شاہد معین قاسمی (دیوبند)
تین طلاق کے متعلق سپریم کورٹ کا جو تازہ فیصلہ آیا ہے اس کے بارے میں مسلمانوں میں مختلف قسم کی باتیں چل رہی ہیں، کچھ مسلمان یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آیا ہے اور اس میں مسلمانوں کو کامیابی حاصل ہوئی ہے، دیگر کچھ مسلمانوں کا یہ احساس ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے شریعت میں مداخلت کا دروازہ کھولا جارہا ہے ۔ صحیح صورتحال یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کے دو حصے (شق) ہیں اس کے پہلے حصہ میں یہ بات کہی ہے کہ مسلم پرسنل لاپوری طرح محفوظ ہے اور اس میں کمی یا اضافے کا کوئی حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے، یہ بات بڑی خوش آیند ہے اور مسلمانوں کے لئے حوصلہ افزا ہے کہ کورٹ نے مسلم پرسنل لا کے محفوظ ہونے اور اس میں کسی کمی یا اضافہ کئے جانے کی گنجائش کا انکار کیا ہے ۔ اس کا اثر انشاء اللہ آئندہ کورٹ کےفیصلوں پر بھی پڑے گا، فیصلہ کی اسی شق کا مسلم پرسنل لاء. اور جمعیۃ علماء ہند نے خیر مقدم کیا ہے، اور فیصلہ کے دوسرے حصہ میں تین طلاق کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ نے چھ مہینے تک اس پر پابندی لگا دی ہے اور حکومت سے اس بات کی سفارش کی گئی کہ وہ اس سلسلے میں قانون سازی کرے۔ فیصلے کا یہ ہی حصہ مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ کررہا ہے ، مولانا ولی رحمانی صاحب نے انہیں دونوں شقوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں تضاد ہے کیونکہ کورٹ ایک طرف تو اس بات کا اقرار کررہا ہے کہ شرعی احکام مسلم پرسنل لاء کا حصہ ہیں اور ان میں ترمیم و اضافے کا حق کورٹ کو حاصل نہیں ہے یعنی پرسنل لاء میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اور دوسری طرف تین طلاق غیر آئینی قرار دے رہا ہے اس لحاظ سے فیصلہ باہم ٹکرا رہا ہے، میڈیا نے بھی فیصلہ کے دونوں حصوں کی باریکی، اور کورٹ کے باہمی تضاد کو نذر انداز کرتے ہوئے معتبر اداروں کے بیان کو خیر مقدمی کلمات کی سرخی کے ساتھ شائع کیا، اور دونوں حصوں کو خلط ملط کردیا جس سے مسلمان تذبذب کا شکار رہے، سوشل میڈیا میں بھی ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا، سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹکرانے والوں سے بھی گزارش ہے کہ وہ کورٹ کے فیصلے پر مشتمل کاپی کے دونوں شقوں کا باریکی سے مطالعہ کریں، پھر اپنی آراء و مسائل کو پیش کریں، الغرض! مسلمانوں کو یہ تشویش ہے کہ کہیں سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا سہارا لے کر حکومت کوئی ایسی قانون سازی نہ کرے جس سے مسلمانوں کے مذہب میں مداخلت کا دروازہ کھل جائے، اور طلاق کے بعد دوسرے احکام شریعت کو بھی نشانہ بنایاجائے، اس لئے مسلمانان ہند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ پر امن رہتے ہوئے پوری طاقت و قوت سے اپنے اس موقف کا اظہار کریں کہ ہم اپنے دین و شریعت میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے اور اس ملک میں ہم مذہبی آزادی کے ساتھ جیتے آئے ہیں اور مذہبی آزادی کے ساتھ جیتے رہیں گے، ایک بات میں یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ فیصلہ آنے کے بعد میڈیا نے تصویر کا صرف یہ رخ پیش کیا کہ چند مسلمان عورتیں اس فیصلے پر خوشی منا رہی ہیں، مٹھائیاں تقسیم کررہی ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلمان عورتیں اس فیصلے سے خوش ہیں۔ حالانکہ یہ صحیح صورتحال نہیں ہے، چند عورتیں ہیں جنہیں شروع سے طلاق کے مسئلے میں استعمال کیاجارہا ہے، اس موقع پر بھی انہیں استعمال کیا گیا۔ مسلمانان ہند ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی طرف سے چلائی گئی دستخطی مہم کے ذریعے یہ بات واضح کرچکےہیں کہ وہ طلاق ، نکاح اور اس طرح کے دوسرے احکام شریعت سے پوری طرح مطمئن ہیں، پونے تین کروڑ عورتوں نے بھی دستخط کر کے اپنے اس موقف کا اظہار کیا کہ ہم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ساتھ ہیں اور احکام شریعت میں کسی طرح کی تبدیلی پسند نہیں کرتے، اس کے باوجود اگر میڈیا یہ تاثر دے رہا ہے کہ اس فیصلے سے اور تین طلاق کے ختم کئے جانے کی بات سے مسلمان عورتوں کو خوشی ہورہی ہے تو یہ غلط تصویر ہے جو پیش کی جارہی ہے۔ میں ایک مرتبہ پھر اپنی اس بات کو دہراتا ہوں کہ مسلمانوں کو پوری قوت کے ساتھ پر امن رہتے ہوئے اپنے اس موقف کا اظہار کرنا چاہئے کہ ہم مسلمانان ہند دین و شریعت میں کسی طرح کی مداخلت برداشت نہیں کریں گے۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ۱۰؍ستمبر۲۰۱۷ء کو بھوپال میں ورکنگ کمیٹی کا اجلاس رکھا ہے، وہاں اکابرین ملت ،علماء، زعماء جمع ہوں گے اور انشاء اللہ اس فیصلے کے تناظر میں آئندہ کی حکمت عملی طے کی جائے گی۔