طلاق: انصاف تو ہر مسلم عورت کو چاہئے

ڈاکٹر یامین انصاری

کیا موجودہ حکومت اور اس کے نمائندوں سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ واقعی مسلم خواتین کو در پیش سبھی مسائل کے تئیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں گے؟
سپریم کورٹ نے منگل کو طلاق کے سلسلہ میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے ایک ساتھ تین طلاق کے مروجہ چلن پر پابندی عائد کر دی اور حکومت سے اس بارے میں پارلیمنٹ میں نئے قوانین وضع کرنے کو کہا ۔ چیف جسٹس جگدیش سنگھ کھیہر کی سربراہی میں پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے اس اہم کیس کی سماعت کی تھی، جس میں سے تین ججوں نے تین طلاقوں کو غیر آئینی قرار دیا، جبکہ چیف جسٹس سمیت دو جج اس کے حق میں تھے، جنھوں نے حکومت سے کہا کہ وہ اس بارے میں قانون بنائے۔سپریم کورٹ میں اس بارے میں کئی درخواستیں دائر کی گئی تھیں اور سوالات اٹھائے گئے تھے کہ تین طلاق سے مسلم خواتین کے حقوق کی پامالی ہوتی ہے یا نہیں۔ عدالت نے اس پر مئی میں سماعت مکمل کی تھی اور اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ سماعت کے دوران ہی عدالت نے کہا تھا کہ کچھ تنظیمیں تین طلاق کے رواج کو جائز سمجھتی ہیں، لیکن شادی کو توڑنے کا یہ طریقہ درست نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی پانچ رکنی بینچ میں چیف جسٹس جے ایس کھیہر، جسٹس کروئین جوزف، جسٹس یو یو للت، جسٹس عبدالنذیر اور جسٹس روہنگٹن ایف ناریمن شامل تھے۔ان میں سے جسٹس کوریئن جوزف، جسٹس یو یوللت اور جسٹس روہنگٹن ایف ناریمن نے تین طلاق کو غیر آئینی قرار دیا، جبکہ چیف جسٹس جے ایس کھیہر اور جسٹس عبدالنذیر تین طلاق کے حق میں تھے۔چیف جسٹس جے ایس کھیہر کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے سیاسی مفادات کو الگ رکھ کر متحدہ طور پر پارلیمنٹ میں اس پر فیصلہ کرنا چاہیے۔عدالت کا کہنا تھا کہ جب مذہب کے مطابق بھی تین طلاق کا چلن درست نہیں ہے تو پھر یہ جائز کیسے ہوسکتا ہے؟ تین طلاق کی متاثرہ ایک خاتون سائرہ بانو اور بعض دیگر خواتین کی عرضی پر سماعت کے سپریم کورٹ نے اس پر سماعت کی تھی۔ موجودہ مرکزی حکومت نے بھی عدالت میں تین طلاق کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
موجودہ حکومت اور اس سے وابستہ لوگ اس مسئلہ میں کچھ زیادہ ہی دلچسپی لیتے نظر آرہے ہیں۔در اصل طلاق کے مسئلہ کو اس قدر بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے پیچھے اصل مقصد کچھ اور ہے۔ مقصد یہ بالکل نہیں ہے کہ مسلم خواتین کو با اختیار بنایا جائے اور انھیں ان کے حقوق فراہم کرنے کی راہ ہموار کی جائے، بلکہ مسلم خواتین کے مساوی حقوق واختیارات کے نام پر سیاسی مقاصد کی تکمیل کرنا اور مسلم معاشرے کو ظالم و جابر اور قدامت پسند کے طور پر پیش کرنا مقصود ہے۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بی جے پی لیڈران کے بیانات آرہے ہیں اور وہ مسلم خواتین کے ساتھ جس ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں تو کیا اس بات پر یقین کیا جا سکتا ہے کہ امت شاہ جیسے لوگ واقعی مسلمانوں یا مسلم خواتین کی بہتری کے لئے ان کے حق میں کچھ کام کرنا چاہتے ہیں؟ آخر آر ایس ایس، بی جے پی، شیو سینا اور دیگر ہندتو وادی طاقتوں کو تین طلاق سے کیا لینا دینا ہے؟ ایک طرف ان لوگوں کو مسلمانوں کے نام سے نفرت ہے، کھلے عام انھیں بات بات پر ملک کا دشمن اور غدار قرار دینے کی مذموم کوششیں کرتے ہیں، ان کے کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، نماز، عبادات اور تہواروںپر پہرہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف مسلم خواتین سے ہمدردی کا ایسا اظہار؟ آخر کیسے یقین کر لیا جائے کہ نریندر مودی اور امت شاہ کی یہ جوڑی مسلم خواتین کے مسائل کے تئیں اس قدر سنجیدہ ہے۔کیوں کہ ۲۰۰۲ءکے مسلم کش گجرات فسادات کے دوران جب یہ دونوں گجرات پر ’راج‘ کر رہے تھے، مسلم خواتین اور بچوں کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا، اسے دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہی مظلومین میں سے ایک ذکیہ جعفری آج بھی انصاف کے انتظار میں ضعیف ہو چکی ہیں۔ انصاف کے انتظار میں وہ آج بھی عدالتوں کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے ہیں۔ ظاہرہ شیخ، کوثر بی، عشرت جہاں، ان سب خواتین کا تعلق بھی گجرات سے ہی ہے۔ یا پھر فسادات میں مارے گئے مرد بھی کسی کے عورت کے شوہر تھے، کسی عورت کے بھائی تھے، کسی عورت کے بڑھاپے کا سہارا تھے، آخر ان عورتوں کے انصاف کی بات کون کر ے گا؟ انھیں انصاف کون دلوائے گا؟سوال یہ بھی ہے کہ تین طلاق کو غیر قانونی یا اسے ختم کر دینے سے مسلم خواتین کو مساوی بنیادی حقوق و اختیارات کیسے حاصل ہوجائیں گے؟ان کی تعلیم، ان کی بے روزگاری، ان کی صحت وغیرہ پر کون سی حکومت دھیان دے گی؟ جہاں تک طلاق کا مسئلہ ہے تو اس سلسلہ میں مسئلہ بالکل واضح ہے کہ شوہر اور بیوی جس مکتب فکر سے بھی تعلق رکھتے ہوں، اس کے مطابق فیصلہ کردیا جائے۔ چاہے وہ تین طلاق کو تین یا تین کو ایک تسلیم کرتے ہوں۔
ٓاس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آج مسلم معاشرہ بے راہ روی کا شکار ہے اور مختلف قسم کی خرابیاں معاشرے میں گھر کر چکی ہیں۔ شرعی احکامات اور تمام تر کوششوں کے با وجود یہ خرابیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ انہی بڑی خرابیوں میں ایک بڑی خرابی طلاق کا عمل بھی ہے۔ اگرچہ مسلم معاشرے میں طلاق کی شرح بہت معمولی ہے، لیکن پھر بھی جس خاتون کے ساتھ یہ نا پسندیدہ عمل ہوتا ہے، اس سے نہ صرف وہ خاتون طرح طرح کی پریشانیوں میں مبتلا ہوجاتی ہے، بلکہ دونوں خاندانوں کو پریشانیوں کا سامنا کرنا ہوتا ہے۔حالانکہ اسلام نے ہمیں زحمتوں سے بچانے اور زوجین کی تلخ بھری زندگی میں سکون لانے کے لئے طلاق کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔اس اعتراف حقیقت کے ساتھ کہ حلال چیزوں میں سب سے نا پسندیدہ چیز اللہ کے نزدیک طلاق ہے۔