میرے خوابوں کا تاج محل ’’دارالعلوم دیوبند‘‘

محمد عارف اقبال
حجۃ الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی ؒ نے دار العلوم دیوبند قائم کرکے اپنے اس خواب کو شرمند�ۂ تعبیر کیاجس کو انہو ں نے بچپن میں دیکھ کر بیا ن کیا تھا کہ’’ خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہو ں اور میرے ہاتھوں اور پیروں کی دسوں انگلیوں سے نہریں جاری ہیں اور اطراف عالم میں پھیل رہی ہے ۔‘‘ (سوانح علماء دیوبند ج ا صفحہ نمبر ۵۹) دنیا نے دیکھ لیا کہ یہ خواب دار العلوم دیوبند کی شکل میں حقیقت بن کر جلوہ گر ہوگیا ۔ یہ15؍جون 2011ء کی بات ہے جب راقم پہلی بار قومی راجدھانی دہلی بغرض امتحان(ٹی وی جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکشن،جامعہ ملیہ اسلامیہ) آیا تھا۔ طے شدہ پروگرام کے مطابق دربھنگہ سے بہار سمپرک کرانتی سوپر فاسٹ ٹرین سے چلا اور اگلے دن صبح 5؍ بجے نئی دہلی اسٹیشن پہنچا ۔ اس درمیان یادوں میں غوطہ کھاتارہا کہ بچپن سے جن چیزوں کو صرف کتابوں اور ٹیلی ویژن پر دیکھا کرتا تھا عنقریب ان چیزوں کا نظارہ اب میری آنکھوں کے سامنے ہوگا ۔ مگر افسوس دہلی پہنچ کر بھی آگرہ کا تاج محل ، لال قلعہ ، انڈیا گیٹ ، جامع مسجد ، پارلیمنٹ ہاؤس ، ہمایوں کا مقبرہ ، نظام الدین اولیاء ، جنتر منتر جیسی تاریخی چیزوں کو نہیں دیکھ سکاتھا ۔ وجہ یہ تھی کہ نئی دہلی میں ایک ہی شب ٹھہرنے کا موقع ملا ۔ جبکہ ارادہ یہ تھا کہ ایک ہفتہ رہ کر ان تمام مقامات کو دیکھ اپنے دل و دماغ کو محظوظ کروں گا مگر اگلے ہی دن ہمارے مخلص دوست مولوی تاج الدین جو مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم کے ساتھی تھے اور اس وقت دار العلوم میں دورۂ حدیث کے طالب علم تھے،ان کے طویل اسرار پر ان مقامات کی سیر رد کرکے دار العلوم دیوبند جانے کا ارادہ مضبوط کرلیا ۔ نئی دہلی سے جالندھر اکسپریس میں سوار ہو ا جو دن کے ڈھائی بجے کھلی ویسے تو دیوبند کے بارے میں اتنی بات پہلے سے معلوم تھی کہ دہلی سے ڈیڑھ سو کیلو میٹر دور ضلع سہارنپور کا یہ قصبہ ہے جس کی آبادی تقریبا ڈیڑھ دو لاکھ پر مشتمل ہے اور پوری بستی میں علماء فضلاء کی بھر مار ہے اور یہی مجاہدین آزادی کا عظیم مرکز بھی ہے ۔تین گھنٹہ کے سفر میں ماضی کی حسین وادیوں میں کھویا رہا جب کہ بچپن میں ابتدائی تعلیم کے زمانے میں والدین اور اساتذہ تعلیم میں توجہ دلانے کے لئے یہ کہتے ’’ اگر تم محنت سے پڑھوگے تو تمہیں دارالعلوم دیوبند جیسے عظیم الشان مدرسہ میں بھیجا جائے گا ‘‘۔ دار العلوم دیوبند کی عظمت و اہمیت تو بچپن سے ہی دل و دماغ میں بسی تھی ۔جیسے جیسے ٹرین فولادی شکل راستہ کو چیرتے ہوئے منزل مقصود تک پہنچنے کی کوشش کررہی تھی اس سے کہیں زیادہ میرے دل میں اضطرابی کیفیت کا عالم تھا کہ دار العلوم دیوبند میری نگاہوں کے سامنے ہوگا تو خود کو کتنا خوش قسمت تصور کروں گا ۔ انہیں خیالوں میں تھا کہ اچانک بغل سے ایک مولانا صاحب نے ہاتھ دباتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ کو دیوبند اترنا ہے ؟بس آنے ہی والا ہے .. آپ تیار ہوجائیں …۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے دیوبند اسٹیشن کا انتظار کرنے لگا ۔ اور کچھ ہی منٹوں میں پلیٹ فارم پر گاڑی لگتے ہی ٹرین سے تقریبا سو ا چھ بجے اتر گیا ۔ دیوبند اسٹیشن اترتے ہی دار العلوم دیوبند کی بھینی بھینی خوشبو آنے لگی تھی ۔ اور پھر یکایک نظر ان مہمان رسول پر پڑی جو سفید کرتا ، پائجامہ اور گول ٹوپی میں ملبوس جھنڈ کا جھنڈ تفریح کررہے تھے ۔ ان لوگوں سے دعاء سلام کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں سے کوئی ایک کیلو میٹر کے فاصلے پر دار العلوم ہے پھر میں نے جھٹ سے رکشہ کیا ۔ رکشہ والے بھیا بھی اجنبی سمجھ کر دار العلوم کی خصوصیات کے بارے میں اتنا کچھ بتاگئے کہ میں حیران رہ گیا ۔ اسی نے بتایا کہ دار العلوم کا آغاز 15؍ محرم الحرام 1282ھ بمطابق 30؍ مئی 1866ء بروز جمعہ بمقام مسجد چھتہ دیوبند میں ہوا ۔ پھر میں نے جانچنے کے لئے پوچھا کہ دار العلوم دیوبند کی بنیاد کن لوگوں نے ڈالی تھی ۔ تو رکشہ والے نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا ۔ 1282ھ میں دار العلوم کے آغاز کے بعد تقریبا دس سالوں تک یہ مدرسہ مسجد چھتہ میں پھر مسجد قاضی میں اور جامع مسجد دیوبند وغیرہ میں چلتا رہا ۔ اور جب علاحدہ عمارت کی ضرورت پیش آئی تو اس جگہ کی انتخاب عمل میں آیا جس کے بارے میں عرصہ دراز پہلے حضرت سید احمد شہید ؒ نے فرمایا تھا ’’ کہ مجھے یہاں سے علم کی خوشبو آرہی ہے ‘‘۔
اس نے یہ بھی بتایا کہ ان جگہوں پر شہر کے لوگ کچڑا و گندگی ڈالا کرتے تھے اور آج اسی مقام پر دار العلوم کی سب سے پہلی عمارت قائم ہے ۔ میں نے پوچھا کہ کیا ثبوت ہے کہ تم نے یہ ساری باتیں سہی بتائیں ہیں ۔تو اس رکشہ والے بھیا نے کہا ’’ بابو ‘‘ دار العلوم سے تو یہاں کا بچہ بچہ واقف ہے ۔ اگر پھر بھی یقین نہ ہو تو علماء حق جلد اول صفحہ نمبر 72دیکھ لینا ثبوت مل جائے گا ۔ ابھی میں اس سے کچھ سوالات کرنے ہی والا تھا کہ اس نے ٹوکتے ہوئے کہا ’’ لیجئے دار العلوم آگیا ‘‘ اور یہ باب قاسم ہے ۔ اس رکشہ والے کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں نے بیس روپیہ ادا کیا ۔ پھر میں اپنے من میں سوچا کہ جب باہر رکشہ چلانے والو ں کا یہ حال ہے تو اندر رہنے والے صاحب علم کا کیا حال ہوگا ۔ پھر جیسے ہی ان کا نام جاننا چاہا تو وہ جاچکے تھے ۔
’’باب قاسم کے پاس فرشتوں جیسے نورانی چہرے والے مہمانان رسول پر نگاہ پڑی تو ایمان میں اضافہ ہوگیا اور لگا کہ واقعی کسی جنت نما جگہ پر پہنچ گیا ہو ۔ جہاں ہزاروں کی تعداد میں فرشتوں جیسے طلباء کی آمد و رفت خوشگوار فضاء قائم تھی ۔ مگر ان کے درمیان خود کو تنہا محسوس کرنے لگا چونکہ مولوی تاج الدین کا موبائل بھی نہیں لگ رہا تھا ۔ خیر ایک گھنٹہ کے بعد تاج الدین بھائی سے ملاقات ہوئی اور انہو ں نے معذرت کے ساتھ میرا پر جوش استقبال کیا ساتھ میں ان کے دوست عبد الرافع بھی تھے ۔ کچھ گفت و شنید کے بعد جیسے ہی احاطہ دار العلوم میں قدم رکھا مجھ کو اسلامی دنیا و روحانی فضاکا سکون و طمانیت نے گھیر لیا ۔ اور پھر اندر دار الحدیث کا روح پرور منظر نے دل و دماغ نے ٹھنڈک پہنچائی ۔ جس سے سفر کی ساری تھکان دور ہوگئی او رپھر یکایک یہ شعر میرے ہونٹوں پر جاری ہوگیا ۔
جذبہ دل نے آج کوئے یار میں پہونچا دیا
جیتے جی میں گلشن جنت میں داخل ہوگیا
مغرب کے بعد پورے دار العلوم کے کونے کونے سے قرآن و حدیث کی آواز گونج رہی تھی۔ تاج الدین بھائی نے مجھے دار جدید میں اپنے کمرہ نمبر 27میں ٹھہرایا اور پھر کچھ وقت کی فرصت لے کر درسگاہ چلے گئے ۔ جہاں حضرت مولانا عبد الحق صاحب دارالحدیث میں بخاری شریف کا درس دے رہے تھے ۔ اس دار الحدیث کے احاطہ دار جدید میں تقریبا 200کمرے ہیں اور ہر کمرے میں عموما 10طلباء رہتے ہیں اس کے علاوہ دار العلوم کی اپنی چند بڑی عمارتیں ہیں جن میں طلباء قیام کرتے ہیں ۔ ان میں آسامی منزل ، اعظمی منزل ، افریقی منزل ، حکیم الامت منزل ، شیخ الاسلام منزل ، رواق خالد وغیرہ ان میں سے اکثر عمارت 200کمروں پر مشتمل ہے ۔ اس کے علاوہ احاطہ مولسری ، احاطہ باغ ، احاطہ مسجد رشید و تہہ خانہ ، احاطہ دفتر ، باب الظاہر (یہ دار جدید کا صدر دروازہ ہے اور 25کمروں پر مشتمل ہے یہ افغانستان کے بادشاہ ظاہر شاہ کے پر خلوص عطیہ کی یاد گار ہے ) میں بھی طلباء کا قیام ہے ۔ ان کے علاوہ پچیس سے زائد درسگاہیں ہیں ان میں سے سب سے بڑی درسگاہ دار الحدیث ہے ۔ عشاء کی نماز مسجد چھتہ میں ادا کر ہم لوگ ہوٹل میں کھانے چلے گئے جہاں کی بریانی بہت مشہور ہے ۔ اس درمیان تاج الدین بھائی سے دار العلوم کے حالات حاضرہ پر بھی گفتگو ہوئی اور پھر میں نے رکشہ والے بھیا کا واقعہ بھی بتایا تو انہوں نے بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مزید آگے بتایاکہ دار العلوم کے مہتمم ثانی حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمتہ اللہ کے دور اہمتام میں دار العلوم کی پہلی عمارت کے لئے ذمہ دار وں کے مشورہ سے بنیاد کے نشانات ڈالے جاچکے تھے ۔ حضرت شا ہ رفیع الدین صاحب نے خواب میں دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقام پر تشریف فرما ہیں اور ارشاد فرمارہے ہیں کہ ’’ یہ احاطہ بہت مختصر ہیں ‘‘ یہ فرمانے کے بعد آپ نے عصاء مبارک سے زمین پر بنیاد کے لئے نشان لگایا کہ دیوار یہاں آنی چائیے اور اس نشان پر عمارت بنائی جائے ۔ صبح اٹھ کر جب دیکھا گیا تو زمین پر نشان موجود تھا اور اسی نشان پر بنیاد کھودا کر تعمیری کام شروع کردیا گیا ۔ ( روداد ۱۳۰ھ صفحہ ۱۲بحوالہ تاریخ دار العلوم ج ا )تاج الدین بھائی نے بتایا کہ دار العلوم کی پہلی عمارت کا سنگ بنیاد ۲ ذی الحجہ ۱۲۹۲ھ کو بعد نماز جمعہ جامع مسجد میں بہت سے اکابرین و مشائخ کے اجتماع میں ہوا اور سب سے پہلی اینٹ میاں جی منا شاہ نے رکھی ،دوسری اینٹ حضرت عابد حسین صاحب نے رکھی پھر تیسری حضرت گنگوہی نے اس کے بعد حضرت قاسم نانوتوی ؒ نے رکھی اس کے بعد پورے مجمع نے رکھی۔ جب بنیاد رکھی جاچکی تو تمام لوگوں نے دار العلوم کی بقا ء اور ترقی کے لئے نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ بارگاہ ایزدی میں دعا ء کی ۔ یوں ہی بات کرتے کرتے شب کے دو بج گئے ۔ لیکن دار العلوم کے اندر اور باہر طلباء کے آمد رو فت میں کوئی فرق نہیں پڑا تھا ۔ یہاں تک کہ تعلیم کا سلسلہ بھی بدستور جاری تھا، دارالعلوم میں ویسے تو دس ہزار طلبہ داخلہ کے لئے پہنچتے ہیں مگر ان میں سے صرف چار ہزار ہی طلبہ کا داخلہ ہوپاتا ہے۔ تاج الدین بھائی نے کہا کہ آپ سوجائیں، تھک گئے ہوں گے، یہ تو طلبا کا روزانہ کا معمول ہے، میں جاکر سوگیا۔ صبح فجر کی اذان ہوگئی، جب نیند سے بیدار ہوا تو کمرے میں دیکھا زیادہ تر طلبا اپنے بیڈ پر کتابوں میں اب تک مشغول تھے۔ حضرت مولانا افضل صاحب ناظم دارالاقامہ تمام طلبہ کو بڑی عاجزی وانکساری سے جگارہے تھے، اذان کے بعد کا جو منظر تھا وہ دیکھنے کے لائق تھا کہ ہر ایک مسجد کی جانب ایسا چل رہاتھا جیسے کوئی عام مسلمان عید کی نماز کے بڑے اہتمام سے عیدگاہ کی طرف جلدی جلدی جاتا ہے حتی کہ یہاں کی مساجد ہر نماز میں عیدگاہ کا منظر پیش کرتی ہیں، دارالعلوم میں نمازوں کااہتمام بہت زیادہ ہے، اس کا مشاہدہ حضرت علامہ قمرالدین صاحب مدظلہ العالی کے حوالے سے حکیم الاسلام قاری محمد طیبؒ کی زبانی سنی ہے ’’میں نے تین جگہوں کا ماحول اچھی طرح دیکھا ہے۔ ۱؂ گنگوہ کا جس میں ذکر واذکار کی کثرت ہے۔ ۲؂ تھانہ بھون کا جس میں معاملات کی صفائی زیادہ ہے۔ ۳؂ دیوبند کا جس میں نمازوں کا اہتمام بہت ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ یہاں نماز پڑھانے کے لئے ہروقت ڈنڈا لیکر کوئی پیچھے نہیں پڑا رہتا بلکہ یہاں کے ماحول کا جادو ہی ایسا ہے کہ وہ بے نمازی کو بھی نمازی بنادے۔ دارالعلوم کی ارد گرد تقریباً 10مساجد ہیں، چار مسجدیں تو دارالعلوم سے متصل ہیں جو مصلیوں سے ہمیشہ بھری رہتی ہیں اور ان میں ہرنماز میں مائک سے ادا ہوتی ہے۔ اسی طرح ان مسجدوں میں صاحب ترتیب حضرات کے علاوہ ایسی شخصیتیں بھی تکبیر اولیٰ سے صف اول میں نماز ادا کرتی ہے جن کی زیارت وملاقات کے مشتاق حضرات ہزاروں روپے خرچ کرکے سفر کی مشقت برداشت کرکے آنا پڑتا ہے لیکن یہاں پڑھنے والوں کو خدا کے فضل سے بسہولیت وبلاقیمت ان شخصیتوں کا دیدار میسر آتا ہے اور مفت میں ان سے بات چیت بھی ہوجاتی ہے۔ بہرحال فجر کے وقت صبح دودھیا روشنی میں جس مسجد میں نماز ادا کرنے گیا وہ چمک سے ہرلوگوں کو متاثر کررہا تھا۔ اس مسجد کو ہندوستان کا دوسرا تاج محل بھی کہا جائے تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ جی ہاں! ہم بات کررہے ہیں مسجد رشید کی جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ کی یاد میں بنائی گئی ہے اور جو مسلمان بھائیوں کے تعاون کا ثمرہ اور حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی مدظلہ کے ذوق تعمیر کا عکس جمیل ہے۔ یہ سہ منزلہ مسجد جو انتہائی خوبصورت سفیدی میں نیچے اوپر تک سنگ مرمر سے دودھ میں دھلی ہوئی، جس کے پہلو میں قطب مینار کے طرح دو لمبے مینار ہیں، مسجد کے اوپر چمکنے والا گنبد گنبد بیضا ہے جو اپنی ہےئت سے گنبد خضریٰ کی یاد تازہ کرتا ہے، مسجد کے صدر دروازہ کا بیرونی نقشہ تزئین کاری میں تاج محل کو شرمندہ کرتا ہے، اوپر اور اندرون کا حصہ شان وشوکت میں لال قلعہ سے بازی لے جاتا ہے۔ اس مسجد کی خصوصیت یہ ہے کہ صرف چھت کے نیچے آٹھ ہزار اور پوری مسجد میں بشمول صحن بیس سے بائیس ہزار مصلی بیک وقت نماز ادا کرسکتے ہیں۔ گویا کہ یہ نیا عجائب کا قابل رشک مجموعہ اور قدیم وجدید طرز تعمیر کا حسین سنگم ہے۔ حضرت مولانا ریاست علی بجنوری مدظلہ العالی نے کیا ہی خوب ہے:
خالقؔ نے یہاں اک تازہ حرم اس درجہ حسیں بنوایا ہے
دل صاف گواہی دیتا ہے یہ خلدبریں کا سایہ ہے
فن تعمیر کے اس عظیم شاہکار کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرسکتی بلکہ دنیا کو بتاتی رہے گی کہ ایسے تعمیری کارنامے صرف دنیاوی بادشاہوں کے حصے میں ہی نہیں بلکہ بوریہ نشیں روحانی شہنشاہوں کے قبضے میں بھی ہیں، بہرحال دارالعلوم دیوبند ہندوستان ہی نہیں بلکہ ایشیا وعالم اسلام کی ممتاز تعلیم گاہ ہے، جہاں ملک وبیرون ملک سے سات سمندر پار کرکے یہاں علمی فیض حاصل کرنے آتے ہیں اور اس دارالعلوم کو ’’ازہرہند‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دارالعلوم دیوبند صرف دینی درسگاہ اور محض تعلیم گاہ وروحانی جلوہ گاہ اور چند بڑی عمارتوں کا نام ہرگز نہیں بلکہ وہ تو ایک ایسی فکر اور ایسی تحریک کا نام ہے جو پوری دنیا میں اسلام کو زندہ رکھنے بالخصوص ایشیاء میں اسلامی تعلیمات ومذہبی امتیازات باقی رکھنے کے لئے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے چلائی تھی، پھر اس کو اکابر علماء دیوبند نے تھام لیااور پروان چڑھایا، یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ کے بیشمار مسلمان اس کافلہ ولی اللہی میں شامل ہوگئے۔ برصغیر (جوکہ آٹھ ملکوں پر مشتمل ہے) کو انگریزوں کی ظالم حکومت سے آزاد کرنے کے لئے ۱۸۵۷ء میں حاجی امداداللہ مہاجر مکی کی قیادت میں، حضرت مولانا قاسم نانوتویؒ ، حضرت گنگوہیؒ اور حافظ جامن شہیدؒ نے ایک لشکر کے ذریعہ شاملی کے مدیان میں انگریزوں سے جہاد کیا تھا اس کے علاوہ تحریک دینی مدارس، تحریک جنگ آزادی، تحریک ریشمی رومال، تحریک یاغستان، تحریک جمعےۃ علماء ہند، تحریک ترک موالات، تحریک دعوت وتبلیغ، تحریک ختم نبوت، تحریک مسلم پرسنل لا بورڈ جیسی تحریک بھی اسی سرزمین سے اٹھی۔ ہندوستان کی جنگ آزادی میں دارالعلوم کی قربانی کو کبھی فراموش نہیں کیاجاسکتا۔ خیر صبح کے وقت درسگاہ کا وقت ہوچلا تھا، میری خواہش پر تاج الدین بھائی مجھے درسگاہ لے گئے جہاں دارالحدیث کے وسیع وعریض ہال میں حضرت مولانا مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری کا طحاوی شریف کا درس چل رہاتھا، میری خوش قسمتی ہے کہ مفتی سعید صاحب کے درس کے علاوہ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق صاحب اعظمی جیسے جلیل القدر بزرگ دین کے بخاری شریف کا متبرک درس نصیب ہوا۔ اس درمیان ہال کا جو منظر دیکھا وہ آج بھی میرے حسین لمحوں میں سے ایک ہے۔ تقریباً ۹۰۰ طلباء سے بھرا یہ دارالحدیث تنگ دامنی کا شکوہ کررہی تھی، بعض حضرات کو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ دارالعلوم میں صرف علم حدیث پر زیادہ زور دیا جاتا ہے جب کہ قرآن پر زیادہ محنت کرانا چاہئے، اس کا جواب حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان صاحب دامت برکاتہم نے علامہ ابراہیم صاحب بلیاوی رحمۃ اللہ کے واسطے سے بتاتے ہیں کہ ’’علم حدیث ہی درحقیقت قرآن کی تفسیر ہے اس لئے کہ بغیر احادیث کے قرآن کا سمجھنا ناممکن ہے‘‘ جب یہ بات معلوم ہوگئی کہ احادیث شریفہ کی قرآن کی تشریح ہے تو اس لئے اس پر دارالعلوم کی سب سے زیادہ توجہ رہتی ہے اور اس توجہ کا نتیجہ دنیا میں یہ برآمد ہوتا ہے کہ سینکڑوں احادیث طلبا کو زبانی یاد ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر حضرت مولانا عبدالخالق صاحب مدراسی نے ایک واقعہ سنایا کہ ’’سعودی عرب میں حدیث کے متعلق عالمی پیمانہ پر ایک مسابقہ منعقد ہوا اس میں یہ شرط تھی کہ تین گھنٹوں میں پچاس منتخب احادیث کو قرآن پاک کی تفسیر ثابت کرنا ہے، اس مقابلے میں دنیائے اسلام کے نامور یونیورسٹیز کے فضلاء کو دعوت دی گئی تھی، اس میں دارالعلوم کے ایک طالب علم نے بھی حصہ لیا اور محض تین گھنٹوں میں 48احادیث کو قرآنی آیات کی تفسیر بناکر پیش کردیا۔ جبکہ دیگر جامعات کے طلبا 14۔15احادیث پر ہی تھک ہار کر بیٹھ گئے اور ا س طرح فاضل دارالعلوم نے پہلا انعام حاصل کرلیا‘‘، حضرت مولانا مدراسی مدظلہ العالی نے مزید آگے بتایا کہ ’’علم حدیث پڑھنے سے ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے شان صحابیت پیدا ہوتی ہے‘‘ کیوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اور سیرت کو احادیث کے آئینہ میں دیکھنے کا حسین موقع ملتا ہے اور کم از کم بکثرت درود شریف پڑھنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صرف دورۂ حدیث شریف میں کم سے کم 20ہزار مرتبہ درود شریف ایک دن میں پڑھا جاتا ہے۔ دارالعلوم کی تعلیم کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’دارلعلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت مولانا احمد صاحبؒ (حضرت نانوتوی کے فرزند اور قاری محمد طیب صاحبؒ کے والد ماجد) سے حیدرآباد دکن کے بادشاہ نظام نے یہ خواہش ظاہر کی تھی کہ ’’اگر دارالعلوم کے فضلاء ہر سال سارے کے سارے حیدرآباد بھجوائے جائیں تو انہیں اعلیٰ قسم کی ملازمت دی جائے گی‘‘ تو حضرت رشید احمد گنگوہیؒ (جو اس وقت دارالعلوم کے سرپرست تھے) نے فرمایا کہ ’’ بھئی ! ہم طلباء کو اچھی اور اونچی ملازمتوں کے لئے نہیں پڑھارہے ہیں بلکہ ہم تو اس لئے پڑھاتے ہیں کہ مساجد اور قرآن کے مکاتب آباد رہیں اور مسلمانوں کو نماز اور قرآن کریم پڑھانے والے ائمہ اور استاذ ملتے رہیں‘‘(ماہنامہ اتحاد علماء دیوبند صفحہ ۵۶)
حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیبؒ آب زر سے لکھنے جانے کے قابل الفاظ فرماگئے ہیں، انہوں نے کہا تھا کہ ’’اگر لارڈ میکولے (انگریزی مؤرخ) نے یہ کہہ کر اپنا نظام تعلیم ہندوستان میں پھیلایا کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان پیدا کرنا ہے جو رنگ ونسل کے لحاظ سے ہندوستانی ہو مگر روح وفکر کے لحاظ سے انگلستانی، تو بانی دارالعلوم دیوبند مولانا قاسم نانوتویؒ نے دارالعلوم کی بنیاد ڈالتے ہوئے زبان حال سے یہ صدا بلند کی کہ ہماری تعلیم کا مقصد ایسے نوجوان تیار کرنا ہے جو رنگ ونسل کے اعتبار سے ہندی وسندھی، ایرانی وافغانی، فراسانی وترکستانی ہو لیکن روح کے اعتبار سے اسلامی ‘‘ (مثالی شخصیات ومقدمہ سوانح قاسمی )۔ ویسے تو دارالعلوم کے طلبا ہر سطح پر اپنی صلاحیت کے لوہا منوایا ہے مگر تحریری صلاحیت کا فن دارالعلوم کے خمیر میں روز اول ہی سے گوندھا ہوا ہے، چنانچہ حضرت مولانا سالم صاحب قاسمی دامت برکاتہم نے اپنی مجلس میں فرمایا کہ ’’جب جواہر لال نہرو کو روسؔ کے ایک جلسہ میں اردو زبان میں سپاس نامہ پیش کیا گیا تو وہ حیرت میں پڑگیا کہ یہاں پر اتنی فصیح وبلیغ اردو لکھنے والے کیسے آگئے، جب سپاس نامہ پڑھ کر دیا جارہا تھا تو انہوں نے دینے والے لڑکے کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا تم نے یہ اردو کہاں سے سیکھی ہے؟ اس نے کہا میں دارالعلوم دیوبند سے پانچ سال پڑھ کر آیا ہوں۔ بحرکیف دارالعلوم کے تین دنوں کے ایام میں تمام تاریخی جگہوں کو اپنی دل ودماغ میں پیوست کیا، جیسے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک سے مس کیا ہوا رومال جو دارالعلوم کے دفتر محاسبی میں کانچ (شیشہ) کے فریم میں رکھا ہوا ہے، یہ رومال کئی سالوں تک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جبہ مبارک کے ساتھ رکھا ہوا تھا، اس رومال کو دولت عثمانیہ کی جانب سے ترکی کے بادشاہ سلطان معظم نے دارالعلوم کو تحفہ میں پیش کیا تھا‘‘ اسی طرح دارالعلوم کی جو پہلی عمارت ہے نودرہ جو احاطہ ملسرا کے نام سے مشہورہے اس کا بھی معائنہ کیا، اس نودرہ عمارت کے احاطے میں ملسرا کے دو درخت ہیں جو احاطے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہیں۔ اسی احاطے میں وہ تاریخی کنواں ہے جو نودرہ کی تعمیر کے وقت کھدوایا گیا تھا اس کے بارے میں حضرت شاہ رفیع الدین صاحبؒ نے خواب میں دیکھا تھا کہ کنواں دودھ سے بھرا ہوا ہے، محمد رسول اللہ علیہ وسلم پیالے سے دودھ تقسیم کررہے ہیں، بعض لوگوں کے پاس چھوٹے برتن ہیں اور بعض کے پاس بڑے برتن، ہر شخص اپنا اپنا برتن بھرواکر لے جارہا ہے، مولانا نے برتنوں کے چھوٹے بڑے ہونے کی تعبیر یہ دی کہ اس سے ہر شخص کا ظرف علم مراد ہے (تاریخ دارالعلوم اول، صفحہ ۱۸۶)
پھر قاسمی قبرستان گیا جہاں مولانا قاسم نانوتویؒ ، قاری طیب صاحبؒ ، مولانا محمود حسن دیوبندیؒ ، رشید احمد گنگوہیؒ ، مولانا غلام رسول خاموشؔ ؒ ، مولانا مرغوب الرحمنؒ جیسے اولیاء اللہ آرام فرمارہے ہیں۔ قبرستان کے اندر داخل ہوتے ہی دل میں ایک عجیب سی ٹھنڈک محسوس ہوئی، فاتحہ پڑھ کر کچھ دیر کے لئے دل کے سکون کی خاطر وہیں پر بیٹھ گیا اور ایسا لگا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دنیا کے تمام چین وسکون انہی اولیاء اللہ کے قدموں میں دے رکھا ہے، پھر دارالعلوم کے عظیم الشان کتب خانہ کا بھی معائنہ کیا جس میں چاروں آسمانی کتاب قرآن، توریت، انجیل، زبور کے علاوہ مذہبی، اسلامی اور اخلاقی کتابوں کا بیش بہا ونادر ذخیرہ فراہم ہے۔ اس کتب خانہ سے بلاقید مذہب وملت ہر شخص کو استفادہ کی پوری آزادی حاصل ہے۔ ہر سال مختلف علم وفن کے اوسطاً 36ہزار کتابیں مطالعہ کرنے والوں دی اور لی جاتی ہیں۔ ۱۴۰۷ء کے شمار کے اعتبار سے کتب خانے میں ۷۰موضوعات پر ۱۶؍زبانوں میں کل کتابیں (۱۳۳۰۷۰ ) ایک لاکھ تیس ہزار ستر ہیں۔ اس کتب خانے میں ایک خاص کمرہ اکابر دیوبند کی مختلف موضوعات پر تصنیف وتالیف کردہ کتابوں سے بھرپور ہے، جس میں ۹۰۰ سے زائد کتابیں صرف مولانا شرف علی تھانویؒ کی لکھی ہوئی ہیں۔ کتب خانے میں کچھ نایاب چیزیں بھی موجود ہیں، جیسے سن ۷ ؁ھ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے کئی ملکوں کے بادشاہوں کے لئے بھیجے گئے خطوط ہیں جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انگوٹھی کا مہر موجود ہے۔ اس کی فوٹو کاپی آج بھی دارالعلوم میں محفوظ ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے مختلف نسخے بھی ہیں جس میں ہاتھ سے کشیدہ کاری کیا ہوا بھی شامل ہے۔ اس کتب خانے سے ہر سال ہزاروں طلبہ، اہل علم اور اصحاب فضل وکمال استفادہ کرتے ہیں، یہاں امریکہ، یوروپ، افریقہ اور ہندوستان کے مختلف شہروں سے ریسرچ کے لئے اہل تحقیق آتے ہیں اور ہفتوں قیام کرتے ہیں۔ پھر مسجد چھتہ میں اس حجرے مبارک کی بھی زیارت کی جہاں بانی دارالعلوم مولانا قاسم نانوتویؒ کا قیام گاہ تھا، اور اسی مسجد میں ایک انار کے درخت کے سایہ میں دارالعلوم کا آغاز ہوا تھا۔ پھر دارالعلوم وقف بھی گیا جو ہمارے اسلاف کی یادگار ہے، اس پوری بستی میں تقریباً ۲۰۰ مساجد ہیں اور یہی ہندوستان کے دینی کتابوں کا عظیم مرکز ہے اور ان کی تعداد ۱۰۰ سے بڑھ کر ہے۔ ان تمام جگہوں پر میرے مخلص دوست محمد تاج الدین دربھنگوی شانہ بشانہ قدم ملاکر میری رہنمائی کی اور ان مقامات سے متعارف کرایا، اگر یہ نہ ہوتے تو میرا دارالعلوم کا دیدار کرنا خواب ہی رہ جاتا۔ اس درمیان اپنے تمام ساتھیوں سے بھی ملاقات ہوئی جن سے ملے عرصہ گذر گیا تھا جن میں سعد اللہ بھائی سہرسہ، عبدالرحیم بھائی بیگو سرائے، طارق بھائی بیگو سرائے، اشتیاق احمد سمستی پور، دانش بھائی بیگوسرائے، محبوب بھائی مظفرپور، نظام الدین بھائی سمستی پور، تاج الدین بھائی دربھنگہ، حبیب اللہ بھائی، ابوموسیٰ بھائی، ضیاء الحق مدھوبنی، محمد معراج بیگوسرائے، کفیل احمد دربھنگہ وغیرہ شامل تھے۔ ان لوگوں سے مل کر دل عش عش ہوگیا اور تمام لوگوں کا چہرہ فرط مسرت سے کھل اُٹھا، یہ تمام مدرسہ اسلامیہ جامع العلوم مظفرپور کے رفیق تھے۔ ان کے علاوہ میرے ماموں زاد بھائی توفیق عالم سے بھی ملاقات ہوئی جو دارالعلوم سے متصل ایک مدرسہ میں زیر تعلیم تھا۔ ان تمام ساتھیوں نے فراغت کی خوشی میں اور میری آمد پر ایک پرتکلف عشائیہ بھی دیا جس میں قسم قسم کے کھانے کے انواع واقسام دسترخوان پر موجود تھے۔ دارالعلوم کی مکمل عظمت بیان کرنا میرے لئے مشکل ہی نہیں ناممکن سا ہے، اس لئے عالم اسلام کی ممتاز شخصیت اور برصغیر کی مایہ ناز ہستی جنہیں دنیا تھانوئ زمانہ شیخ الاسلام مولانا محمد تقی صاحب عثمانی جسٹس سپریم کورٹ پاکستان ونائب مہتمم دارالعلوم کراچی سے جانتی ہے بقول ان کے ’’دارالعلوم رشد وہدایت کا وہ عظیم سرچشمہ ہے جس کے فیض نے ہزاروں میل دور رہنے کے باوجود مجھ جیسے نہ جانے کتنے پیاسوں کو سیراب کیا ہے اور یہ ان نفوس قدسیہ کا دربار ہے جو اس آخری صدی میں دئیے کے مجدد ثابت ہوئے اور جنہوں نے قرآن وسنت کی علمی تفسیر اس آخری دور میں پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ اللہ کا بھیجا ہوا یہ دین آج بھی عمل کرنے والوں کے لئے سدا بہار ہے‘‘۔
المختصر یہ کہ دہلی جاکر اگر دارالعلوم کی زیارت نہ کرتا تو اس کا افسوس تاحیات رہتا۔ دہلی میں اس وقت تو ان مقامات کو نہیں دیکھ پایا،جس کی کسک تو ضرور تھی ، آگرہ کا تاج محل نہیں دیکھ پایا اس کی بھی للک ضرورت تھی مگر دارالعلوم جاکر تمام غم خوشیوں میں تبدیل ہوگیا اور اپنے خوابوں کے تاج محل کا دیدار کر برسوں کی تشنگی بجھالی۔ اخیر میں دارالعلوم دیکھنے کے بعد دل یہی کہنے پر مجبور ہوتا ہے:
’’اب تک جو سنا تھا وہ افسانہ نہیں
اور اب جو دیکھا وہ خواب نہیں‘‘
(مضمون نگار آزاد صحافی اور ایم اے فائنل ائیر،شعبہ اردو، دہلی یونیورسٹی، دہلی کے طالب علم ہیں)

SHARE