طلاق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ کتنا مثبت کتنا منفی

مولانا محمود دریابادی
میڈیا اور سنگھی نمک خواران طلاق ثلاثہ پر عدالت عالیہ کے متضادفیصلے کے بعد سے ہی مستقل جشن منارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے گویا اس فیصلے کے بعد ہندوستان کے سارے مسائل حل ہوگئے ہیں اور ملک ایک بار پھر سونے کی چڑیا بن گیا ہے …
فرض کیجئے موجودہ فیصلہ صاف اور صریح طور پر مسلمانوں کے حق میں آتا تو کیا ہوتا کیا سنگھ کے ریمورٹ سے چلنے والی حکومت ٹھنڈے پیٹوں اس فیصلے کو برداشت کرلیتی …. ؟
ہر گز نہیں …! کئی حکومت اور بی جے پی کے عہداران فیصلے سے قبل صاف طور ہر کہہ چکے تھے کہ اگر فیصلہ تین طلاق کے حق میں آیا تو حکومت قانون بنا کر اس پر پابندی لگائے گی ….
اب سوال یہ ہے کہ کورٹ کےفیصلہ کو کس کے حق میں کہا جائے …؟ اس کے لئے پہلے چند باتوں پر غور کرنا چاہیے …
سپریم کورٹ کے سامنے پرسنل لا سے متعلق کئی مسائل پیش کیے گئے تھے … (1) کامن سول کوڈ نافذ کرنے کا معاملہ عدالت نے اس پر غور ہی نہیں کیا … (2 ) تعدد ازدواج پر پابندی .. عدالت اس پر بھی خاموش رہی … (3) مسلم پرسنل لا کو غیر دستوری قرار دینے کا معاملہ … عدالت نے اس کو خارج کردیا ….
اس سلسلے میں کامیابی کی بات یہ ہے کہ عدالت نے پرسنل لا کو نہ صرف دستور کے مطابق قرار دیا ہے بلکہ اس کو دستور کی دفعہ 25 کے تحت بنیادی حقوق میں بھی شامل مانا ہے …
واضح رہنا چاہیئے کہ دستور میں دیئے گئے بنیادی حقوق وہ ہیں جن کو کوئی حکومت چھین نہیں سکتی، سپریم کورٹ سمیت ملک کی کوئی عدالت ان کے خلاف فیصلہ نہیں دے سکتی … ہندوستان کی کسی اسمبلی بلکہ پارلمنٹ میں بھی اس وقت تک ان کے خلاف کوئی قانون پاس نہیں ہوسکتا جب تک پارلمنٹ کے دونوں ایوانوں میں ممبران کی دوتہائی اکثریت دستور میں اس ترمیم کو منظور نہ کرلے ….
اس لئےعدالت کے اس فیصلے سے کامن سول کوڈ کا دروازہ بند ہوگیا ہے، یہ ایک بڑی کامیابی  ہے …
اب رہا طلاق ثلاثہ کا معاملہ تو مخالفین کی کوشش تو مطلقاً انفرادی طلاق پر پابندی لگوا کر یہ حق عدالت کے سپرد کرنے کی تھی جیسا کہ دوسرے مذاہب میں برسوں لگ جاتے ہیں … مگر عدالت نے طلاق پر کوئی پابندی نہیں لگائی، بلکہ تین طلاق کو شریعت کا حصہ بھی تسلیم کیا ہے … ہاں بیک وقت تین طلاق کو شریعت کا حصہ تسلیم نہ کرتے ہوئے چھ ماہ کے اندر حکومت کو اس کے خلاف قانون بنانے کے لئے کہا ہے تب تک بیک وقت تین طلاق پر پابندی لگادی ہے …. یہ بھی سمجھنا چاہیئے کہ یہ عدالت کا اتفاقی فیصلہ نہیں ہے پانچ میں سے دو جج جس میں خود چیف جسٹس شامل ہیں اس کے خلاف تھے … مگر تین ججوں کی اکثریت نے جو بات کہی ہے اسی کو عدالت کا فیصلہ سمجھا جائے گا۔
فیصلے کا مذکورہ بالا حصہ یقیناً  ایسا ہے جو ہمارے لئے باعت تشویش ہے … مگر یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیئے کہ خود مسلمانوں میں بھی بیک وقت تین طلاق پر اختلاف پایا جاتا ہے.یہ بات جج صاحبان کے علم میں بھی تھی … خود ہمارے وکلا نے بھی بیک وقت تین طلاق کو ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف ایڈوائزری جاری کرنے کی بات کی تھی بلکہ اس کا نمونہ نھی عدالت میں پیش کیا تھا … ایسے میں ہم یہ کیسے امید رکھتے کہ عدالت بیک وقت تین طلاق کو بھی بنیادی حقوق میں شامل کرتی ….
بہر حال موجودہ حالات میں اگر کوئی بیک وقت تین طلاق دیتا ہے تو شرعی طور پر تو تینوں نافذ ہوجائیں گی مگر قانونی طور پر نافذ نہیں ہوں گی …
ایسے میں وہ مٹھی بھر عورتیں جن کی نظر میں شریعت کی کوئی اہمیت نہیں ہے وہ کتنی ہی بغلیں بجائیں، شیرینی تقسیم کریں مگر خالص مسلمان خواتین خوب جانتی ہیں کہ تین طلاق ہوجانے کے بعد شرعی طور پر رشتہ نکاح ختم ہوجاتا ہے اور کل تک جو شوہر تھا وہ اجنبی بن جاتا ہے … اور کوئی بھی غیرت مند مسلمان عورت کسی اجنبی کے ساتھ رہنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی …
اس لئے اس فیصلے سے اسلام پسندوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا…
اس فیصلے کا ایک اور مثبت اثر یہ بھی پڑسکتا ہے کہ حکومت کے قانون کے ڈر سے جو بعض جہلا بیک وقت تین طلاقیں دیدیتے ہیں ان میں کمی آئے گی …
بہر حال اب حکومت عدالت کی ہدایت کے مطابق جب بھی قانون بنائے اسے دستور کی دفعہ 25 میں دئیے گئے بنیادی حق کا خیال رکھتے ہوئے بنانا ہوگا … کیونکہ عدالت نے مسلم پرسنل لا کو مسلمانوں کا بنیادی حق تسلیم کرلیا ہے …
اسی کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھی پوری بیداری کے ساتھ اپنے بنیادی حقوق کی حفاظت کے لئے مستعد رہنا ہوگا کیونکہ …. ؎
بدلتی جس وقت ظالم کی نیت
نہیں کام آتی دلیل اور حجت

.