پھر بھی اسے جائز ر کھا کہ اگر زوجین کا ایک ساتھ رہنا بالکل محال ہوجائے تو طلاق کو عمل میں لاکر ایک دوسرے سے علیحدگی اختیار کرلیں اور اپنی اپنی جگہ سکون کی زندگی گزارسکیں۔ اس کے لئے اسلام نے جو مرحلہ وارترتیب قائم کی ہے، اس سے کوئی بھی سنجیدہ انسان اسلامی قوانین کی تعریف کئے بغیر نہیںرہ سکتا ۔ ارشاد با ری تعالی ہے” اور اگر تم کو میاں بیوی کے اندر جھگڑے کا اندیشہ ہوتو ایک پنچ مرد والوں کی طرف سے اور ایک پنچ عورت والوں کی طرف سے بھیجواگر یہ صلح کرانا چاہیں تو اللہ ان میں میل کرا دے گا بے شک اللہ جاننے والا باخبر ہے“۔(سورہ نسائ۔۵۳)پھر بھی اگر فریقین صلح پر راضی نہ ہوں اور ایک ساتھ رہنے میں تنگی و خرابی محسوس کریں توپھر طلاق کو عمل میں لایا جائے، تاکہ عمر وحالات کے اعتبار سے دونوں پر سکون زندگی اختیار کر سکیں اور آزاد و علیحدہ ہوکر اپنی پسند کی زندگی گزار سکیں۔اس لئے اسلام نے طلاق کے سلسلے میں بھی ہماری بھرپور رہنمائی کی ہے۔ دوسری بات یہ کہ نکاح کے دو پہلو ہیں۔ایک یہ کہ عورت اس مرد کے ساتھ تاحیات رہنے کے لئے راضی ہے یا نہیں اگرراضی نہیں تو بغیر عورت کی رضامندی اور اقرار کے نکاح منعقد نہیں ہو سکتاہے۔نکاح کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ مرد جس عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہے اس کے لئے مہر کی رقم ،رہائش ،کھانا ،پینا ،کپڑااور دیگر ضروری واجبات اٹھا نے کی ذمہ داری لیتا ہے یا نہیں ۔اسی لئے نکاح میں مرد وعورت دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔البتہ طلاق کے موقع پر یہ صورت یک طرفہ ہوجاتی ہے کیوں کہ طلاق کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مرد اپنی ازدوجی اندگی کی تمام ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہتا ہے اور مزید آگے کی زندگی میں اس کو نہیں نباہ سکتا ہے۔اس لئے طلاق عورت کی اجازت پر موقوف نہیں ہوتی۔ہاں اللہ نے مرد وعورت کو ایک دوسرے کا لباس اور ضرورتیں پوری کرنے کا ذریعہ بنایا ہے اس لئے مردکو اپنا حق طلاق استعمال کرتے وقت اللہ کے قائم کردہ نظامِ طلاق کو پوری پوری رعایت کرنا چاہئے ورنہ حق کا استعمال تو ہو جائے گا اس کے اثرات بھی مرتب ہوجائیں گے لیکن نظام اسلامی کے خلاف عمل کرنے کا گنہگار اور سخت گنہگار ہوگا ۔
بہر حال یہ خود احتسابی کا بھی وقت ہے۔ اس سلسلہ میں سوال یہ ہے کہ طلاق ثلاثہ آخر اس قدر تکلیف دہ کےوں بن گئی ہیں ، اگر واقعی اس سے سماج و معاشرہ خاص طور سے خاتون کو تکلیف ہے، اس کی وجہ سے گھر اجڑ رہے ہیں ، عورتیں پریشان ہےں ، تو اس پر علماءوفقہاءکی ذمہ داری بھی کچھ ذمہ داری بنتی ہے کہ تمام پہلوﺅں کافی وشافی بحث کرکے ایک متوازن راہ اختیار کریں ۔

(مضمون نگار سینئر صحافی اور روزنامہ انقلاب کے ریزڈینٹ ایڈیٹڑ ہیں)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں