق آدمی کی کئی بشارتیں وارد ہیں ۔ حج اخلاق کی بلندی کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ حج میں مشقتیں ہیں ۔سفر کی تکلیفیں ہیں ۔ ایک ایسی اجتماعی زندگی کا سامنا ہے ، جسمیں ہر مزاج کے لوگ ہیں ۔ تو ان حالات میں شریعت کا حکم ہے : فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقَ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ. یعنی نہ فحش بات جائز ، نہ کسی طرح کی حکم عدولی اور نہ کسی قسم کا نزاعی تکرار۔ حج ایک اجتماعی نظام ہے اور مشقت کا سفر ہے اور اجتماعی زندگی اور مشقت کے سفر میں عام طور سے انسان مشقتوں اور پریشانیوں کا سامنا زیادہ کرتا ہے تو ان حالات میں انسان اخلاقی توازن کھو بیٹھتا ہے ، جس سے خلاف شرع کاموں کا صدور یقینی ہے ، اسلام نے دورانِ حج ان چیزوں پر قطعی پابندی لگادی ، تاکہ انسان اخلاق کے بلند معیار کو پا سکے ۔
ہر دین کے لئے خاص نشانیاں ہیں جس سے اس دین کا تعارف ہوتا ہے ۔ اسلام کے تعارف کے لیے بھی شریعت نے نشانیاں مقرر کی ہیں اور اسے ’’ شعائر ‘‘ کا لقب دیاہے۔شعائر کے سلسلے میں اسلامی تعلیمات یہ ہیں کہ ان سے صحیح معنی میں محبت اور تعظیم ہو۔ قرآن کہتا ہے : (( وَمَنْ یُّعَظِّمْ شَعَاءِرَ اللّٰہِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِ )) ’’ جو لوگ خدا کی قائم کی ہوئی یادگاروں کی تعظیم کرتے ہیں، تو یہ ان کے تقویٰ پر دلالت کرتی ہے ‘‘۔ حجِ اسلام کا تعلق شعائر اسلام سے ہے ۔ حج کے دوران شعائرِ اسلام کی قلبی تعظیم کے ساتھ ساتھ ، ظاہری تعظیم کا موقع بھی ملتا ہے ۔ جس سے روحِ ایمانی کو صحیح غذا میسر ہوتی ہے جو انسان کی زندگی کے سدھار کے لئے ایک عمدہ کردار ادا کرتا ہے ۔
حج کا مقصدیہ بھی ہے کہ ملتِ اسلامیہ کے مؤسس و بانی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ تجدیدِ تعلق ہو۔ امتِ مسلمہ کو ان سے ملی ہوئی وراثت کی حفاظت کی جائے ۔اور انکے طے کردہ دعوتی طور طریقہ اور بنیادوں کو عام کیا جائے ۔ خرافات و تحریفات کا ابطال ہو۔ اپنے نفس کا احتساب ہو ( حجۃ اللہ البالغہ: ۲؍ ۸۷)۔ اللہ کے نبی ﷺ نے فرمایا: (( قِفُوْا عَلٰی مَشَاعِرِکُمْ فَاِنَّہ عَلٰی اِرْث مِن اِرْثِ اَبِیْکُم )) ’’ مقاماتِ حج پر ٹھہرو ؛ کیونکہ تم اپنے والد ( ابراہیم ؑ ) کی وراثت پر ہو‘‘ ۔اس سے معلوم ہوا کہ حج ابراہیمی نظریات و افکار کا یادگار ہے ۔ بصیرت کی نگاہ سے دیکھا جائے تو عیاں ہوگا کہ ابراہیم کدہ حجاز کا ذرہ ذرہ ابرہیمی تعلق کو بیان کرتا ہے اور مقامات مقدسہ عشقِ ابراہیمی کے غلغلۂ روحانیت سے گونجتارہتا ہے ۔تواس رشتہ کا تقاضہ یہی ہے کہ ابراہیمی وصیت کو ہم لبیک کہیں۔ فرمایا : ((اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰی لَکُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُوْنَ . البقرۃ : ۱۳۲)) ’’ اللہ نے تمہارے لئے ایک برگزیدہ دین ( اسلام ) منتخب فرمایا تم اس پر قائم رہتے رہتے مرنا‘‘ ۔
ا مام گام ہندوارہ
دارالعلوم سوپور کشمیر
8491019816

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں