محمد شاہنواز عالم ندوی
ایک طویل عرصہ سے مسلم پرسنل لاءاور تین طلاق موضوع بحث ہے- تین طلاق کی قانونی اور شرعی حیثیت سے متعلق ہم کچھ نہیں کہیں گے- کیوں کہ اس پر بہت کچھ لکھا جاچکاہے- البتہ زیر سماعت مقدمہ کے تعلق سے اتنا باور کرانا ضروری ہے کہ تین طلاق کا مقدمہ ایک فرضی واقعہ ہے ، یہ ایک سازش اور خطرناک چال ہے- عدالت عظمیٰ سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اس طرح کا پیچیدہ فیصلہ صادر کرے گی- گزشتہ دنوں 18مئی کو عدالت عظمیٰ نے اس مقدمہ پرسماعت مکمل کرلی تھی اور فیصلہ محفوظ رکھاتھا- تب مسلمانوں کو شاید لگاتھاکہ مسلم پرسنل لاءکے حق میں فیصلہ آئے گا، اور اس سے مسلمانوں کے مابین ایک خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی- لیکن کھودا پہاڑ نکلی چوہیا کے مصداق مسلمانوں کی خوشی سراب سے زیادہ کچھ ثابت نہ ہوسکی اور ہوا وہی جو حکومت وقت، صاحب اقتدار پارٹی اور فسطائی ذہنیت کو مطلوب تھا-
6ماہ کی پابندی:- عدالت عظمیٰ نے تین طلاق پر 6ماہ کی پابندی عائد کردی ہے- ملک کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا جو حکومت کے ہاتھ بکا ہواہے، جس نے گزشتہ 3برسوں کے دوران ہر سچ کو جھوٹ اور ہر جھوٹ کو سچ ثابت کرنے میں اپنے تمام تر عیارانہ ومکارانہ ذہنیت کا استعمال کیاہے- اس میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی ہے، ایسا محسوس ہورہاہے کہ جیسے سپریم کورٹ کا فیصلہ ان کے لئے زندگی کی حرارت ، سخت اور چلچلاتی دھوپ ، تپتے ہوئے صحرا میں بھٹکے ہوئے پیاسے مسافر کو پانی ملنے سے کم نہ ہو- مودی اور حکومت وقت کے تلوے چاٹنے والوں کو ایک اور میدان ہاتھ آگیاہے-
قانون بنانے کی ہدایت:- عدالت عظمیٰ نے حکومت کو 6ماہ کے اندر اندر قانون بنانے کی ہدایت دے کر انتہائی عیارانہ اور مکارانہ انداز میں مسلمانوں اور مسلم پرسنل لاءکے خلاف ایک ایسا مورچہ کھولا ہے جس کو سمجھنا انتہائی دشوار ہے- عدالت عظمیٰ کے اختیار میں تھاکہ وہ قوانین کی شق دفعہ 25 کا حوالہ دے کر براہ راست یہ کہہ دیتی کہ ملک میں کسی بھی مذہب کے عائلی قوانین میں اس کو دخل دینے کا کوئی حق نہیں ہے- کیوں کہ ازیں قبل عدالت عظمیٰ نے 1981ءمیں دائر مقدمہ کرشنا سنگھ بمقابلہ متھوراآہر اور 1994 میں مہارشی آویدس بمقابلہ یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں اسی طرح 1996 میں مدھوکیشور بمقابلہ ریاست بہار کے مقدمہ میں اور 1997 میں احمد آباد گووند ایکشن گروپ بمقابلہ یونین آف انڈیا کے مقدمہ میں ہندو کوڈ بل کے تعلق سے یہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ پرسنل لاءعدالت کے جوڈیشیل اسکوپ میں آتا ہی نہیں ہے- لیکن ایسا کرنے سے عدالت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ججوں کا عہدہ خطرہ میں پڑجاتا- حالانکہ اس ملک میں ایک غیرجانبدار اور بااختیار ادارہ اگر کوئی ہے تو وہ صرف عدالتوں اور عدالتی نظام کا ادارہ ہے- ملک کے تمام سکیولر فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ذہنیت کے حامل افراد واقوام اس پر مکمل اعتماد وبھروسہ کرتے ہیں- لیکن چند برسوں سے یہ دیکھا جارہاہے کہ اس ادارہ پر بھی فسطائی ذہنیت کا قبضہ ہوچکاہے اور یہ ادارے بھی حکومت کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں- خیر عدالت عظمیٰ نے ایسی لاٹھی ماری ہے کہ لاٹھی بھی نہ ٹوٹے اور سانپ بھی مرجائے- اس فیصلہ سے عدالت نے حکومت کو مذہبی امور میں مداخلت کا پورا اختیار دے دیاہے اور بالفاظ دیگر حکومت کو اشارہ دیا ہے کہ تم جب چاہو یکساں سیول کوڈ، یونیفارم سیول کوڈ کا نفاذ کرسکتے ہو- اسی لئے تو ملک بھر کے اکثر الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیانے اس فیصلہ کے لئے یہ سرخی لگائی ہے- ”unconstitutional: SC strikes down Triple Talaq by 3:2 majority“ تین طلاق کو 3/2 کی اکثریت کے ساتھ عدالت نے عظمیٰ نے غیرقانونی قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی عائد کردی ہے اور اس سرخی کے ذیل میں خبر کی پہلی سطر کچھ اس طرح ہے ”سپریم کورٹ کے ایک آئینی بنچ نے ایک تاریخی فیصلہ میں آج ٹرپل طلاق کو قانون ہند کی دفعہ 14اور 15 کے تحت غیرقانونی اور قانون کی خلاف ورزی قراردیاہے-“مذکورہ جملوں سے میڈیا کی خوشی ومسرت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے-
فیصلہ یکسر مسلم مخالف:- مذکورہ فیصلہ کو سمجھنے سے قبل ہم ماضی وحال ایک جائزہ لینا مناسب سمجھتے ہیں- ماضی کی حکومتوں میں بھی یہ مسئلہ بڑے زوروشور سے اٹھایاگیاتھا- لیکن سابقہ حکومتوں کے دوران پیش آئے تمام معاملات کی اہمیت صرف اتنی تھی کہ وہاں چند ناخواندہ، اسلامی شریعت اور عائلی قوانین اور اس کی وسعت سے ناواقف، اسلام بیزار ماڈرن خواتین کی طرف سے وقفے وقفے سے مسلم پرسنل میں عدالت کو دخل دینے اور پرسنل میں تبدیلی کی خواہش ظاہر کی گئی تھی اور حکومتوں نے ان خواتین کی ہمدردی کے لئے اپنی جانب سے حلف نامے داخل کئے تھے- لیکن موجودہ حکومت جو یکسر مسلم مخالف ہے اور اس کے وجود کو خطرہ سمجھتی ہے اور ہر آن اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ جس طرح بھی ہو مسلمانوں کو بے وقعت قرار دے کر ملک میں برہمنیت کو فروغ دیا جائے -منوشاسترکا فرمان نافذ کیا جاسکے جس میں صرف اور صرف ایک قوم یعنی برہمن(جس کی تعداد پورے میں ملک میں آٹے میں نمک کے برابر ہے) ہی ہیرو اور سوپر پاور ہو اور پورا ملک اس کا غلام بن جائے- اس حکومت نے خود اس مسئلہ کو بھڑکایا ہے اور اس کی آڑ میں اپنے منصوبوں کو بروئے کار لانا چاہتی ہے- تین طلاق، طلاق، نکاح اور اس طرح کے دوسرے مسائل سے اس کو کوئی واسطہ نہیں ہے- اس کو واسطہ صرف اور صرف مسلم پرسنل لاءسے ہے جو اس کی راہ میں رکاوٹ بنا ہواہے- اس لئے ہر لحاظ سے آپ دیکھیں اور غور کریں تو یہ بات بالکل اظہر من الشمس نظر آئے گی کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ یکسرمسلم مخالف اور مسلم پرسنل لاءمخالف ہے- عدالت عظمیٰ نے نہایت اعلیٰ ذہنیت کا استعمال کرتے ہوئے ایک ایسے وقت میں ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے کہ اس پر کوئی آنچ بھی نہ آئے اور حکومت کو مطلوب ہتھیار بھی مل جائے- گویا یہ عدالت عظمیٰ کی دوغلی پالیسی اور فسطانیت ذہنیت کا اس پر قبضہ کی عکاسی ہے-
مسلم پرسنل لاءکے لئے لمحہ فکریہ:- ایسے میں مسلم پرسنل لاءکے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اور ایک ایسا چیلنج ہے جس کو قبول کرنا ملک میں مسلمانوں کی بقا اور اسلامی قانون وشریعت کی حفاظت کے لئے بہت ضروری ہے- لیکن عام مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنے تمام تر اختلافات کو بھلاکر اس نازک موڑ پر مسلم پرسنل کو اکیلا کھڑا کرنے کی بجائے متحدہ قوت کے ساتھ اس چیلنج کے مقابلہ کے لئے سامنے آئیں- پھر ایک بار یاد دلادوں کہ تین طلاق عدالت عظمیٰ یا حکومت کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس کے لئے مسئلہ مسلم پرسنل لاءبورڈ اور مسلمانوں کا عائلی قانون ہے- اللہ ہمیں متحد ہوکر مقابلہ کی توفیق عطا فرمائے اور مسلم پرسنل لاءکو ہرمیدان میں کامیابی عطاکرے- آمین
موبائل:9590555851، ای میل: msalamnadwi@gmail.com