طلاق ثلاثہ اور سپریم کورٹ کا فیصلہ

طاہر مدنی
کل 22 اگست کو سپریم کورٹ نے طلاق ثلاثہ کے سلسلہ میں اپنا فیصلہ سنادیا ہے – فیصلے میں ایک بات قابل قدر ھے کہ پرسنل لاء کو بنیادی حق تسلیم کیا گیا ھے اور اس کے تحفظ پر زور دیا گیا ھے، ورنہ کچھ لوگ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے نام سے اس کو ختم کرنے کی بات کرتے رھے ھیں. آئندہ یہ ایک نظیر بنے گا اور پرسنل لاء کے تحفظ میں اس سے مدد ملے گی،
ایک ساتھ تین طلاق کو اس میں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے اور 6ماہ کے اندر اس بارے میں قانون سازی کی ھدایت حکومت کو دی گئی ھے، اس کی وجہ سے پیچیدگی پیدا ھو گی. ایک ساتھ تین طلاق ناپسندیدہ ھے اور اسے طلاق بدعی میں شمار کیا جاتا ہے اور اس بارے میں مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے کی کوشش بھی ھورھی ھے کہ اس طرح طلاق نہ دی جائے، اس کے باوجود اگر کوئی نادان ایسا کرتا ھے تو کیا حکم شرعی ھوگا؟ یہ ایک خالص شرعی مسئلہ ھے، جس میں نہ کورٹ کو دخل دینے کا حق ھے اور نہ پارلیمنٹ کو، شرعی مسائل شریعت کی روشنی میں حل ھوں گے، نہ کہ غیر شرعی طریقے سے. اس بارے میں دو رائے معروف و مشھور ھے، تینوں طلاق ھو جائے گی یا ایک شمار ھوگی، جس رائے پر جس کو اطمینان ھے عمل کرتا ھے، مسلم ممالک کی جو مثال دی جاتی ھے، وہ غلط انداز سے پیش کی جاتی ھے، وہاں غیر قانونی نھیں قرار دیا گیا ہے، بلکہ ایک شمار کیا جاتا ہے. جبکہ یہاں غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، اس سے بڑی عملی پیچیدگی پیدا ھوگی، اب اگر کسی نے ایک ساتھ تین طلاق دے دی تو قانون کے لحاظ سے کچھ نھیں ھوگا، جبکہ شرعا طلاق کا وقوع ھوجائے گا، اب اگر وہ دونوں ساتھ رھتے ھیں تو شریعت کی رو سے حرامکاری ھوگی، جبکہ قانونی طور پر وہ ساتھ رہ سکتے ھیں. اندازہ کیجئے کہ اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا، مسلم سماج پر؟ توقع ھے کہ باغیرت اور صاحب ایمان عزت مآب مسلم و مومن خواتین از خود اسے رد کر دیں گی اور خلاف شریعت عمل کیلئے ھرگز راضی نھیں ھوں گی.
موجودہ حکومت کی مسلم دشمنی نمایاں ھے، اس لئے اس سے کسی معقول قانون سازی کی امید بھی نھیں کی جاسکتی، اس وقت سب لوگ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ساتھ کھڑے رھیں، مناسب مشورے دیں، اس کی ھدایات پر عمل کریں اور تحفظ شریعت کیلئے بورڈ کے شانہ سے شانہ ملا کر اپنا تاریخی رول ادا کریں. میڈیا میں اپنا موقف مضبوط طریقے سے رکھیں اور عام برادران وطن کو بھی احکام شریعت کی حکمت سمجھائیں. اسی کے ساتھ یہ بیداری پیدا کی جائے کہ ایک ساتھ تین طلاق کے ناپسندیدہ طریقہ کو ھرگز استعمال نہ کیا جائے، اگر طلاق کی نوبت آھی جائے تو طلاق سنی کا راستہ اختیار کیا جائے. یہ تحریک بھی چلانا وقت کی ضرورت ھے کہ ھم اپنے عائلی تنازعات عدالتوں میں نہ لے جائیں، شرعی پنچایت اور دار القضاء کے ذریعے ھی حل کرائیں.
اس نازک وقت میں حکمت و فراست، اتحاد و اتفاق اور مناسب حکمت عملی کی ضرورت ہے، بیجا تبصرے سے اجتناب ضروری ھے اور بورڈ کی خواتین ونگ کو زیادہ سرگرم کرنے کی ضرورت ہے. اللہ ھمارا حامی و ناصر ہو اور تاریخ کے اس نازک موقع پر ھمیں متحدہ کوشش کی توفیق بخشے. آمین

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں