احمد شہزاد قاسمی
ملت ٹائمز
ہندوستان ایک جمہوری ملک ہے جہاں ہر شخص کو اپنی رائے پر عمل کرنے کی آزادی ہے اپنے حقوق کا مطالبہ کر نے کے لئے تحریکیں چلانے اور پر امن احتجاج کی اجازت ہے
اربابِ اقتدار کی غلط پالیسیوں سے متاثر ہو کر ناراضگی کا اظہار پسمانگی کی بنیاد پر سرکاری ملازمتوں۔اور تعلیمی اداروں میں خصوصی رعایت کا مطالبہ عدالتی فیصلہ ظلم ونا انصافی کے علاوہ اور بھت سی چیزیں لوگوں کو احتجاج اور تحریک پر ابھارتی ہیں …اس طرح کا احتجاج عوام کا حق بھی ہے اور جمہوریت کا حسن بھی اور یہی جمہوریت کی شان ہے۔۔۔۔۔۔
وطنِ عزیز ہندوستان میں مختلف مذہب وبرادری کے لوگ مختلف موقعوں پہ مختلف طریقوں سے اپنا اپنا احتجاج درج کراتے ہیں تحریکیں چلاتے ہیں …کوئی پر امن طریقہ کو اپناتا ہے تو کوئی تشدد وتعصب رہزنی وہٹ دھرمی کے راستہ پہ چل پڑتا ہے…کبھی ادھ کھلے جسموں کے ساتھ احتجاج درج کرایا جاتاہے تو کبھی بھوک ہڑتال کرکے اور موم بتیاں جلاکر بھی ۔لیکن ہماری حکومتوں کا برتاؤ احتجاجیوں کے ساتھ ہمیشہ دوہری پالیسی پر مبنی رہا ہے
ایک طرف تو پر امن احتجاج کرنے والے طلبا بھی پولیس کی لاٹھیوں اور زیادتیوں کا شکا ہوتے ہیں امن و سلامتی کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے مظاھرین کے نہ صرف جائز مطالبوں کو مسترد کردیا جاتاہے بلکہ ان پر تشدد ہوزو ر آزماء کی جاتی ہے دوسری طرف تشدد کی تمام انواع واقسام کے ساتھ احتجاج کرنے والوں کے نہ صرف مطالبوں کو تسلیم کیا جاتاہے بلکہ انکی تحریک کے نتیجہ میں ہو نے والی تمام ہلاکتوں وبربادیوں کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
پچھلے دنوں گجرات میں ہاردک پٹیل کے ذریعہ پٹیل برادری کو ریزرویشن دلانے کے لئے تحریک چلائی گئی جسکے نتیجہ میں ہزارہا کروڑ روپے کا مالی نقصان ہوا، خوف وہراس کا ماحول پیدا ہوا لوٹ مار کے واقعات رو نما ہوئے۔
حالیہ دنوں میں ہریانہ میں جاٹ برادری کے افراد نے ہریانہ سمیت پورے ملک کو یر غمال بنانے کی کوشش کی ریلوے ٹریک پہ قبضہ کرکے آمدورفت کو متاثر کیا قومی راجدھانی دھلی کو سپلائی ہو نے والے پانی پہ قبضہ کرلیا کار خا نوں کو آگ لگا دی گاڑیوں کو نذرِ آتش کردیا گیا مسافروں کو لوٹ لیا گیا عورتوں کی عصمتوں کو تار تار کیا گیا اور یہ سب کچھ ریزرویشن کے مطالبہ پر چلاء گء تحریک کے نام پر ہوا ۔
ریاست اور مرکز دونوں جگہ ہی بی جے پی کی سرکار ہے لیکن کسی کی اتنی ہمت نھی کہ وہ جاٹوں سے یہ پوچھ لے کہ ریزرویشن کے مطالبہ کی آڑ میں ملک کے امن وامان میں رخنہ ڈالنے اور قومی جائیدادوں کو ہلاک کر نے کی تمہیں کس نے اجازت دی ….کارخا نوں کو آگ لگا کر آخر تم کو نسے حقوق کا مطالبہ کررہے ہو؟ سچی بات تو یہ ہیکہ حکومت میں اتنی بھی ہمت نھی کہ وہ یہ کہ سکے کہ یہ سب کچھ جاٹوں نے کیا ھے وہ تو اس ہلاکت کو چند نا پسندیدہ عناصر کی حرکت سے تعبیر کر رہی ہیبہر حال یہ تو حکومتوں کی اپنی اپنی پالیسیاں ہوتی ہیں سماجی سطح پر کام کرنے والے ہندومسلم افراد کو مل جل کر اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لےء مؤثر لائحہء عمل طے کرنا چاہئےء
ہریانہ کی حالیہ تحریک کے نتیجہ میں مالی اعتبار سے تقریبا پچاس ہزار کروڑ کا نقصان جبکہ جانی نقصان کے اعداد وشمار 18 بیس تک ہی پہونچتے ہیں ۔انسانی ہلاکتوں کے اعداد وشمار اس لئے کم ہیں کہ متاثرہ علاقوں میں مسلمان بہت کم تعداد میں ہیں اگر ہیں بھی تو وہ اپنی مذہبی شناخت کو بالکل مٹائے ہوئے ہیں سیاسی سماجی معاشی اور تعلیمی سطح پہ انتہائی پسماندہ ہیں کسی بھی میدان میًں انکی کوئی اہمیت ووقعت نھی اسلئے نا تو بلوائیوں کو ہی موقع ملا اور نہ ہی پولیس اور فوج کو اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے مسلما ن نظر آئے جس کی وجہ سے انسانی ہلاکتوں سے ہریا نہ کی سر زمین محفوظ رہی ۔
شمالی ہند کی ریاست ہریانہ کا کل رقبہ 24 ہزار 212 مربع کلو میٹر ہے۔2011 کی مردم شماری کے مطابق 45. 87 فیصد لوگ ہندو مت کے پیرو کار ہیں غیر ہندو اقلیت میں مسلمان 03. 7 فیصد سکھ 90. 4 فیصد ہیں ۔متاثرہ علاقوں کے مسلما ن اپنے بودوباش رہن سہن اور طرزِ زندگی میں بالکل ہندوؤں کے ہم نوا ہیں ۔ہم نے اپنے بچپن میں بزرگوں سے سنا تھا کہ پانی پت کے علاقہ میں مسلمان ہندوانی نام رکھتے ہیں گھروں میں مورتیاں سجاتے ہیں سروں پہ چوٹیاں چھوڑتے ہیں
اس وقت یہ بات بعید از قیاس معلوم ہوتی تھی کہ مسلمان کتنابھی کم عمل اور متزلزل فی العقیدہ ہو آ خر یہ سب کچھ کیسے کر سکتاھے لیکن اب سے تین سال قبل فروری 2013 میں چند ساتھیوں کے ساتھ ہریا نہ کے ایک بڑے شہر جند؛ میں چند روز قیام کا موقع ملا آس پاس کے دیہاتوں میں بھی جانا ہواتو بزرگوں سے سنی ہوئی باتوں کو اپنی بد نصیب آنکھوں سے دیکھنا پڑا اور کانوں کو یہ سننے پر مجبور ہو نا پڑا کہ یہاں مسلم لڑکوں کے نام شنکر اور سشیل ہوتے ہیں لاکھوں افراد پر مشتمل جند جیسے بڑے شہر میں صرف تین افراد ہی مسلم وضع قطع کے حامل تھے ۔
یہ وہاں کے مسلمانوں کی صورتِ حال ہے اسکے برخلاف اگر مسلمان اقتصادی معاشی سماجی مذہبی وعملی پر کچھ بھی نمایاں ہوتے تو بلوائیوں کے ساتھ ساتھ پولیس اور فوج کا غصہ بھی مسلمانوں کو جھیلنا پڑتا اور مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصانات کے اعدادوشمار بھی کئی سو گنا ہو جاتے۔ برسوں سے مسلمان جس فرقہ وارانہ فسادات میں جو ظلم وزیادتی برداشت کر رہے ہیں اسکا کچھ نہ کچھ احساس ہمارے ان بھائیوں کو ہوا ہوگا جو ہندو ہونے کے باوجود مشقِ ستم بنائے گئے۔ہم ایسے لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو تحریکوں کی آڑ میں اپنی برتری اور اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔
ہریانہ میں ذات برادری کے لحاظ سے جاٹ 34 فیصد کے ساتھ اکثریت میں ہیں اپنی اسی اکثریت کا بھرم رکھنے اور چودھراہٹ ثابت کر نے کے لئے جاٹوں نے کئی دن تک وہاں قیامت کا منظر پیش کیا اور حکومت خا موش تماشائی بنی رہی ۔مسلمان تو آزادی کے بعد سے مسلسل اس صورتِ حال سے نبرد آزما ہیًں …مذہبی اقلیت ہونے کی وجہ سے نہ صرف اکثریت کے نشانہ پہ رہتے ہیں بلکہ امن وامان کے محافظ پولیس اور فوج کی تمام تر جانبداریوں کا شکار بھی ہوتے ہیں۔
ہریانہ میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی یہ ان تمام ہندو بھائیوں کے لئے لمحہء فکریہ ہے جو ہندو ہونے کے باوجود برادری کے اعتبار سے اقلیت میں ہیں اس پر قدغن لگانا ضروری ہے ورنہ ملک کے طول وعرض میں برادری کے اعتبار سے ہندو اقلیتوں کو اکثریت کے ظلم وستم کا تختہء مشق بننے کے لئے تیار رہنا چاہئےء اور اس سلسلہ میں کسی مدد کی توقع حکومت سے نہیں کرنی چاہئے۔مسلمانوں کے ساتھ مل کر کوئی ٹھوس متحدہ لائحہء عمل طے کرنا چاہئے۔اس کے لےء سپریم کورٹ کے ذریعہ پیش کی گئی تجویز کی تائید وحمایت کرکے اسکے عملی نفاذ کی کوشش اہم پیش رفت ہوگی ۔سپریم کورٹ نے حالیہ صورتِ حال کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں کسی بھی قسم کی تحریک کو منظم کرنے والوں سے اس نقصان کی قیمت وصول کی جائے جو انکی تحریک کے سبب واقع ہواہے۔ جمعیتہ علماء ہند بھی برسوں سے اس سے ملتی جلتی تجویز پیش کر رہی ہے اور حکو متوں سے مطالبہ کر رہی ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کو روکنے کے لےئے انسداد فرقہ وارانہ بل پاس کرے
جمعیت کی تجویز ہے کہ کہیں بھی فرقہ وارانہ فساد ہو تو فساد زدہ علاقہ کی اکثریت اور ضلع انتظامیہ کو اس کا جواب دینا ہو گا اس تجوہز سے فرقہ وارانہ فسادات میں یقیناًکمی آےء گی لیکن حکومتیں اس بل کو خاطر میں نہیں لاتی۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے بھی اس سلسلہ میں پہل کی ہے جمیعیت کی قیادت کو چاہئےء کہ اپنے جماعتی دائرہء کار سے اوپر اٹھ کر مختلف مکاتبِ فکر کے ملی رہنماؤں کو لیکر برادرانِ وطن کے انصاف پسند اور متفق علیہ کے ساتھ ملکر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کرکے انسداد فرقہ وارانہ فساد بل اور ملک کی اعلی عدالت کے ذریعہ پیش کی گئی مذکورہ تجویز کے عملی نفاذ کے لئے راہ ہموار کرے اور ملک گیر تحریک چھیڑ دے ۔
بہر حال ….ہندوؤں کے وہ طبقہ جو چھوا چھات ذات پات اور اونچ نیچ کا شکار ہیں مسلمانوں کے ساتھ ملکر ہی کوشش کریں تو اچھے نتائج آسکتے ہیں اور ملک سے اجارہ داری کی لعنت کو ختم کیا جا سکتاہے۔مسلمان ہندوؤں کے دکھ درد کو محسوس کریں اور ہندو بھائی مسلمانوں پر ہو رہے ظلم وستم کو سمجھیں اور انکے استحصال کو روکنے کے لئے مشترکہ کوشش کریں تو حوصلہ افزا نتائج کی امید کی جا سکتی ہے ورنہ انفرادی طور پہ تو مایوسی وذلت ہی ہاتھ آئے گی
آ عندلیب!مل کے کریں آہ وزاریاں
.تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل